• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ٹی بی ایک متعدی یعنی چھوت کی بیماری ہے اور جب اس کا مریض کھانستا ہے تو ہوا کے ذریعے اس کے بلغم میں موجود ٹی بی کا بیکٹیریا دوسرے انسان تک بھی پہنچ جاتا ہے، اس طرح دوسرا شخص بھی ٹی بی کا مریض بن جاتا ہے۔ ہر سال دنیا بھر میں لاکھوں لوگ ٹی بی ( تپِ دق ) جیسے موذی مرض کا شکار ہوتے ہیں جبکہ روزانہ تقریباً ساڑھے 4ہزارمریض بروقت علاج کی سہولیات میسر نہ ہونے کی وجہ سے جان کی بازی ہارجاتے ہیں۔ ٹی بی کوئی لاعلاج بیماری نہیں اور اس کے علاج کے لیے دوائیں بھی آسانی سے دستیاب ہیں لیکن ان سب کے باوجود اقوام متحدہ کے عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کی رپورٹس کے مطابق ٹی بی دنیا میں اموات کی ایک بڑی وجہ بن چکی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر سال 24مارچ کو تپِ دق (Tuberculosis)کے انسداد کا عالمی دن بھی منایا جاتا ہے۔ اس دِن کو منانے کا مقصد عام آدمی تک تپِ دق کے مرض کے بارے میں بنیادی معلومات پہنچانا ہے۔

ٹی بی میں احتیاط

انفیکشیس (Infectious) یعنی پھیلنے والی بیماری ہونے کی وجہ سے ٹی بی کے مریض کو کافی احتیاط برتنی پڑتی ہے۔ اس بیماری کی علامت اور اس کے علاج کے بارے میں ٹی بی کے سرکردہ ماہر ڈاکٹرز کا کہنا ہے کہ اس کے مریض کو ایک بات ہمیشہ ذہن میں رکھنی چاہیے کہ یہ ایک پھیلنے والی بیماری ہے، اس لیے مریض کو کھانستے وقت ہمیشہ اپنے منہ کو کپڑے سے ڈھانپ لینا چاہیے تاکہ ٹی بی کا بیکٹیریا دوسرے افراد تک نہ پہنچے۔

ٹی بی کن چیزوں سے نہیں پھیلتی

متاثرہ شخص سے ہاتھ ملانے، کھانے یا پینے کی چیزیں شیئر کرنے، متاثرہ مریض کے بیڈ یا ٹوائلٹ کو چھونے، ٹوتھ برش شیئر کرنے اور متاثرہ مریض کو بوسہ دینے سے ٹی بی کا مرض منتقل نہیں ہوتا۔

پہلے خیال کیا جاتا تھا کہ ٹی بی کے مرض میں عموماًپھیپھڑے متاثر ہوتے ہیں لیکن بعدمیں تحقیق سے معلوم ہوا کہ بدن کے دوسرے اعضابھی اس سے متاثر ہو سکتے ہیں، جن میں گردے، دماغ، حرام مغزوغیرہ نمایاں ہیں۔ پاکستان کے دیہاتوں میں انتڑیوں کی بیماری بھی اسپتالوں میں رپورٹ کی گئی ہے۔ اگر اِس مرض کا باقاعدہ علاج نہ کروایا جائے تو مریض کی جان کو شدید خطرات لاحق ہوجاتے ہیں۔

ٹی بی کی اقسام

ٹی بی کی دو اہم قسمیں ہیں، کثیر ادویات کے خلاف قوتِ مدافعت رکھنے والی ٹی بی (MDR-TB)اور بڑے پیمانے پر ادویات کے خلاف قوتِ مدافعت رکھنے والی ٹی بی (XDR-TB)۔

ٹی بی کی پہلی بیان کردہ قسم اب عام طور پرکئی ملکوں میں پھیل چکی ہے اور اِس کے حوالے سے خصوصی احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کا مشورہ دیا جاتا ہے، جس میں ہر وقت ماسک پہنے رکھنا لازمی ہوتا ہے۔ اس قسم کی ٹی بی میں مدافعتی ادویات یا اینٹی بائیوٹکس بالکل اثر نہیں دِکھاتی۔

