• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(رپورٹ، عرشی عباس)

کراچی سے 60 کلومیٹر دور واقع بھنبھور ملکی وغیر ملکی ماہرین آثارِقدیمہ کی توجہ کامرکز بنا ہوا ہے اس شہر کے بارے میں مختلف آراء پائی جاتی ہیں بھنبھور کی ایک شناخت رومانوی داستان سسی پنوں بھی ہے۔ سسی کے شہر بھنبھور اور قاسم کے دیبل کے آثار وطن عزیز کو تاریخی اعتبار سے منفرد بناتے ہیں۔

کچھ محققین کا خیال ہے کہ یہی شہر دیبل بندر کے نام سے آباد تھا عرب فاتح محمد بن قاسم نے اس شہر کو سب سے پہلے فتح کیا جس کی وجہ سے بھنبھور کو برصغیر کاباب الاسلام بھی کہا جاتا ہے اور یہاں ملنے والی جامع مسجد کے آثار جسے جنوب مشرقی ایشیا کی پہلی مسجد ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔

حکومتِ سندھ کا محکمہ ثقافت سیاحت و نوادرات ملکی و غیرملکی ماہرین چھپے رازوں سے پردہ اٹھانے کیلئے مصروف عمل ہیں ویسے تو بھنبھور کی آرکیالاجیکل سائٹ کی ابتدائی کھدائی کا کام 1928ع کے دوران رمیش چندرا مجمدار نے شروع کروایا اور اس کے بعد 1951ع میں اس شہر کی دوبارہ کھدائی کی گئی۔

اٹھارویں ترمیم کے بعد یہ سائٹ حکومتِ سندھ کے محکمہ ثقافت، سیاحت اور نوادرات کے سپرد ہوئی تو پاک اٹالین اور فرینچ جوانٹ آرکیولوجیکل مشن نے مشترکہ طور پر اس سائٹ کی پھر سےکھدائی کا کام اپنے ذمے لیا جو 2015 تک جاری رہا جبکہ2017 سے اب تک اٹالین آرکیولاجیکل مشن اور محکمہ ثقافت و نودرات سندھ مشترکہ طور پر بھنبھور کی کھدائی کا کام جاری رکھے ہوئے ہیں جس کے نتیجے میں اس شہر کی قدامت اور تہذیب تہہ در تہہ کھل کر سامنے آ رہی ہے اور اب تک شہر کے تین مختلف ادوار کے نشانات رونما ہو چکے ہیں۔

تاریخ کے صفحات بتاتے ہیںکہ بھنبھور جوکہ پہلی صدی سے تیرہویں صدی تک اپنے عروج پر رہا آج اپنے اندر چھپے راز اگل رہا ہے۔

محققین کا کہنا ہے کہ بھنبھور کی کھدائی کے دوران نوادرات کے جو نمونے پائے گئے ہیں ان میں سکے موتیوں کی مالائیں مٹی کے برتن اورہاتھی کے دانت سے بنی بہت ساری قیمتی چیزیں شامل ہیں۔

اطالوی محقق کے مطابق یہاں جو برتن کی باقیات ملی ہیں بالکل ویسے ہی چند سال پہلے انڈونیشیا کے ساحل سے بحری جہاز کے ڈھانچے سے ملی تھیں جس سے یہ بات واضح ہوتی ہےکہ یہ لوگ برتنوں کاکام کرتے تھے اور کسی زمانے میں یہ بڑاتجارتی مرکز تھا۔

محکمہ ثقافت سیاحت و نوادرات کے منظور کناسرو کے مطابق ہم اس وقت بھنبھور کی سائٹ کو ثقافتی ورثے میں شامل کروانے کے لئے کوشاں ہیں اور حال ہی میں اطالوی ریسرچر کو کھدائی کے دوران بڑی تعداد میں ہاتھی کے دانتوں سے بنی باقیات کے ملنے سے عالمی ورثے میں شمولیت کے امکان روشن ہو گئے ہیں۔

انہوں نے مزید بتایا کہ محکمہ ثقافت ،سیاحت و نوادرات کی طرف سے بھنبھور کی کھدائی کے ساتھ بحالی کے کام پر بھی خصوصی توجہ دی جا رہی ہے اور سیاحوں کی رہائش اور تحقیق کے لئے آنیوالوں کیلئے میوزیم قائم کیا گیا جہاں کھدائی کے دوران ملنے والے نوادرات رکھے گئے ہیں اور بھنبھور سائٹ کی معلومات پر مبنی اینٹی کیوٹیز جنرل بھی اشاعت کے لئے تیار ہے۔

سیاحوں کی سہولت کے لیے پتھروں سے واضح کیے گئے مختلف احاطوں مثلاً مکانات، گلیاں، مسجد، مدرسہ، مندر، کنواں، بازار، صنعتی علاقہ وغیرہ کی نشان دہی جلی الفاظ میں کی گئی ہے۔ سب سے زیادہ اہتمام جنوبی ایشیا کی پہلی مسجد کے آثار کے لیے کیا گیا ہے۔

محکمہ آثارِ قدیمہ کی طرف سے یہاں قیام کے لیے کمرے مناسب کرائے پر دستیاب ہیں۔ گھارو کریک میں کشتیاں موجود ہیں۔ نوادرات کے شوقین کے لیے ٹھیکریاں بکھری ہوئی ہیں جو آنیوالوں کو اپنی طرف راغب کرتی ہیں۔

تازہ ترین