سائنس داں نئی در یافتوں کے لیے تحقیقات اور تجربات کرتے رہتے ہیں ،انہی تجربات کی بناء پر سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ کائنات کا نہ نظر آنے والا مادّہ 85 فی صدہے جسے ڈارک انرجی (dark energy) کہا جاتا ہے ،جس میں ڈارک میٹر اور ڈارک توانائی دونوں شامل ہیں ۔ماہرین کے مطابق تمام زمینی آلات کے ذریعے کائنات کا صرف 5 فی صد حصہ دیکھ سکے ہیں ۔اب تک ڈارک میٹر کو گرفت کرنے کے لیے جتنے تجربات کیے گئے ہیں وہ سب ناکا م ہوئے ہیں۔حال ہی میں اس کو گرفت کرنے کے لیے 3 غیر معمولی تجربات کیے گئے ہیں ۔پہلے تجربے میں 3 ٹن رقیق زینون (liquid Xenon) کی مقدار تقریبا ً ایک میل دوربنے ہوئے ایک حوض میں پمپ کی جائے گی جو زیر زمین سابقہ سونے کی کام کے درمیان جنوبی ڈکوٹا میں واقع ہے ۔کیمیکل سے بھر اہوا یہ حوض اس لیے بنایا گیا ہے ،تا کہ اب تک گرفت میں نہ آنےوالے اس چھلاوے کو گرفت میں لایا جاسکے ۔تجربے کے پروجیکٹ ڈائریکٹر مرڈوک گلکریز کے مطابق یہ تو جانتے ہیں کہ اس کا وجود ہے لیکن اس ذرّے کی مقدار کیا ہے یہ نہیں جانتے ۔
کائنات کے اس نظر نہ آنے والے مادّے کی ماہیت اب تک راز میں ہے،اسے گرفت میں لانے کے لیے اب تک کیے جانے والے تمام تجربات ناکام ثابت ہوئے ہیں
اس تجربے کے لیے DOE (Department of Education ) اور NSF(National science foundation) نے فنڈز فراہم کیے ہیں،جس کو LZ کا نام دیاگیا ہے ۔یہ ذرّہ گزشتہ 30 سال سے سائنس دانوں کی گرفت میںنہیں آیا ہے ۔اس سلسلے کا سابقہ تجربہ جسے LUX کہا گیا تھا ،وہ اپنا مطلوبہ ہدف حاصل نہیں کر سکا تھا ۔اس مقصد کو پورا کرنے کے لیے آلات زیادہ حساس اور بڑے پیمانے پر بنائے گئے ہیں ۔ دس سال سے زیادہ عر صہ اور کثیر سر مایہ خرچ کرنے کے بعد بھی کچھ نتیجہ حاصل نہیں کر سکے تھے ۔1930 ء میں فر ٹزز کی نے جب 1000 سے زیادہ کہکشائوں کے جھرمٹ کا مشاہدہ کیا تو معلوم ہوا کہ نظر آنے والا مادّے کی کشش ثقل ا س جھر مٹ کو ایک جگہ رکھنے کے لیے ناکافی ہے۔لہٰذا کوئی ایسا نظر نہ آنے والا مادّہ ضرور ہے ،جس کی کشش ثقل اس جھرمٹ کو یکجا رکھے ہوئے ہے ،جس کو ڈارک میٹر (سیا ہ مادّہ ) کہا جارہا ہے ۔
اس کے چالیس سال بعد ویراروبن اور کینٹ فورڈ نے اسپائرل گلیکسی (spiral galaxy) کے درمیان ستارو ں (سورجوں ) کے مشاہدے میں معلوم کیا کہ کہکشائوں کے مرکز کے بازو سے قریب کے ستارے اور مرکز سے دور بازو کے ستارے ایک ساتھ گردش کرتے ہیں ۔یعنی دونوں اقسام کے ستاروں پر اس مادّے کا یکساں زور پڑتا ہے ۔کچھ عر صے پہلے سائنس دانوںنے دو باہم ٹکرا نے والی کہکشائوں کی تصویر حاصل کی تھی جسے بیلٹ کلسٹر (bullet cluster) کانام دیا گیا ہے ،جس میں انتہائی کشش کے سبب روشنی مڑ جاتی ہے۔یہ تمام جائزے بہت مضبو طی سے ڈارک میٹر کی موجودگی ثابت کرتے ہیں لیکن اس کی ماہیت کیا ہے یہ ابھی تک ایک راز ہے ۔ فزسٹ پر سکلا کو شمین جو ایک دوسرے ڈارک میٹر کی گر فت کے تجربے کی ترجمان ہیں ،ان کا کہنا ہے کہ ڈارک میٹر ایک اُمید ہے ۔اس تجربے کوsuper CDMS snolab کا نام دیا گیا ہے ۔
