کورونا وائرس کے دنیا بھر میں پھیلتے چلے جانے کی وجہ سے عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں کمی کا رجحان نظر آہی رہا تھا کہ اچانک ’’تیل کی قیمتوں کی جنگ‘‘ شروع ہو گئی۔ ہوا یوں کہ تیل برآمد کرنے والے ممالک کی تنظیم اوپیک کے اہم ترین ملک سعودی عرب نے اوپیک کے اجلاس میں تیل کی قیمتوں میں کمی کے رحجان سے نمٹنے کے لئے یہ تجویز پیش کی تھی کہ تیل کی فراہمی میں کمی کر دینی چاہئے جسے روس نے سختی سے مسترد کردیا تھا۔ اس کے جواب میں سعودی عرب نے ایک حکمتِ عملی کے تحت اچانک تیل کی فراہمی بڑھانے کا علان کردیا۔ اس غیرمتوقع فیصلے سے عالمی مارکیٹوں میں ایک بھونچال آگیا اور متعدد ممالک کی اسٹاک مارکیٹیں کریش کر گئیں، کچھ ملکوں کے مرکزی بینکوں نے شرح سود میں کمی کردی جبکہ سونے کے نرخوں میں اضافہ ہو گیا۔ امید ہے تمام متعلقہ فریقوں میں جلد ہی تیل کی قیمتوں کے نرخوں میں استحکام لانے کے معاملے پر اتفاق ہو جائے گا چنانچہ تیل کی قیمتوں کی جنگ کی وجہ سے تیل کے نرخوں میں جو کمی ہوئی تھی اس کا بڑا حصہ واپس آجائے گا۔ عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں کم سطح پر رہنے سے یقیناً پاکستان کی تیل کی درآمدات میں زبردست کمی ہو گی جبکہ شرح سود و پیٹرلیم مصنوعات کے نرخوں میں کمی سے مہنگائی میں بھی کمی ہوگی۔ دوسری طرف پاکستانی معیشت پر کچھ منفی اثرات بھی مرتب ہو سکتے ہیں مثلاً 28فروری 2020کو اسٹیٹ بینک کے زرمبادلہ کے ذخائر کا مجوعی حجم صرف 12.75ارب ڈالر تھا جس میں چار دوست ملکوں کے متعین مدت کے لئے جمع کرائے گئے ڈپازٹس بھی شامل ہیں جو جلد واپس چلے جائیں گے جس سے زرمبادلہ کے ذخائر پر دبائو پڑنے سے ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر بھی متاثر ہو سکتی ہے۔ اب یہ ازحد ضروری ہے کہ حکومت تجارتی بنیادوں پر مناسب شرح سود پر بیرونی قرضے حاصل کرے تاکہ یہ خطرہ ٹل سکے۔ مشرقِ وسطیٰ سے تقریباً 12ارب ڈالر کی ترسیلات موجودہ مالی سال میں متوقع ہیں۔ تیل کی قیمتیں کم سطح پر برقرار رہنے سے نہ صرف ترسیلات میں کمی ہوسکتی ہے بلکہ ان ممالک میں کام کرنے والے پاکستانی تارکین وطن میں سے کچھ کو پاکستان واپس آنا پڑ سکتا ہے۔
پاکستانی معیشت کو متعدد خطرات اور چیلنجز، بدستور برقرار ہیں۔ موجودہ مالی سال میں معیشت کی شرح نمو انتہائی سست جبکہ ٹیکسوں کی وصولی ہدف سے تقریباً 900ارب روپے کم رہے گی جبکہ ترقیاتی اخراجات میں زبردست کٹوتی اور جی ڈی پی کے تناسب سے تعلیم و صحت کی مد میں تحریک انصاف کے منشور سے صریحاً انحراف کرتے ہوئے انتہائی کم رقوم خرچ کرنے کے باوجود بجٹ خسارہ قابو سے باہر رہے گا۔ زرمبادلہ کے ذخائر محفوظ حد سے کم ہیں جبکہ ملکی وبیرونی قرضوں کا حجم انتہائی تیز رفتاری سے بڑھا ہے۔ توانائی کے شعبے کا گردشی قرضہ 1900ارب روپے تک پہنچ چکا ہے جبکہ حکومتی شعبوں کے اداروں کے نقصانات کا حجم تقریباً 2100، ارب روپے ہے۔ موجودہ حکومت کے دور میں براہِ راست بیرونی سرمایہ کاری مالی سال 2018کے مقابلے میں گری ہے۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی اور انجینئرنگ کے شعبے میں زبردست سرمایہ کاری کے بغیر پاکستان کی برآمدات میں خاطر خواہ اضافہ ممکن ہی نہیں ہے۔ مندرجہ بالا حقائق اس بات کی غمازی کرتے ہیں کہ پاکستانی معیشت کو مستقل بنیادوں پر سنبھالا دینے اور عوام کی حالت بہتر بنانے کے لئے مختلف شعبوں خصوصاً ٹیکسوں اور توانائی کے شعبوں میں تحریک انصاف کے 2013اور 2018کے منشور کے مطابق بنیادی نوعیت کی اصلاحات کرنا ہونگی۔ اب سے تقریباً 15برس قبل گورنر اسٹیٹ بینک نے جو آج بھی حکومت کا حصہ ہیں کہا تھا کہ اگر ٹیکس کی چوری روک دی جائے تو جنرل سیلز کی شرح کم کرکے 5فیصد کرنے اور ہر قسم کے سرچارج مثلاً پیٹرولیم لیوی صفر کرنے کے باوجود ٹیکس اور جی ڈی پی کا تناسب بڑھے گا ۔ ہم سمجھتے ہیں کہ وطن عزیز میں اس وقت پیٹرولیم مصنوعات میں 35روپے فی لیٹر کمی کرنا ممکن ہے۔ یہ امر افسوناک ہے کہ اس بات پر غور ہورہا ہے کہ عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں کمی کا صرف ایک حصہ عوام کو منتقل کیا جائے اور بقیہ حصے ٹیکس کی چوری اور بجلی کی چوری وغیرہ کے نقصانات کو کم کرنے کیلئے استعمال کیا جائے۔ اگر ایسا ہوا تو یہ ایک المیہ ہوگا۔یہ بات نوٹ کرنا اہم ہے کہ چندماہ پہلے تک ملک میں ہائی اسپیڈ ڈیزل پر پیڑولیم لیوی 8روپے لیٹر اور پیٹرول پر 10روپے لیٹر تھی۔ اس لیوی کو بڑھا کر اب بالترتیب 25روپے 5پیسے اور 19اور روپے 75پیسے کر دیا گیا ہے۔ جنوری 2019 میں ان مصنوعات پر جنرل سیلز کی شرح 0.5فیصد، 2فیصد، 8فیصد اور 13فیصد تھی۔ اسے بڑھا کر 17 روپے فی لیٹر کردیا گیا ہے۔ اگر عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں کمی کا پورا فائدہ ٹیکسوں کے منصفانہ نظام کے تحت عوام کو منتقل نہیں کیا گیا تو عوام کو ملنے والا متوقع ریلیف نہ صرف عارضی ہوگا بلکہ حقیقی معنوں میں کوئی ریلیف نہیں ہوگا۔یہ بات بھی واضح ہے کہ عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں کی موجودہ عارضی سطح پاکستان کے لئے نعمت ِ غیرمترقبہ صرف اس وقت ثابت ہوگی جب وفاق اور صوبے پارٹی منشور کے مطابق ہر قسم کی آمدنی پر موثر طور پر ٹیکس نافذ اور وصول کریں اور ایسے ناجائز ملکی اثاثوں پر مروجہ قوانین کے تحت ٹیکس وصول کریں جو 2019کی ٹیکس ایمنسٹی اسکیم میں ظاہر نہیں کئے گئے تھے اگر ایسا ہوا تو معیشت میں پائیدار بہتری آئے گی، غربت، بے روزگاری، مہنگائی اور ناخواندگی میں کمی آئے گی۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو پاکستانی معیشت مشکلات کا شکار رہے گی، سی پیک کو گیم چینجز نہیں بنایا جا سکے گا اور پاکستان کو ایک مرتبہ پھر آئی ایم ایف کے سامنے دست سوال دراز کرنا پڑے گا۔