• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آسٹریلیا میں 1969 میں گرنے والے شہابیے کے تجزیے کے بعد پتا چلا کہ یہ کم از کم ساڑھے سات ارب سال پرانے ہیں

سائنس داں کرہ ٔ ارض میں پوشیدہ قدیم ترین چیزیں تلاش کرنے کے لیے دریافتیں کرتے رہتے ہیں ۔حال ہی میں سائنس دانوں نے 1960 ء میں زمین پر گرنے والی خلائی چٹان میں گرد کے ذرّات حاصل کیے ہیں جو اکم ازکم ساڑھے سات سال پرانے ہیں ۔قدیم ترین دھول یا گرد کے ذرّات ہمارے نظام شمسی کے پیدا ہونے سے بہت پہلے ستاروں میں وجود میں آگئے تھے۔ماہرین کے مطابق یہ مادّہ پچھلے کئی ارب سال سے ایک خلائی پتھر میں بند تھا جو شاید کسی دوسرے اور دور دراز ستارے سے وجود میں آیا تھا اور تھوڑے عر صے بعد وہاں سے غائب ہوگیا تھا۔

چند ارب سال بعد یہ زمین کی کشش ِثقل کی گرفت میں آگیا۔ویسے تو یہ کئی ٹن وزنی تھا لیکن زمینی فضا کے ساتھ زبردست رگڑ اور تیز رفتاری کے سبب یہ انگارے کی طر ح دہکتا ہو اسطح زمین کی طر ف بڑھا ۔ فضا سے زمین تک کے سفر میں اس شہابِ ثاقب کا بیشتر حصہ گرم راکھ بن کر ہوا میں اُڑ گیا لیکن پھر بھی اس کا 100 کلوگرام جتنا ٹکڑا، ایک بڑے پتھر کی شکل میں، زمین سے ٹکرانے میں کامیاب ہوگیا؛ جسے آسٹریلوی ماہرین نے اپنی تحویل میں لے لیا۔محققین کی ایک ٹیم نے پروسیڈ نگز آف دی نیشنل اکیڈمی آف سائنس میں اپنے نتا ئج کو پیش کیا ہے ۔

جب ستارے مرتے ہیں تو ان میں بننے والے ذرّات اچھل کر خلا میں پھیل جاتے ہیں ۔یہ نظام شمسی سے قبل والے ذرّات پھر نئے ستارے، سیارے، چاند اور شہابیوں میں شامل ہو جاتے ہیں۔اس تحقیق کے اہم مصنف اور شکاگو فیلڈ میوزیم کے کیوریٹر اور شکاگو یونیورسٹی کے ایسوسی ایٹ پروفیسر فلپ ہیک کے مطابق یہ ستاروں کے ٹھوس نمونے ہیں، حقیقی ستاروں کے غبار۔امریکا اور سوئٹزرلینڈ کے محققوں نے 1969 ءمیں آسٹریلیا میں گرنے والے مرچیسن شہابیے کے ایک حصے میں موجود نظام شمسی کے وجود میں آنے سے قبل والے 40 ذرّات کی جانچ کی۔

فیلڈ میوزیم اور شکاگو یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والی اس تحقیق کی شریک مصنف جینیکا گریر کا کہنا ہے کہ یہ شہابیے کے پس کر پاؤڈر بن جانے والے حصے سے شروع ہوتا ہے۔جب تمام ٹکڑوں کو علیحدہ کر لیا جاتا ہے تو یہ پیسٹ کی شکل اختیار کرلیتا ہے اور اس میں مسالے دار خصوصیت ہوتی ہے جو کہ سڑی ہوئی مونگ پھلی اور مکھن جیسی بو دیتا ہے۔اس بدبودار پیسٹ کو پھر تیزاب میں گھلایا جاتا ہے، جس کے بعد صرف اسٹارڈسٹ یعنی ستاروں کا غبار بچ جاتا ہے۔

فلپ ہیک کے مطابق یہ پیال کے ڈھیر کو جلا کر سوئی تلاش کرنے جیسا ہے۔یہ پتا چلانے کے لیے کہ یہ ذرات کتنے پرانے ہیں محققین نے یہ پیمائش کی کہ وہ خلا میں کائناتی کرنوں کے سامنے کتنا رہے۔ یہ کرنیں اعلیٰ توانائی والی ہوتی ہیں جو کہکشاؤں سے گزرتی ہیں اور ٹھوس مادّوں میں بھی داخل ہو جاتی ہیں۔یہ کرنیں خود سے ٹکرانے والے مادّوں سے رابطہ کرکے نئے عناصر بناتی ہیں۔ جتنی دیر تک یہ مادّے کرنوں کے سامنے رہتے ہیں اتنی ہی دیر تک وہ عناصر بناتے رہتے ہیں۔