XDR-TB ایک نایاب قسم ہے۔اگر مریض MDR-TBکے ابتدائی علاج میں تساہلی یا لا پر واہی کا مظاہرہ کرے اور ادویات کے استعمال میں بے قاعدگی کے ساتھ حفظانِ صحت کے اصولوں پر بھی عمل نہ کرے تو پھر اس میں تیسرے اور آخری درجے کی XDR-TB کی افزائش ہو جاتی ہے۔ ٹی بی کی یہ قسم اینٹی بائیوٹکس کے علاوہ تین میں سے کم از کم ایک ٹیکے کے خلاف بھی قوتِ مدافعت رکھتی ہے، جس کے بعد مریض کے علاج کے بہت کم آپشنز باقی رہ جاتے ہیں۔ اگرXDR-TB کسی ایڈز کے مریض کو لاحق ہو جائے تو اُس کے شفایاب ہونے کے امکانات معدوم ہوجاتے ہیں۔

ٹی بی کا علاج

یورپ میں صنعتی ترقی سے قبل سہولیات کے فقدان کے باعث لاکھوں انسان اسی بیماری کی وجہ سے زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھےتھے۔ ایک عشرہ قبل، اس مرض کی شافی ادویات کی دریافت کے بعد ایسا محسوس ہوتا تھا کہ دنیا سے یہ مرض ختم ہونے لگا ہے، لیکن اچانک اس مرض کے جراثیموں نے ایک اور انداز میں افزائش پانے کے بعد پھر سے انسان کے جسم کو اپنی آماجگاہ بنالیا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ، ٹی بی کا علاج اگر صحیح طریقے سےاور مکمل طور پر نہ کیا جائے تو اکثر یہ بیماری دوبارہ ہو جاتی ہے۔ ماہرین کہتے ہیں، ’’ کئی بار مریض کو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس میں اس بیماری کی علامات ختم ہوگئی ہیں اور اس وجہ سے وہ دوا کھانا بند کر دیتا ہے جبکہ درحقیقت ایسا ہوتا نہیں ہے۔ اگر اس بیماری کے علاج کا پورا کورس نہیں کیا گیا تو اس بیماری کے بیکٹریا جسم کے کسی بھی حصہ کو دوبارہ متاثر کر دیتے ہیں‘‘۔

ٹی بی سے بچاؤ

ٹی بی سے بچاؤ اور پھیلاؤ کا سب سے مؤثر طریقہ اس کا درست طریقے سے بروقت علاج ہے۔ ڈاکٹر کی ہدایت کے مطابق ادویات کو ان کے مکمل وزن کے مطابق استعمال کیا جائے جبکہ کسی بھی صورت وقت سے پہلے علاج کو منقطع نہ کیا جائے۔ ٹی بی کے علاج کے لیے کوالیفائیڈ اور ماہر ڈاکٹر سے رجوع کیا جائے کیونکہ غیر مستند ڈاکٹر کی جانب سے غلط تشخیص، غلط علاج اور علاج کے غلط دورانیہ میں سے کوئی ایک عنصر یا تمام عناصر مل کر عام ٹی بی کو ایم ڈی آر اور ایکس ڈی آر ٹی بی کی طرف لے جاتے ہیں۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ ٹی بی کے خلاف احتیاط اور علاج تک رسائی کو بہتر بنایا جائے۔ اس کے دائمی خاتمے کے لیے پائیدار بنیادوں پر مناسب سرمائے کی فراہمی بشمول تحقیق کو یقینی بنایا جائے تاکہ دنیا کو ٹی بی سے پاک کیا جاسکے۔لوگوں کو چاہیے کہ وہ خود بھی اپنا معائنہ کروائیں کہ کہیں وہ ٹی بی سے متاثرہ تو نہیں۔

تازہ ترین