ادب کے شعبے میں بھی خواتین دوسرے شعبوں کی طرح خاصی جدو جہد کے بعد اپنی جگہ بنانے میں کامیاب ہوئی ہیں۔ انیسویں صدی کے اواخر اور بیسویں صدی کے اوائل سے خواتین کے لیے اردو صحافت اور ادب کے دروازے کھلنے لگے ورنہ اس سے پہلے خواتین کا لکھنا معیوب سمجھا جاتا تھا ۔
دل چسپ بات یہ ہے کہ ادب کی دیگر اصناف میں تو خواتین تاخیر سے نمایاں ہوئیں لیکن خود نوشت سوانح عمری وہ صنف ہے جس میں خواتین شروع ہی سے سرگرم رہیں اور بعض محققین کا خیال ہے کہ اردو کی پہلی خود نوشت ایک خاتون ہی کی لکھی ہوئی ہے۔خواتین کی خود نوشتوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ خواتین دنیا کو کس نظر سے دیکھتی ہیں اور اسی لیے خواتین کی لکھی ہوئی خودنوشتیں مردوں کو ضرور پڑھنی چاہییں۔ ہمارے معاشرے میں خواتین کو جن مشکلات سے گزرناپڑتا ہے ان کی عکاسی بھی خواتین کی خود نوشت سوانح عمریوں میں موجود ہے۔
یہاں خواتین کی خود نوشتوں کا تفصیلی جائزہ تو ممکن نہیں ہے لیکن اہم خود نوشتوں کا ذکر کیا جارہا ہے۔ شبانہ سلیم کی کتاب اس موضوع پر ہندوستان سے شائع ہوچکی ہے لیکن اس میں کئی کتابوں کا ذکر نہیں ہے۔
تو آئیے خواتین کی اردو میں لکھی ہوئی خود نوشت سوانح عمریوں کا ایک مختصر جائزہ لیتے ہیں:
٭بیتی کہانی (۱۸۸۵ء)
جعفر تھانیسری کی کتاب کالا پانی کو اکثر اردو کی پہلی خود نوشت سوانح عمری کہا جاتا ہے لیکن اول تو اس کے یادداشت یا سوانح عمری یا سفرنامہ ہونے پر سوالات ہیں ۔ دوسرے یہ کہ کالا پانی ۱۸۸۶ء میں لکھی گئی تھی۔جبکہ بیتی کہانی وہ خود نوشت ہے جو ۱۸۸۵ء میں لکھی گئی۔ نواب پٹودی کے خاندان سے تعلق رکھنے والی اس کی مصنفہ کا نام شہر بانو بیگم تھا۔انھوں نے جنوری ۱۸۸۶ء میں اس میں ترمیم و اضافہ کیا۔ البتہ اس کے چھپنے میں سوسال سے زیادہ کا عرصہ لگ گیا۔ یہ معین الدین عقیل کی تدوین کے بعد پہلی بار ۱۹۹۵ء میں شائع ہوئی۔
٭تزک ِ سلطانی (۱۹۰۳ء)
بھوپال کی خاتون حکم ران سلطان جہان بیگم نے لڑکیوں کی تعلیم کے لیے بہت کام کیا ۔ یہ ان کی خود نوشت تھی جو تین حصوں میں تھی۔ پہلا حصہ تزک ِ سلطانی ۱۹۰۳ء میں ، دوسرا حصہ گوہر اقبال ۱۹۰۹ء میں اور تیسرا حصہ اختر اقبال کے نام سے ۱۹۱۴ء میں شائع ہوا۔
٭زمانۂ تحصیل (۱۹۰۶ء)
عطیہ فیضی جب۱۹۰۶ء میں انگلستان حصولِ تعلیم کی غرض سے گئیں تو وہاں سے اپنی بہن زہرہ بیگم کو تمام احوال خط کی صورت میں لکھ کر بھیجنے لگیں۔ زہرہ بیگم یہ احوال تہذیب ِ نسواں میں چھپوا دیتی تھیں۔رسالہ تہذیب ِ نسواں لاہور سے شائع ہوتا تھا اوروہ خواتین کا پہلا اردو رسالہ تھا جس کی مدیر ایک خاتون تھیں (ان کا نام محمدی بیگم تھا )۔ بعدازاں یہ احوال کتابی صورت میں ۱۹۲۳ء میں زمانۂ تحصیل کے نام سے منظر ِ عام پر آیا۔ محمد یامین عثمان کی تدوین اور مقدمے کے ساتھ اسے ادارۂ یادگار ِ غالب نے شائع کیا ہے۔
٭نیرنگ ِ بخت (۱۹۴۲ء)
اگرچہ وزیر سلطان بیگم کی یہ کتاب زیادہ متاثر کن نہیں ہے اور مصنفہ کی قسمت کے پلٹا کھانے کے حال کو جذباتی انداز میں بیان کرتی ہے لیکن اس کی اہمیت یہ ہے کہ طویل عرصے کے بعد کسی خاتون نے خود نوشت لکھی تھی ۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ مصنفہ کو طلاق ملنے کے بعد وہ عدالت گئیں اور مہر کا مطالبہ کیا جواس زمانے میں یعنی آج سے اسّی سال پہلے بڑی بات تھی۔
٭ایک ایکٹریس کی آپ بیتی (۱۹۴۲ء)
بملا کماری (جس کا اصل نام پریما تھا )اس دور کی معروف اداکارہ تھی۔
اس خود نوشت میں انہوں نے بتایا ہے کہ معصوم لڑکیوں کو فلمی دنیا میں کیسے شکار کیا جاتا ہے۔
٭کتاب ِ زندگی (۱۹۶۷ء)
