افغانستان، نائیجیریا اور پاکستان کے سوا دنیا بھر میں پولیو کا ایک کیس بھی موجود نہیں جبکہ وطن عزیز میں سامنے آنے والے پولیو کیسوں کی تعداد 2019میں 134اور رواں برس اب تک 17ہو چکی ہے حالانکہ 2017میں یہ تعداد آٹھ اور 2018میں بارہ تھی۔ گزشتہ روز 5نئے پولیو کیسز کا سامنے آنا نہایت تشویشناک ہے کہ آئے روز پولیو کیسوں کی تعداد میں اضافہ دنیا بھر میں پاکستان کیلئے جہاں ایک طرف بدنامی کا باعث ہے وہیں دوسری طرف ہماری نئی نسل کو معذور بھی کر رہا ہے۔ گزشتہ چند برسوں کے دوران ملک میں پولیو وائرس کے کیسوں میں بتدریج کمی آئی تھی جس پر ماہرین امید کر رہے تھے کہ پاکستان پولیو وائرس کے خاتمے کے قریب پہنچ چکا ہے لیکن نئے پولیو کیسوں نے پولیو وائرس کے خاتمے کی امیدوں پر پانی پھیر دیا ہے۔ پاکستان میں گزشتہ 12برسوں کے دوران 1201بچے پولیو وائرس سے معذور ہوئے جبکہ پولیو سے بچائو کے قطرے پلانے والے 60سے زائد ورکر قاتلانہ حملوں میں اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ اِس تشویشناک صورتحال کے پیشِ نظر جنگ اور جیو میڈیا گروپ نے ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ملک بھر میں پولیو سے متعلق آگہی پھیلانے کا ملکی فریضہ بھی انجام دیا۔ رواں ہفتے بھی ملک گیر پولیو مہم جاری ہے جس میں 2لاکھ 65ہزار پولیو وزکرز 39.6ملین بچوں کو پولیو کے قطرے پلائیں گے۔ آئے روز نئے پولیو کیس ہمارے لیے خطرے کی گھنٹی اور عالمی برادری کے سامنے شرمندگی کا باعث ہیں لہٰذا حکومت کو اس کام میں پیش آنیوالی تمام رکاوٹیں بلاتاخیر دور کرنا چاہئیں۔ وقت کا تقاضا ہے کہ متعلقہ اداروں اور اہلکاروں کو اس مقصد کیلئے ٹائم فریم دیا جائے اور ہدف کے حصول کیلئے پولیو ورکرز کو تمام ضروری سہولتیں اور مراعات مہیا کی جائیں۔ اگر منفی عناصر بچوں کو پولیو سے بچائو کے قطرے پلانے سے روکنے کیلئے والدین پر دبائو ڈالتے ہیں تو اس سے نمٹنا بہر طور حکومت اور انتظامیہ کی ذمہ داری ہے۔