• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’ڈملوٹی اسکیم‘ برطانوی دور کا پہلا فراہمی آب کا نظام

شاہ ولی اللہ

کراچی میں برطانوی دور کا پہلا فراہمی آب کا نظام اور منفرد تعمیرات کا حامل تاریخی ورثہ سندھ حکومت کی عدم دلچسپی کے باعث تباہی سے دوچار ہوگیا۔برطانوی راج میں کراچی میں پانی کی قلت کا مسئلہ سنگین ہوگیا تھا ،جس کو حل کرنے کے لئے انگریز میونسپل کمشنرز سر جوڑ کربیٹھ گئے اور انھوں نے اکتوبر1859 میں شہریوں کو پینے کے صاف پانی کی فراہمی کے لئے جدید تقاضوں کے مطابق ایک اسکیم تیار کی ، ڈیڑھ سو سال پہلے میونسپل کمیشن کی جانب سے تیار کی جانے والے اس اسکیم کو’’ ڈملوٹی اسکیم‘‘ کا نام دیا گیا تھا ۔اس اسکیم کو اس وقت کے برطانوی انجینئر مسٹر جی جے میری سن نے تیار کیا تھا ۔ منصوبے کے تحت ملیر ندی سے پانی کراچی شہر تک لانا تھا ۔ 

عروس البلاد کراچی تاریخ کے آئینہ میں کے مصنف عثمان دموہی لکھتے ہیں کہ انجینئر جے میری سن نے یہ اعلان کرکے کراچی کے شہریوں کو حیرت زدہ کردیا تھا کہ وہ ملیر ندی کی تہہ سے 1200 گیلن یومیہ پانی حاصل کرکے کراچی کی اس وقت کی 80ہزار آبادی کے ہر فرد کے لئے 22گیلن یومیہ پانی مہیا کرسکتے ہیں ۔ اسکیم کے تحت ملیر ندی سے لوہے کے پائپوں کے ذریعے شہر کو پانی فراہم کرنا تھا ، منصوبہ کا تخمینہ 1,859000لگایا گیا تھا بعد میں اس کی لاگت کوکم کرکے 1,525000کردیا گیا مگر برطانیہ میں لوہے کے پائپوں کی قیمت میں اضافہ ہوجانے کی وجہ سے اسکیم کو ترک کرنا پڑا لیکن کچھ عرصہ بعد کراچی میونسپلٹی کے چیف انجینئر جیمز اسٹریچن نے اس اسکیم کی بعض خامیوں کو دور کرکے اس کے اخراجات میں تین لاکھ روپے کم کردئے تھے اور منصوبے کو قابل عمل بنادیا ۔ 

منصوبے میں تبدیلی کے بعد ہر شہری کے لئے 22گیلن یومیہ پانی کے بجائے صرف 8گیلن پانی مہیا کرنے کا اعلان کیا گیا تھا ، کراچی کے ممتاز پارسی سہراب کیٹرک اپنی یادادشت میں لکھتے ہیں کہ 1882 میں شہر سے ساڑھے سولہ میل دور دریائے ملیر کے کنارے ڈملوٹی کے مقام پر دو کنویں کھودے گئے تھے، جن کے اندر اینٹوں کی چنائی کی گئی تھی اور بیس لاکھ گیلن کے ذخیرے سے 80 ہزار کی آبادی کو 25گیلن فی کس کے حساب سے پانی فراہم کیا جاتا تھا ، وہ لکھتے ہیں کہ ابتدا میں ڈملوٹی کے کنویں سے پانی گائے کی کھال کے بنی مشکوں میں شہر لایا جاتا تھا ۔بہشتی اس پانی کو گھر گھر پہنچاتے تھے ۔ 

بعدازاں ڈملوٹی کے پانی کو ذخیرہ کرنے کے لئے شہر کے نزدیک وسیع پختہ ٹینک تعمیر کئے گئے ۔ 18فروری 1880کو گورنر بمبئی مسٹر رچرڈ ٹیمپل نے ذخیرہ آب کے لئے 20لاکھ گیلن پانی جمع کرنے کے لئے ٹینک کا سنگ بنیاد رکھا ۔ٹینک کی تعمیر 21اپریل1883 میں مکمل ہوئی، منصوبے کا باقاعدہ افتتاح کمشنر سندھ مسٹر ارسکن اور جوڈیشنل کمشنرمسٹر برڈوڈ نے کیا ۔پہلے فیز میں انگریزوں نے ڈملوٹی کے مقام پر ملیر ندی کے قریب کھدائی کرکے80فٹ گہرے دس چھوٹے اور بڑے سائز کے کنویں کھودوائے اوران کنووں سے پانی کی سپلائی کے لئے شہر تک 19 میل لمبی لوہے کے پائپ کی لائن بچھائی گئی۔ 

