• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’دھوبی گھاٹ کی یادیں‘ یہ شہر کی بیرونی حدود لیاری ندی کے کنارے تھا

محمد سعید جاوید

کراچی کا دھوبی گھاٹ نہ صرف غیرملکی سیاحوں کے لیے بلکہ مقامی منچلوں کے لیے بھی بہت کشش رکھتا تھا ۔ یہ شہر کی بیرونی حدودلیاری ندی کے کنارے واقع تھا، جہاں تک پہنچنے کے لیے کراچی کے چڑیا گھر کی طرف سے راستہ جاتا تھا ۔ وہاں ایک الگ ہی جہاں آباد تھا۔ سینکڑوںکی تعداد میںبھٹیاں اورحوض بنے ہوئے تھے ،جن کے ساتھ سیمنٹ کے چھوٹے چبوترے ہوتے جہاںپر وہ کپڑوں کو پٹخ پٹخ کر دھوتے تھے ۔

ان کا سارا کاروبار ایک بہت ہی خوب صورت اور منظم انداز میں چلتا تھا۔ یہ لوگ اپنے پہلے سے مخصوص علاقوں میں گھر گھر جا کر دھلنے والے کپڑے اکٹھے کرتے تھے ۔ پھر خاتون خانہ کی موجودگی میں ان کو گنا جاتا اور وہ خاتون ان کپڑوں کی تفصیل اپنے پاس لکھ کر رکھ لیتی تھی ۔ دھوبی ایک اَن مٹ کالی سیاہی سے کپڑوں پر اس گھر کے لیے مخصوص ایک خاص نشان ایسی جگہ لگا دیتا تھا جو باہر سے نظر نہیں آتا تھا ۔ یہی وہ نشان ہوتا جو آخری وقت تک کپڑوں کی شناخت کے لیے استعمال کیا جاتا۔

دھوبی سب گھروں سے گٹھڑیوں میں کپڑے باندھ کر باہر کھڑی گدھا گاڑی پر رکھ کر دھوبی گھاٹ میں اپنے اڈے پر لے جاتا تھا۔ حیرت انگیز طور پر اکثر اس کا ایک کتا بھی اس کی گاڑی کے پیچھے چلتا ہوا وہاں تک پہنچ جاتاتھا۔ اس کو دیکھ کر وہ محاورہ یاد آ جاتا تھا کہ’’ دھوبی کا کتا گھر کا نہ گھاٹ کا ‘‘۔ اپنے ا ڈے پر پہنچ کروہ کپڑوں کومروجہ طریق کار کے مطابق ، بھٹی میں سوڈا اور صابن وغیرہ میں ابال کر خوب پٹخ پٹخ کر دھوتا اور صاف پانی میں کھنگالتا اور نچوڑ کر ساتھ ہی میدان میں تین ٹانگوں والے اسٹینڈ پر تنی ہوئی رسیوںپر ٹانگ دیتا تھا ۔ سوکھنے کے بعد انہیں وہ اپنے گھر یا دکان پر لے جاتا اور کوئلے والی بڑی استری سے کپڑوں کو پریس کرکے واپس مطلوبہ گھر میں پہنچا دیتا تھا۔

یہاں ایک بار پھر خاتون خانہ ان کو اپنی فہرست کے مطابق چیک کرتی اور اگر سب ٹھیک ہوتا تو فوری ادائیگی کردیتی تھی اور اگر دھلائی کے دوران کپڑوں کا کچھ نقصان ہو جاتا تو شدید قسم کا بحث و مباحثہ شروع ہو جاتا اور اسے جلی کٹی سنا کر پیسے کاٹنے کی دھمکی دیتی تھی ، لیکن یہ پیسے کبھی بھی نہ کٹتے تھے اور دھوبی مزید کچھ کہے سنے چپ چاپ پتلی گلی سے نکل جاتا تھا۔ دھونے اور مسلسل پٹخنے کے عمل میں بالخصوص مردانہ قمیصوں کے بٹن داغِ مفارقت دے جاتے تھے۔ اس مشکل سے نبٹنے کے لیے ہر گھر میںعام سے سفید بٹنوں کا ایک پیالہ بھر کے رکھا رہتا تھا ۔ سگھڑ خواتین تو اسی وقت ٹوٹے بٹنوںکی جگہ نئے بٹن ٹانک کر اپنا دامن صاف کر لیتی تھیں

(’’ایسا تھا میرا کراچی سے انتخاب)

تازہ ترین