یہ قیصری بیگم کی دل چسپ خود نوشت ہے جو رواں اور خوب صورت اردو میں لکھی ہوئی ہے۔ قیصری بیگم مولوی نذیر احمد دہلوی کی نواسی تھیں اور ویسی ہی بامحاورہ زبان بھی لکھی ہے۔ یہ دراصل ان کی ڈائری تھی جو شان الحق حقی کی فرمائش پر اردو لغت بورڈ کے جریدے اردو نامہ میں ۱۹۶۷ء سے ۱۹۷۷ء تک قسط وار شائع ہوتی رہی ۔پھر کتابی صورت میں بہت عرصے کے بعد کراچی سے فضلی سنز نے شائع کی۔ چند ابتدائی اقساط کی اشاعت کے بعد ہی قیصری بیگم کو بڑے بڑے ادیبوں اور نقادوں نے ان کے اسلوب ، زبان اور افکار پر خراجِ تحسین پیش کیا اور اردو نامہ کے مدیر شان الحق حقی کے نام خط لکھے کہ انھیں اس کی قسط کا بے چینی سے انتظار رہتا ہے۔
٭آزادی کی چھاؤں میں (۱۹۷۵ء)
مزاح نگار ولایت علی بمبوق کی صاحب زادی اور فکشن نگار انیس قدوائی کی یہ کتاب دراصل برصغیر کی آزادی سے پہلے اور اس کے بعد کے چند برسوں کے حالات بیان کرتی ہے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اسے خود نوشت کی بجاے ڈائری کہنا چاہیے۔
٭سلسلۂ روزو شب (۱۹۸۴ء)
خواجہ غلام الثقلین کی صاحب زادی اور الطاف حسین حالی کی پوتی کی بیٹی صالحہ عابد حسین کی خود نوشت پانی پت اور جامعہ ملیہ دہلی کی زندگی بیان کرتی ہے۔
٭ جو رہی سو بے خبری رہی (۱۹۹۵ء)
معروف شاعرہ ادا جعفری کی خود نوشت زندگی کے مختلف ادوار کے حالات خوب صورت اسلوب میں بیان کرتی ہے، خاص طور پر بدایوں کی زندگی، اپنی شاعری کے آغاز کا احوال اور اپنے نامور شوہر نورالحسن جعفری کی رفاقت میں گزارے ہوئے ایام ایک خاص ماحول اور سماج کو پیش کرتے ہیں ۔
٭ہم سفر (۱۹۹۵ء)
سادہ لیکن رواں اسلوب اور بامحاورہ اردو میں انتہائی دل چسپ واقعات کو قصے کے انداز میں بیان کرتی ہوئی بیگم حمیدہ اختر حسین رائے پوری کی یہ خود نوشت بہت مقبولیت سے ہم کنار ہوئی۔ ان کے والد ظفر عمر زبیری اردو کے پہلے جاسوسی ناول نگار کہے جاتے ہیں جن کی کتاب نیلی چھتری نے حیرت انگیز مقبولیت حاصل کی تھی ۔ ان کے شوہر اختر حسین رائے پوری معروف ادیب اور نقاد تھے۔ وہ انجمن ترقی ٔ اردو میں باباے اردو مولوی عبدالحق کے رفیقِ کار تھے اور ان کے ساتھ ہی رہتے تھے۔اسی لیے اس کتاب میں باباے اردوایک سنجیدہ علمی کام کرنے والے کے ساتھ ساتھ ایک زندہ دل اور شگفتہ شخصیت کے طور پر بھی سامنے آتے ہیں۔
٭بُری عورت کی کتھا (۱۹۹۵ء)
کشور ناہید کی باغیانہ انداز میں لکھی ہوئی یہ خود نوشت پہلے ہندستان سے اور پھر پاکستان سے شائع ہوئی۔ لیکن دونوں ایڈیشنوں میں ذرا سا فرق ہے ۔ کیوں ؟ آپ سمجھ سکتے ہیں۔
٭ڈگر سے ہٹ کر (۱۹۹۶ء)
سعیدہ بانو احمد کی یہ خود نوشت بالکل ویسی ہی ہے جیسی ان کی زندگی تھی اور جیسا کہ کتاب کے نام سے بھی ظاہر ہے، یعنی ڈگر سے بالکل ہٹ کر۔ ایک روایتی خاندان سے تعلق رکھتے ہوئے قیام ِ پاکستان سے قبل کے دور میںآل انڈیا ریڈیو پر صدا کاری کرنے اورپھر غیر روایتی انداز میں ز ندگی گزارنے کا احوال دھیمے انداز میں بیان ہوا ہے۔یہ کتاب بعدازاں پاکستان سے بھی شائع ہوئی۔
٭پردے سے پارلیمنٹ تک (۲۰۰۲ء)
بیگم شائستہ اکرام اللہ کی یہ خود نوشت پہلے انگریزی میں ۱۹۶۳ء میں شائع ہوئی تھی جسے انھوں نے اردو میں لکھا اور کچھ تفصیلات کا اضافہ کیا۔ اس میں بعض اہم شخصیات اورملکی تاریخ کے اہم واقعات کی جھلکیاں موجود ہیں۔
٭زندگی کی یادیں (۲۰۰۳ء)
بیگم جہاں آرا حبیب اللہ کی یہ خود نوشت پہلے انگریزی میں اور پھر اردو میں شائع ہوئی۔ اس کا ذیلی عنوان ریاست رام پور کا نوابی دور ہے ۔ اس میں ریاست رام پور کی زندگی، رسوم ورواج اورروایتی ثقافت بیان کی گئی ہے۔