ماہرین کے مطابق ہم یہ جانتے ہیں کہ یہ انتہائی کشش کی قوت ہے جو بگ بینگ کے عظیم دھماکے کے بعد ہماری کا ئنات کی ارتقاء کا باعث ہے، اگر یہ مادّہ نہ ہوتا تو کہکشائوں کے جھرمٹ میں ایسا عجیب حال نہ ہوتا ،کیوں کہ یہ ایکسٹر اکشش جوڈارک میٹر کے ذرات کے سبب وجود میںآئی تھی ایسے ڈھانچے کی تعمیر کے لیے انتہائی ضروری تھی جیسے ہم آج دیکھتے ہیں ۔چناں چہ اس کے شواہد تو ٹنوں کے حساب سے موجود ہیں ۔چار بنیادی قدرتی قوتوں میں صرف کشش ثقل وہ واحد قوت ہے جو ڈارک میٹر سے عمل پذیری کرتی ہے ۔ڈارک میٹر برقی مقناطیسی قوت سے عمل پذیری نہیں کرتا اسی لیے اسے ڈارک میٹر کہا جا تا ہے ۔ور نہ اس کو با آسانی دیکھا جاسکتا تھا۔یہ اسٹرونگ نکلیر فورس (strong niclear force ) سےبھی عمل پزید نہیں ہوتا جو ایٹم کے نکلیائی کو ایک جگہ جمع رکھتا ہے (ورنہ ہم سب مر جاتے ) کیوں کہ ایٹم مضبوط نہ ہوتے ۔
اب بچنے والا ویک نکلیر فورس ( weak nuclear force ) ہی باقی رہ جاتا ہے ،جس کے ذریعے سب ایٹمک پارٹیکل (sub -atomic particles ) ایک دوسرے کے ساتھ عمل پذیر ہوتے ہیں اور ایٹم فنا ہو جاتے ہیں ۔کشمین کے مطابق ڈارک میٹر کی گرفت کے لیے ہم جو تجربہ کررہے ہیں اسے تین ٹانگوں کے اسٹول کا نام دیا گیا ہے،جس کی پہلی ٹانگ ڈارک میٹر کی بنا واسطہ دریافت ہے ۔جو کائنات کی گہرائی سے سگنل یا اشارے مثلا ً گاما ریز جو ڈارک میٹر کے پارٹیکل تخلیق کرنے کی کوشش بھی کررہے ،جس کے لیے وہ سرن لارج ہیڈرون کو لائیڈرمیں دو ہائی انر جی پروٹون کو ٹکرا کر بگ بینگ کے اس لمحے کی نقل کرنا چاہتے ہیں جب تمام ایٹمی پارٹیکل اپنی تخلیق کے لمحے سے گذرے تھے۔ڈارک میٹر کے ذرات کی خصوصیات مکمل طور پر نا معلوم ہیں ۔اس لیے وہ اس کی مقدار کی بابت اندازے لگا کر اس تلاش میں ہیں کہ ان کے آلات کو کتنی مقدار کو دریافت کرنا ہوگا ۔
ڈارک میٹر سے عمل پزیر معلوم ذرات( (Weakly interacting massive particles یا WIMP کہے جاتے ہیں۔ ان کی شہرت جب ہوئی تھی جب تھیوریٹیکل فزسٹس نے یہ نوٹ کیا کہ اگر بگ بینگ کے لمحہ میں تخلیق کردہ ایک پروٹون کے مقابلے میں100 گنا زیادہ ((massمقدار رکھتے تھے ۔توآج ان کی تمام کثافت تخمینہ کائنات میں موجود تمام ڈارک میٹر کے برابر ہوگی، جس کو’’WIMP معجزہ‘‘ ہی کہاجائے گا۔جب کائنات بہت بڑی اور سرد ہوگی تو ویک انٹرایکشن ہی آپ کو نسبتی کثافت((relative density بتائے گا۔
کشمین کا کہنا ہے کہ یہ ماڈل صرف ایک اتفاق ہے لیکن یہ تجویز کردہ ہے اور اسی وجہ سے ہم ان WIMP کی تلاش میں ہیں ،کیوں کہ وہ مکمل اور بے داغ ہوں گے۔ LZ اورSuperCDMS دونوں کو اس طر ح ڈیزائن کیا گیا ہے کہ وہWIMP کو دریافت کرسکیں ۔البتہ مختلف مقداروں کی ممکنہ حدود کو ذہن میں رکھتے ہوئے مختلف مقداروں کےWIMP کی حدود کا خیال رکھا گیا ہے۔ دونوں تجربات میں دو بالکل مختلف طریقےکار استعمال کئے جائیں گے،تاکہ زیادہ سے زیادہ مقداروں کی حدود میں پیمائش کی جاسکے۔ SuperCDMS کاتجربہ 2020ءکے آخر میں کیا جائے گا ۔