ڈملوٹی اسکیم کے تحت ذخیرہ آب کے لئے 634ہائڈرنٹس تعمیرکئے گئے ۔فراہمی آب کے اس نظام کو ڈملوٹی کنڈیوٹ سسٹم کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ لیکن بعد میں آبادی میں تیزی سے اضافے اور خصوصا یکم ستمبر1939 میں جرمنی اور پولینڈ کے درمیان شروع ہونے والی دوسری جنگ عظیم کے بعد کراچی ایک اہم فوجی چھاونی میں تبدیل ہوگیا تھا ۔ہر بار گرمیوں کے موسم میں یہ کنویں خشک ہوجاتے اور کراچی میں قلت آب کا مسئلہ پیدا ہوجاتا تھا۔ اس نظام کے تحت 60سال تک کراچی شہر کو مناسب مقدار میں پانی فراہم ہوتا رہا ۔انگریزوں کے تعمیر کردہ اس نظام کے ذریعے کراچی کو 1970تک 20 ایم جی ڈی پانی فراہم ہوتا رہا اور بتدریج اس میں کمی آتی گئی اور کئی سالوں سے ان کنوؤں سے پانی کی فراہمی صفر ہے۔سہراب کیٹرک لکھتے ہیں کہ کراچی کے اس وقت کے میئر جمشید نسروانجی اس صورت حال پر اس قدر فکر مند ہوئے کہ رات بھر میں ان کے بال سفید ہوگئے ۔ 

ایسی صورت میں کراچی میونسپلٹی کی خوش قسمتی تھی کہ ایک مراٹھا انجنیئر مسٹر بھیڈے کی خدمات حاصل ہوگئیں ،انھوں نے کارپوریشن پر یہ حقیقت واضح کردی کہ بڑھتی ہوئی آبادی کے پیش نظر شہر کو پانی کی فراہمی کے لئے دو کنویں پر انحصار کرنا خطرناک ہوگا ،انھوں نے سندھ کا دورہ کرکے ایک اسکیم تیار کی کہ کوٹری کے قریب دریائے سندھ سے پانی حاصل کیا جاسکتا ہے اس اسکیم پر بمبئی کی حکومت سے 20برس تک مذاکرات چلتے رہے نوجوان لارڈ لائیڈ نے بمبئی کونسل کے سامنے اس مسئلہ کو رکھا اور اسکیم کو منظور کرایا ۔ اوراس طرح ہالا یار اسکیم کو متعارف کرایا گیا۔ اس اسکیم کے تحت دریائے سندھ کے پانی کو کلری جھیل تک پہنچانے کے لئے نہر نکالی گئی تھی اور کلری جھیل سے پختہ نالے کے ذریعے گھاروسے کراچی کو پانی کی فراہمی شروع کی گئی۔الغرض ڈملوٹی سے لائنرایریا تک فراہمی آب کا قدیم پختہ کنڈیوٹ سسٹم ابھی تک برقرار ہے اور کینجھر جھیل سے 15 ایم جی ڈی پانی اس قدیم کنڈیوٹ سسٹم میں ڈال کر ملیر کینٹ، صفورا چورنگی، کراچی یونیورسٹی، گلشن بلاک 6، نیپا چورنگی، عزیز بھٹی پارک، مشرق سینٹر، الھلال سوسائٹی، پرانی سبزی منڈی ، کشمیر روڈ اور لائنزایریا تک پہنچایا جاتا ہے ۔

ڈملوٹی کنووں میں نصب بیشتر سامان غائب ہوچکا ہے ۔ بھاری بھرکم مشینری زنگ آلود ہوگئی ہے ۔ کنویں سے ملحقہ رہائشی مکانات پر مقامی افراد نے ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں۔ مختلف علاقوں سے گذرنے والے قدیم انفرااسٹرکچرکو تباہ و برباد کردیا گیا ہے۔ کنڈیوٹ کی اراضی پر لینڈ مافیا کے کارندے قابض ہیں۔ افسوس کہ گذشتہ 30 سالوں دوران فراہمی آب کا یہ سسٹم جواپنی نوعیت کا ایک تاریخی ورثہ ہےمکمل تباہی سے دوچار ہے ۔ کراچی کی انتظامیہ اور واٹر بورڈ حکام کی مبینہ ملی بھگت سے شہر کے مختلف علاقوں سے گذرنے والی کنڈیوٹ اراضی پر رہائشی و تجارتی پلازہ تعمیر ہوچکے ہیں۔ مزید اراضی پر قبضے کا سلسلہ جاری ہے۔

تازہ ترین