• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قریب ایک دہائی قبل تک دنیا بھر میں پاکستان کا شمار معیاری کپاس پیدا کرنے والے دنیا کے اہم ترین ممالک میں ہوتا تھا۔ نہ صرف دنیا بھر میں کپاس کی پیداوار میں پاکستان کا چوتھا نمبر تھا بلکہ روئی کے معیار کے حوالے سے بھی پاکستان کی ایک منفرد پہچان تھی کہ تیز دھوپ میں پیدا ہونے والی کپاس صرف پاکستان میں پیدا ہوتی تھی۔ جس کے باعث کئی یورپی ممالک کپڑے کی خاص اقسام تیار کرنے کیلئے صرف پاکستانی روئی درآمد کرتے تھے لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں زراعت اور خاص طور پر کپاس کی تباہی کا آغاز اس وقت ہوا جب پاکستان میں بعض ’’طاقتور‘‘ لوگوں نے کراپ زوننگ قوانین کی دھجیاں اڑاتے ہوئے کاٹن زونز میں نہ صرف نئی شوگر ملز قائم کیں بلکہ پہلے سے موجود شوگر ملز کی پیداواری صلاحیت میں بھی کئی گنا اضافہ کرکے زراعت کی تباہی کا ’’سنگِ بنیاد‘‘ رکھ دیا۔ سب کے علم میں ہے کہ ملکی معیشت کا زیادہ تر دار و مدار زراعت اور خاص طور پر کپاس پر منحصر ہے اور اسی اہمیت کے پیش نظر ہمارے سابقہ دانا حکمرانوں نے ساہیوال سے لے کر سندھ کے ضلع حیدر آباد اور سانگھڑ تک کے ایریا کو کراپ زوننگ قوانین کے تحت کاٹن زونز ڈکلیئر کیا تھا اور ان علاقوں میں نہ صرف گنے کی کاشت پر پابندی عائد کی تھی بلکہ ان علاقوں میں نئی شوگر ملز کے قیام اور قائم شدہ شوگر ملز کی پیداواری صلاحیت کے اضافے پر پابندی عائد کر دی گئی تھی تاکہ ان علاقوں میں زیادہ سے زیادہ کپاس پیدا ہو اور کپاس کو گنے کی کاشت کے باعث پیدا ہونے والی آلودگی سے بچانے کے ساتھ ساتھ ہزاروں ملین ایکڑ پانی بھی بچایا جا سکے، لیکن شومئی قسمت کہ پاکستان کے چند طاقتور ترین لوگوں نے پاکستان میں سب سے زیادہ کپاس پیدا کرنے والے ضلع رحیم یار خان کو نہ صرف ’’شوگر اسکوائر‘‘ بنا دیا بلکہ اس سے ملحقہ ضلع گھوٹکی میں بھی کئی شوگر ملز قائم کر دیں جس سے نہ صرف ضلع رحیم یار خان میں کپاس کی کاشت 8لاکھ 50ایکڑ سے کم ہوکر تقریباً 4لاکھ ایکڑ تک محدود ہو گئی بلکہ اس سے پیدا ہونے والی ماحولیاتی آلودگی کے باعث ان علاقوں میں پیدا ہونے والی کپاس کا معیار بھی متاثر ہوا جبکہ گنے کی کاشت کیلئے نہ صرف ہر سال ہزاروں ملین ایکڑ پانی ضائع ہو رہا ہے بلکہ زیر زمین پانی کی سطح بلند ہونے سے دیگر فصلوں کی پیداوار بھی بری طرح متاثر ہو رہی ہے۔

پاکستان میں کپاس کی پیداوار میں غیر معمولی کمی کی دوسری بڑی وجہ محکمہ موسمیات کی جانب سے بروقت اور درست موسمی پیش گوئیاں نہ ہونا ہے کیونکہ پاکستان کا شمار دنیا بھر میں گلوبل وارمنگ کی زد میں آنے والے بڑے ملکوں میں ہوتا ہے اس لیے ضرورت اس امر کی تھی کہ محکمہ موسمیات کو جدید ترین آلات سے لیس کیا جاتا تاکہ بروقت اور درست موسمیاتی پیش گوئیوں سے پاکستانی کسان اپنی فصلوں کی کاشت اور برداشت کیلئے کوئی حکمت عملی ترتیب دیتے لیکن بدقسمتی سے ایسا نہ ہو سکا۔ کاٹن ایئر 2019-20ء کیلئے ابتدائی طور پر حکومت نے کپاس کا مجموعی ملکی پیداواری ہدف 1کروڑ 50لاکھ بیلز مختص کیا تھا اور اس کیلئے ابتدائی ہوم ورک کا بھی آغاز کر دیا گیا تھا تاہم فروری اور مارچ 2019ء میں جب سندھ اور پنجاب کے بعض علاقوں میں کپاس کی کاشت کا آغاز ہونا تھا، بےوقت بارشوں نے نہ صرف کپاس کی کاشت کو غیر معمولی طور پر متاثر کیا بلکہ کسانوں کو کروڑوں روپے کا نقصان بھی برداشت کرنا پڑا اور جب اپریل، مئی اور جون میں سندھ اور پنجاب کے دیگر حصوں میں کپاس کی کاشت کا آغاز ہوا تو غیر متوقع بارشوں نے ایک بار پھر کپاس کی فصل کو ریکارڈ نقصان پہنچایا۔ جولائی سے اکتوبر کے دوران بھی نہ صرف بارشوں نے کپاس کی فصل کو اپنی لپیٹ میں لیے رکھا بلکہ ان مہینوں کے دوران رات کے درجہ حرارت میں غیر معمولی اضافے نے سفید مکھی اور وائرس کی شکل میں کپاس کی فصل کو بہت زیادہ نقصان پہنچایا۔ اس دوران اگر پاکستان میں محکمہ موسمیات موثر طور پر کام کر رہا ہوتا اور کسانوں کو بارشوں اور درجہ حرارت میں کمی بیشی بارے بروقت اور درست موسمیاتی پیش گوئیاں مل جاتیں تو وہ کپاس کی کاشت کیلئے اپنی حکمت عملی تبدیل کر سکتے تھے جس سے کسانوں کو ہونے والے اربوں روپے کے نقصان سے بچایا جا سکتا تھا۔ کاٹن ایئر کا ہدف بعد میں فیڈرل کاٹن کمیٹی نے 1کروڑ 42لاکھ بیلز کر دیا لیکن بدقسمتی سے گنے کی کاشت میں ریکارڈ اضافے اور نامناسب موسمی حالات کے باعث پاکستان میں اس سال کپاس کی مجموعی ملکی پیداوار 85لاکھ سے 88لاکھ بیلز متوقع ہے لہٰذا پاکستانی ٹیکسٹائل ملز کو اپنی ضروریات پوری کرنے کیلئے بیرونِ ملک سے کم از کم 40سے 45لاکھ بیلز درآمد کرنا پڑیں گے جس پر اربوں ڈالر کا زرمبادلہ خرچ ہوگا۔ پاکستان میں کپاس اور زراعت کی بہتری کیلئے حکومت کو چاہیے کہ وہ فوری طور پر کراپ زوننگ قوانین پر مکمل عملدرآمد کرائے تاکہ کپاس کاشت کرنے والے علاقوں میں گنے کی کاشت کم سے کم ہو سکے۔ علاوہ ازیں ہنگامی بنیادوں پر محکمہ موسمیات کو اپ گریڈ کرنا چاہیے تاکہ کسانوں کو بروقت اور درست موسمیاتی پیش گوئیاں ملنے سے وہ کپاس اور دیگر فصلوں کی کاشت اور برداشت کیلئے بہترین حکمت عملی ترتیب دے سکیں۔ حکومت کو یہ بھی چاہیے کہ وہ زرعی مداخل کی قیمتوں میں کمی کرنے کے علاوہ زرعی ٹیوب ویل کے ٹیرف میں بھی زیادہ سے زیادہ کمی کرے جس سے توقع ہے کہ کسانوں کی فی ایکڑ پیداوار بہتر ہونے سے پاکستانی معیشت بھی مضبوط ہو سکے گی۔ پوری کاٹن انڈسٹری کی ترقی کیلئے حکومت کو چاہئے کہ وہ کاٹن انڈسٹری سے متعلق پالیسیاں مخصوص مدت کی بجائے کم از کم ایک سال کیلئے نافذ کرے جن میں خاص طور پر روئی درآمدی پالیسی ہے تاکہ تمام اسٹیک ہولڈرز اپنی حکمت عملی بہترین طریقے سے ترتیب دے سکیں جبکہ وزارت خزانہ کو یہ بھی چاہئے کہ ٹیکسٹائل انڈسٹری کا زیرو ریٹڈ برآمدی اسٹیٹس بھی بحال کرے تاکہ ہماری کاٹن ایکسپورٹس بہتر ہونے سے ہماری ملکی معیشت بہتر ہو سکے۔

تازہ ترین