یہ تجربہ اونٹاریو کی ایک نکل کی کان میں6800فیٹ نیچے زیر زمین انجام دیا جائے گا۔ابتدائی تجربے میں چار عدد ٹاور استعمال کئے جائیں گے، جن میں سے ہر ایک میں چھ ڈیٹیکٹر ہوں گے ۔جو سلیکون جر مینیم کے کرسٹل کے بنے ہوں گے اورجن کے ذریعے ڈارک میٹر کو محسوس کرنے کی کوشش بھی کی جائے گی۔ اس تجربہ کو اگلے عرصے تک لے جانےکے لیے30 ٹاور تعمیر کئے جائیں گے۔
ماہرین کے مطابق اگر کوئی WIMPبھی کسی ایک ڈیٹیکٹر سے ٹکراتا ہے تو تھیوری کے لحاظ سے تو وہ الیکٹرون کی کرسٹل کی جالی میں ارتعاش پید اکرے گا جو اضافی قوت سے بار بار دوہرا یا جائے گا ۔یہ اضافی اشارے سینسروں کی گرفت میں آجائیں گے ،جس سے ریسرچ کرنے والے بھی واقف ہوجائیں گے ۔یہاں تک کہ معمولی سی مداخلت بھی جسے ’’فزسٹ شور ‘‘ کہتے ہیں ۔اس کے لیے تحقیق کاروں کو بہت احتیاط کی ضرورت ہوگی ۔
سینسروں کے ٹیمپر یچر کو منفی 450 ڈگری فارن ہائیٹ تک ٹھنڈا رکھنا ہے ،تا کہ تھر مل ارتعاش سے بچا جا سکے اورعمارت پر ایسی ڈھال بنائی جائے،جس سے وہ بیرونی خلا ء سے آنے والی کاسمک تابکاری کے ذرات سے محفوظ رہے جو ہمارے سیارے پر مسلسل پڑتے رہتے ہیں ۔سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ آئندہ 10 سال کے منصوبے کے مطابق Super CMDSکو اتنا حساس بنا دیا جائے گا کہ یہ نیو ٹر ینوز کو بھی ڈیٹیکٹ کرنے کے قابل ہو جا ئے گا۔ یہ وہ ذرات ہیں جن پر کسی بھی قسم کا منفی چارج نہیںہو تا اور ان کی مقدار نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے ،کیوںکہ یہ ریڈیو ایکٹوڈ یکے سے بنتے ہیں جو سورج میںنکلیری ری ایکشن سے ہوتی ہے ۔
WIMP کے سلسلےکے دوسری طرفLZ کا نشانہ چند پروٹون کی مقدارسے لیکر دس ہزار پروٹون کی مقدار تک ہوگی۔ اس تجربہ میں 10ٹن رقیق زینون( جو دنیا کی سالانہ سپلائی کا ایک چوتھائی ہے)اور جو تمام اطراف سے روس کے بنائے ہوئے ٹائیٹینیم کے 5 فیٹ کے سیلنڈر میںہوگی ،جس کو70,000ہزار گیلن پانی میں رکھا ہوگا جو تمام گاما شعاعوں کو جذب کرلےگا۔ اُمید کی جاتی ہے کہ جب کوئی ڈارک میٹر کا ذرہ زینون سے عمل پذیر ہوگا یہ روشنی اور برقی چارج پیدا کرے گا ۔
جب تحقیق کار پہلی روشنی کےجھماکےسے آگا ہ ہوں گے تو برقی چار ج تقریبا ً اوپر تک جائے گا ۔جہاں یہ 500 حساسیت کے سینسر اس کو شناخت کریں گے ۔ ان دو سگنل سے تحقیق کار اس کےا بتدائی ٹکرائو سے پیدا ہونے والی توانائی اور اس کی جگہ کو کیلکولیٹ کریں گے۔ اس میں ٹکرائو کی جگہ انتہائی اہم ہے، جس سے یہ طے ہوگا کہ سگنل کنٹینر کے باہر کے شور سے پیدا ہوا تھا یا کنٹینر کی خالص زینون کے درمیان ہوا تھا۔ جہاں پر سائنس دانوں کے خیال میں صرف ڈارک میٹر ہی پہنچ سکتا ہے۔ SuperCDMS کی طرحLZکو بھی ماحول اور تابکاری کے شور سے بچنے کا بڑا چیلنج درپیش ہے۔ماہرین کے مطابقLZ کے موجودہ اور سابق تجربےمیں سب سے بڑا فرق یہ ہے کہ اس میں سابقہ کے مقابلے میں 30گنا زیادہ زینون استعمال ہوگی۔جو آسان ہے ۔