محققین نے ذرّات کی عمر کا پتہ چلانےکے لیے عناصر نیون کی خاص شکل (آئیسوٹوپ) این آئی 21 کا استعمال کیا۔ماہرین اس کا بارانی طوفان میں ایک بالٹی رکھنے سے موازنہ کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر بارش مسلسل ہو رہی ہے اور پانی کی جو مقدار بالٹی میں جمع ہوتی ہے وہ یہ بتاتی ہے کہ بالٹی بارش میں کتنی دیر تک رہی۔اس میں جتنے نئے عناصر شامل ہوتے ہیں وہ یہ بتاتے ہیں کہ ذرّات کتنی دیر کائناتی کرنوں کے رابطے میں رہے اور وہ کتنے پرانے ہیں۔

ماہرین کےمطابق نظام شمسی کے بننے سے پہلے بعض ذرّات دریافت ہونے والے قدیم ترین ذرّات ثابت ہوئے ہیں ۔ ان میں سے زیادہ تر 4.6 سے 4.9 ارب سال تک پرانے ہیں۔تخمینے کے مطابق سورج 4.6 ارب سال پرانا ہے جب کہ زمین کی عمر 4.5 ارب سال ہے۔بہر حال سب سے قدیم دریافت تقریبا ًساڑھے سات ارب 7.5 سال پرانی ہے۔شکاگو میں فیلڈ میوزیم آف نیچرل ہسٹری کے سائنس دانوں نے اس شہابِ ثاقب کا 52 کلوگرام وزنی حصہ تحقیق کی غرض سے امریکا منگوالیا ہے۔ 

وہ یہ جاننے کی کوشش کر رہے ہیں کہ اس میں پوشیدہ مادّے کتنے قدیم ہیں۔ یہ مادّے بہت معمولی مقدار میں اور خرد بینی ذرّات کی شکل میں ہوتے ہیں۔ جنہیں ’’پری سولرز گرینز‘‘ (سورج سے بھی قدیم ذرّے) کہا جاتا ہے۔ تاہم، مذکورہ شہابِ ثاقب سے ملنے والا یہ مادّہ نہ صرف ہمارے اپنے نظامِ شمسی سے، بلکہ اب تک کسی بھی دوسرے شہابِ ثاقب سے ملنے والے مادّے سے بھی زیادہ قدیم ہے۔

ڈاکٹر ہیک کا کہنا ہے کہ صرف دس فیصد ذرّات 5.5 ارب سال سے زیادہ پرانے ہیں جب کہ 60 فی صدذرّات 'نوجوان ہیں جن کی عمریں 4.6 ارب سال سے 4.9 ارب سال کے درمیان ہے اور باقی ماندہ قدیم ترین اور جدید ترین کے درمیان ہے۔ان کا مزیدکہنا ہے کہ مرچنسن اور دوسرے شہابیوں میں نظام شمسی کے وجود سے قبل کے بہت ساری دھات ہیں۔ جن کی ابھی تک ہم نشاندہی کرنے میں قاصر ہیں۔

اس سے قبل قدیم ترین نظام شمسی سے قبل کے ذرّات کی دریافت نیون آئسوٹوپ کے معیار پر 5.5 ارب سال کی ہوئی تھی۔یہ دریافت اس مباحثے پر روشنی ڈالتی ہےکہ کیا نئے تارے مستقل شرح پر بنتے رہتے ہیں یا پھر وقت کے ساتھ نئے تاروں کے بننے میں رفتار میں کمی بیشی نظر آتی ہے۔

ڈاکٹر ہیک کے مطابق ان ذرات کی بدولت ہمارے پاس اب ہماری کہکشاں میں ستاروں کے وجود میں آنے کے وسیع زمانے پر پھیلے براہ راست شواہد ان شہابیوں کے نمونے میں موجود ہیں۔ یہ ہمارے مطالعے کی اہم دریافت ہے۔محققوں کا یہ بھی پتہ چلا ہے کہ نظام شمسی سے قبل والے ذرّات عام طور پر خلا میں ایک ساتھ چھپ کر گرانولا کی طرح بڑے سے جھرمٹ کی شکل میں تیرتے تھے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کر ۂ ارض کے بارے میں کئی باتیں ہمارے ذہنوں میں اس طر ح رچ بس گئی ہیں کہ ہم ان کے بارے میں کوئی سوال نہیں کرتے ۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ جو ہم جانتے ہیں وہی سچ ہے۔ لیکن ہر معاملے میں ایسا ضروری تو نہیں۔دنیا سے متعلق حقائق کے بارے میں لکھنے والے سائنسداں میٹ براؤن نے اپنی کتاب 'ایوری تھنگ یو نیو اباؤٹ پلینٹ ارتھ از رانگ یعنی 'کرۂ ارض کے بارے میں آپ جو جانتے ہیں وہ غلط ہےمیں چند ایسی چیزوں کا ذکر کیا ہے جو آپ کی معلومات کو چیلنج کرتے ہیں۔ماہرین ابھی اس پر مزید تحقیقات کررہے ہیں ،تا کہ اور چیزوں کو دریافت کیا جاسکے۔

تازہ ترین
تازہ ترین