عابد محمود عزام
بلاشبہ کسی بھی قوم کی باگ ڈور اس کی نئی نسل کے ہاتھ میں ہوتی ہے،جس طرح ایک عمارت کی تعمیر میں اینٹ ایک بنیادی حیثیت رکھتی ہے کہ اینٹ سے اینٹ مل کر عمارت وجود میں آتی ہے،اسی طرح ملک کی تعمیر میں ہر نوجوان کی اپنی الگ اہمیت ہوتی ہے، جس سے انکار ممکن نہیں۔نوجوانوں کی اسی اہمیت کے پیش نظر آج کل ہر سیاسی جماعت کی یہی خواہش ہوتی ہے کہ نوجوانوں کی اکثریت ان کے جلسے میں شریک ہوں، ان کے ہامی ہوں ۔ نسل نو کی ترقی، انہیں سہولتیں فراہم کرنے کے بلند و بانگ دعوے بھی کیے جاتے ہیں، ان کے حالات تبدیل کرنے کی باتیں کی جاتی ہیں، جس کا مطلب ملک کو فکری، معاشی، تعلیمی، معاشرتی اور دیگر کئی اعتبار سے تنزلی سے ترقی اور بہتری کی جانب لے جانا ہوتا ہے ، مگر کوئی بھی جماعت اپنے اعلان اور منصوبے کو اس وقت تک پایۂ تکمیل تک نہیں پہنچا سکتی، جب تک اسے نسل نو کا تعاون میسر نہ آجائے۔
ہر جماعت اپنے خوابوں کو شرمندہ تعبیر کرنے کے لیے نوجوانوں کے تعاون کی محتاج ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر جماعت کی کوشش ہوتی ہے کہ اسے نوجوانوں کی زیادہ سے زیادہ حمایت حاصل ہو، کیوں کہ کسی بھی ملک، قوم یا معاشرے میں حقیقی اور مثبت تبدیلی نوجوان ہی لاسکتے ہیں، جب نوجوان مخلص ہوکر اپنے ملک و قوم کے لیے محنت اور جدوجہد کرنے لگتے ہیں تو مثبت تبدیلی، ترقی اور بہتری کو کوئی نہیں روک سکتا، کامیابی ان کے قدموں کی دھول ضرور بنتی ہے۔ نوجوان ہی وہ قوت ہیں، جو اگر ارادہ کرلیں تو ملک کی باگ ڈور سنبھال کر ملک کو اوج ثریا پر پہنچا کر دم لیتے ہیں۔ کامرانی ان اقوام کی قدم بوسی کرتی ہے جن کے نوجوان مشکلات سے لڑنے کا ہنر جانتے ہیں۔ خوش حالی ان اقوام کے گلے لگتی ہے، جن کے نوجوانوں کے عزائم آسمان کو چھوتے ہیں۔
ترقی ان اقوام کا مقدر بنتی ہے،جن کے نوجوانوں میں آگے بڑھنے کی لگن اور تڑپ ہوتی ہے۔ اگر نسل نو قومی مفادات کو ذاتی مفادات پر ترجیح دیتے ہوئے تعمیر ملت کی راہ میں آنے والی ہر رکاوٹ کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جائیں اور ملک میں ہر برائی کو اچھائی میں تبدیل کرنے کی ٹھان لیں ،تو یقین کیجیے کہ تعمیر قوم کی راہ میں آنے والی ہر رکاوٹ دریا میں تنکے کی طرح بہہ جائے۔اس بات میں شک کی گنجائش نہیں کہ نسل نو ہی ملک میں مثبت تبدیلی لانے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہے۔
کھیل کا میدان ہو یا آئی ٹی کا، معاشرتی مسائل ہوں یا معاشی مسائل، کسی بھی شعبے میں نوجوانوں کی شمولیت کے بغیر ترقی ممکن ہی نہیں ۔ وہ کسی بھی قوم کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اگر نوجوانوں میں یہ شعور بیدار ہوجائے کہ ملک و قوم کو بام عروج پر پہنچانے کے لیے ان کی اہمیت کیا ہےاور وہ اپنی تمام تر توجہ ملک کی تعمیر و ترقی پر مرکوز کر دیں، تو ہمارے ملک کے آدھے سے زیادہ مسائل تو ویسے ہی حل ہو جائیں۔ سابق امریکی صد ر فرینکلن ر وز ویلٹ نے کہا تھا کہ ’’ہم نوجوانوں کے لیے مستقبل تعمیر نہیں کرسکتے، مگر ہم مستقبل کے لیے اپنے نوجوانوں کی تعمیر کرسکتے ہیں۔‘‘ یہ حقیقت ہے کہ اگر نوجوانوں میں یہ شعور اجاگر ہوجائے کہ ملک کا مستقبل ان کے ہی ہاتھوں میں ہے ، ان ہی کےکاندھوں پر قوم کی ترقی کا دار ومدار ہے، وہ ہر برائی کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بن جائیں تو ملک میںمثبت تبدیلی آتے دیر نہیں لگے گی۔