گلکریز کا کہنا ہے کہ اس میں سب سے زیادہ سمجھنے کی بات یہ ہے کہ تابکاری کے ذرائع کہاں کہاں ہیں۔ تجربےمیں ہزاروں ایسے چھوٹے چھوٹے معاملات کے لیےبھی غیر معمولی اقدامات کرنے ہیں جن میں بہت اہم یہ ہے کہ آپ خود کوہوا سے بچائیں۔ اٹلی میں ایک اورXENON پروجیکٹ اور چین میںPandaX-II بھی رقیق زینون میں WIMP کی دریافت کے لیے کوشاں ہیں۔ 2020ء میں جبLZ کچھ آگے بڑھ جائے گا تو تمام دنیا کے سائنسداںاس دریافت کے سگنل سننے کے لیے بے تاب ہوں گے۔ اگر ہم کسی تجربے میں کام یاب ہو جاتے ہیںتو ہماری کوشش ہوتی ہے کہ اگلے مرحلے میںا س کے لیے مزید بڑی تجربہ گاہ بنائیں ۔لیکنLZ اور SuperCDMS جیسے پروجیکٹس کے باوجود ابھی بھی بہترین مواقع کی اُمید WIMP سے ہی ہے ،کیوں کہ یہ اس سے قبل کیے گئے تمام تجربات سے بہتر ثابت ہوگا اور ابھی تک لارج ہیڈرون کو لائیڈر اور زینون سے کئے ہوئے سابقہ تجربات بے نتیجہ ثابت ہوئے ہیں ،اسی لیے اب تمام ماہرین کی تو جہ WIMP کی جانب مبذول ہو گئی ہے۔ یونیورسٹی آف واشنگٹن کی سائنس داں کا کہنا ہے کہ مجھے کوئی تعجب نہیں ہوگا اگر LZ اور SuperCDMSمیں WIMP مل جائے ۔وہ اس کے بر عکس دوسرا پروجیکٹ کررہی ہیں ۔
جسے ADMX G2 نام دیا گیا ہے ۔یہ ایگزیون ڈارک میٹر ایکسپریمینٹ G2کا تجربہ ہے یہ واشنگٹن یونیورسٹی میں کیا جائے گا ۔اس میں ڈارک میٹر کے بجائے اس کے متبادل کی تلاش کی جائے گی جو اس سے مختلف ہے ۔اس کے بارے میں روبرو ٹو پیسائی اور ہیلن کوئن نے 1970 ء میں ایک تھیوری میں پیش کیا تھا کہ ایگزیون اپنی مقدار میں الیکٹرون کے مقابلے میں دس کھربویں حصے کا ایک حصہ ہو گا ۔اتنے کمزور ذرّہ کو ’’نظر نہ آنے والا ‘‘نام دیا گیا ہے۔ WIMPs کی بجائے یہ اپنے فنا ہونے کے عمل میں دو فوٹون میں بدل کر اتنا لمبا وقت لگائے گا جو ہماری کائنات کی عمر سے کہیں زیادہ ہوگا ۔سائنس دانوں کا اندازہ ہے کہ ایگزیون کی تعداددس ٹریلین فی کیوبک سینٹی میٹر ایگزیون کی افسانوی تعداد سے زیادہ ہوگی ۔اگرچہ ایگزیون کی تھیوری 30سال پہلے پیش ہوئی تھی ۔
اگرچہ کہ یہ تینوں منصوبے مختلف فرضی ذرات پر تحقیق کریں گے لیکن روزنبرگ کا کہنا ہے کہ یہ بھی عین ممکن ہے کہ ڈارک میٹر میںWIMPبھی ہوں اور ایگزیون کے علاوہ کچھ اور ذرات بھی ہوں۔ سائنس دانوں کو لگتا ہے کہ کسی دن ہمیں یہ بھی معلوم ہو سکتا ہے کہ ڈارک میٹرWIMP اور ایگزیون دونوں کا مکسچرہے ۔ایگزیون نہایت ہی قلیل ترین مقدار کے ذّرات ہیں۔ جب کہ دوسرے تجربہ میںہم بھاری مقدار تلاش کریں گے۔ دونوں تجربات کے طریقے کار ایک دوسرے سے انتہائی مختلف ہیں اور دونوں مختلف جگہوں پر دیکھ رہے ہیں۔ADMX میں ایگزیون کی ایک مقدار سے دوسری مقدار کی طرف تلاش جاری رہے گی۔ SuperCDMX اورLZمیں تحقیق کا ایک نیا دور شروع ہوگا جہاںWIMP کی تلاش کی جائے گی۔ سائنسداں اس کوشش میں لگے ہوئے ہیں کہ وہ مادّہ کونسا ہے ،جس سے کائنات کا بڑا حصہ بنا ہے اور جو کسی وقت ایک فرضی ذرّہ سمجھا جاتا تھا۔