• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ملک بھر میں اشیائے خورونوش کی قیمتوں کے جائزے، پرائس کنٹرول، ذخیرہ اندوزی، ناجائز منافع خوری اور ملاوٹ کی روک تھام کے حوالے سے ہونے والے اعلیٰ سطحی اجلاس میں وزیراعظم عمران خان نے ہدایت کی ہے کہ ملاوٹ کے خلاف ایمرجنسی کا نفاذ کرکے نیشنل ایکشن پلان ایک ہفتے میں مرتب کیا جائے، ملاوٹ کرنے والے نہ صرف ہمارے عوام بلکہ خاص طور پر بچوں کی صحت اور زندگیوں سے کھیل رہے ہیں۔ اجلاس میں وزیر منصوبہ بندی اسد عمر، وزیر نیشنل فوڈ سیکورٹی مخدوم خسرو بختیار، مشیر تجارت عبدالرزاق دائود، معاون خصوصی برائے اطلاعات فردوس عاشق اعوان اور متعلقہ محکموں اور وزارتوں کے سینئر افسران موجود تھے جبکہ پنجاب، خیبر پختونخوا، سندھ اور بلوچستان کے وزرائے اعلیٰ اور دیگر سینئر صوبائی حکام نے وڈیو کانفرنسنگ کے ذریعے اجلاس میں شرکت کی۔ وزیراعظم نے کہا کہ پنجاب اور پختونخوا میں آٹے، گھی اور چینی کی قیمتیں کنٹرول میں ہیں۔ انہوں نے چیف سیکرٹری سندھ کو آٹے کی قیمت پر کنٹرول کرنے کی ہدایت کی، بلوچستان میں اشیائے خورونوش میں ملاوٹ چیک کرنے کیلئے لیبارٹری کو دوبارہ فعال بنانے میں معاونت کی یقین دہانی بھی کرائی۔ ملاوٹ دراصل کسی شے میں اس جنس کی کسی ناقص، کمتر یا کسی دوسری چیز کی آمیزش کا نام ہے۔ اس لعنت سے ہماری جان چھوٹ جائے تو آدھے سے زیادہ بیماریاں خودبخود ختم ہو جائیں۔ دین متین نے ملاوٹ کی سختی سے ممانعت کی ہے۔ جامع ترمذی میں صحیح حدیث شریف منقول ہے کہ ’’حضرت ابو ہریرہؓ فرماتے ہیں، رسول اللہﷺ غلے کے ایک ڈھیر پر سے گزرے تو آپ نے اپنا ہاتھ اس میں داخل فرما دیا، آپ کی مبارک انگلیاں تر ہو گئیں تو استفسار فرمایا۔ یہ کیا ہے؟ غلے والے نے عرض کیا، یا رسول اللہﷺ بارش سے بھیگ گیا ہے، آپﷺ نے فرمایا اسے اوپر کیوں نہیں کر دیا کہ لوگ دیکھ سکیں؟ پھر آپ نے فرمایا، جو دھوکہ دے وہ ہم میں سے نہیں‘‘ حدیث مبارکہ کی روشنی میں اگر من حیث القوم ہم اپنا جائزہ لیں تو کیا سوائے شرمندگی اور اس وعید کے ہمارے ہاتھ کچھ آئے گا کہ ’’ہم میں سے نہیں‘‘؟ آج کیا نہیں ہو رہا دودھ تو کیا کوئی شے بھی خالص دکھائی نہیں دیتی۔ حتیٰ کہ سبزیوں تک کو غلیظ اور کیمیکل زدہ پانی سے اگا کر زہر آلود کر دیا گیا۔ بچوں کیلئے جنک فوڈ بنانے کی فیکٹریاں گلی محلوں میں قائم ہیں جو اپنی ٹافیوں اور کینڈیز کے لئے مہنگا فوڈ کلر استعمال کرنے کی سکت نہیں رکھتیں تو کپڑے رنگنے والے رنگ کا استعمال کرکے نئی نسل کی رگوں میں سنکھیا بھر رہی ہیں۔ ملاوٹ زدہ اشیائے خورونوش کا مکمل احاطہ کرنے کی کوشش کی جائے تو ایک دفتر درکار ہے۔ اس سے زیادہ بےحسی ایک مسلم معاشرے میں کیا ہوگی کہ بھینسوں کو انجکشن لگا کر زیادہ دودھ حاصل کیا جاتا ہے جسے پینے والے بچے بچیاں اپنی عمر سے بہت پہلے بالغ ہوتے جا رہے ہیں۔ اناج غیرخالص، گوشت میں پانی کے انجکشن لگا کر وزن بڑھایا جا رہا ہے، شہریوں کو مردہ جانوروں اور گدھوں تک کا گوشت تو کھلا دیا گیا پیچھے کیا رہ جاتا ہے۔ مغرب میں ہزار برائیاں سہی ملاوٹ وہاں ایک جرم عظیم ہے جس پر قانون کی گرفت سے کوئی نہیں بچ سکتا ہمارے ہاں کوئی قانون کی گرفت میں آتا نہیں تو کیا ہمارے ہاں قوانین موجود نہیں؟ ایسا ہرگز نہیں وطن عزیز میں اشیائے خورونوش سے متعلق 60سے زائد قوانین موجود ہیں اس نوعیت کے دیگر قوانین کو بھی شامل کر لیا جائے تو تعداد 104تک جا پہنچتی ہے۔ اس کے باوجود پوری قوم زہر خورانی کا شکار ہے۔ اس پر ماتم ہی کیا جا سکتا ہے۔ اشیائے خورونوش میں ملاوٹ کے جرم کے خاتمے کیلئے وزیراعظم کی طرف سے ایمرجنسی کا اعلان قوم کیلئے سب سے بڑا تحفہ ہوگا بشرطیکہ حکومت اس پر مکمل عملدرآمد کرا لے اور ایسا سخت سزائوں سے ہی ممکن ہے۔

تازہ ترین