اگر نوجوان ملک و قوم کی بہتری کے لیے کام کریں، زندگی کے ہر شعبے میں جاکر بہترین کردار ادا کریں۔آج کل ہر دوسرا نوجوان یہ شکایت کرتا نظر آتا ہے کہ یہاں ہمارے لیے آگے بڑھنے کے مواقع نہیں ہیں، نظام درست نہیں ہے، وغیرہ وغیرہ لیکن کوئی یہ نہیں سوچتا کہ نظام لوگوں سے بنتا ہے، قوانین کی خلاف ورزی کرنے میں نوجوان ہی آگے آگے نظر آتے ہیں، اس کی سب سے بڑی مثال ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کی صورت میں ہمارے سامنے ہے،سگنل پر ذرا سی دیر رکنے کو اپنی شان کے خلاف سمجھتے ہیں،ہر سال امتحانات میں نقل کے نت نئے طریقے سامنے آتے ہیں، یہی ساری برائیاں نظام کی خرابی کا باعث بنتی ہیں۔اگر واقعی ملکی میں بہتری لانے کے خواہش مند ہیں ، تو ملک کو ایسی ریاست بنانے میں کردار ادا کریں، جہاں قانون کی پاسداری کی جاتی ہو، اس ملک کو ایسی ریاست بنانے کی کوشش کریں، جو قیام پاکستان کے وقت علامہ محمد اقبال اور قائد اعظم محمد علی جناح کا خواب بھی یہی تھا۔
آج جب ہم ملک کے حالات دیکھتے ہیں تو یہ واضح ہوتا ہے کہ شاعر مشرق اور بانی پاکستان کا خواب صحیح معنوں میں شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکا۔ اس کو شرمندہ تعبیر صرف نوجوان ہی کرسکتے ہیں۔ صرف اعتراضات کرکے یا تنقید کرکے ملک کو بہتر نہیں بنایا جا سکتا، ہماری نسل نو آج مختلف شعبوں سے وابستہ ہے ، اگر ہر نوجوان اپنے اپنے شعبے میں دیانت داری، محنت اور یکسوئی سے کام کرے، تو آہستہ آہستہ تمام شعبوں سے خود ہی ساری برائیاں ختم ہو جائیں گی۔اس بات سے تو انکار ممکن ہی نہیں کہ ملک میں تبدیلی نوجوان ہی لاسکتے ہیں، اس لیے اگر واقعی ملک کو ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل کرانا چاہتے، اس کی خامیاں دور کرنا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے اپنا آپ بہتر بنائیں۔
اس کے لیےعلم کو عام کرنے کی سعی کرنا ہو گی، قوم کے درد کو دل کی گہرائیوں سے محسوس کرنا ہو گا۔ اگر نوجوانوں کی دلچسپی کا مرکز قومی مسائل ہو ں،تو قومی وسائل کو استعمال کرتے ہوئے بآسانی چھوٹے بڑے معاملات سے نمٹا جاسکتا ہے۔ نوجوان ہمت، عزم و حوصلے سے سرشار ہوتے ہیں، اگروہ ہر قسم کی بدعنوانی کو ختم کرنے کی ٹھان لیں ،برائی کی راہ میں رکاوٹ بننے کا پختہ عزم کرلیں، تووہ یقینا ًملک سے بدعنوانی کو ختم کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔صرف تنقید نہ کریں، بلکہ قدم قدم پر اپنی اصلاح بھی کریں۔ ساراسارا دن سوشل میڈیا پر بیٹھ کر دوسروں پر تنقید کرنے کے مشورے دینے کےبجائے خود آگے بڑھ کر بہتری لانے کی کوشش کریں۔ دوسرے لوگوں کے لیے خود کو مشعل راہ بنانے کے لیے مہذبانہ رویے کو اپنانا ہو گا۔
بات بات پر سیخ پا ہوکر اپنا اور دوسروں کا نقصان کرنے کے بجائے تحمل سے ہر مشکل کا مقابلہ کرنا ہوگا۔ کسی بھی چیز میں تبدیلی آتے ،گرچہ کچھ وقت لگتا ہے، لیکن تبدیلی آتی ضرور ہے۔ زندگی میں کوئی شارٹ کٹ نہیں ہوتا، ہربڑی کام یابی کے لیے، محنت بھی زیادہ کرنی پڑتی ہے،یک دم کچھ نہیں ملتا، اگر مسلسل محنت و جدوجہد کی جائے تو ضرور تبدیلی آتی ہے اور کام یابی بھی مقدر بنتی ہے۔ یہ معاملہ بھی خود میں وسعت رکھتا ہے کہ عصرِ حاضر میں صرف جذبات اور جوش کی ضرورت نہیں ، بلکہ حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے دانشمندی اور ہوش سے کام لینا انتہائی اہم ہے۔جذبات کی رو میں بہہ کر اکثر نوجوان مقاصد کی تکمیل نہیں کر پاتے، لیکن جو نوجوان جوش کے ساتھ ہوش سے بھی کام لیتے ہیں، وہ اپنے مقصد میں کام یاب ہو کر ہی رہتے ہیں۔ قوم کو نسل نوسے بڑی امیدیں وابستہ ہیں اور انہیں ان توقعات پر پورا اترنے کے لیے اپنی تمام تر ذہنی و فکری صلاحیتیں بروئے کار لانا ہوں گی۔