• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وبائیں پہلے بھی پھیلتی رہی ہیں، موت نے پہلے بھی سر اٹھائے ہیں، گلی گلی پہلے بھی جنازے اٹھے ہیں، خوف کے بھیانک سائے پہلے بھی پنجے گاڑ چکے ہیں۔ مگر اس بار تو نرالی وبا پھیلی ہے۔اس بار انسان موت سے نہیں ڈر رہا ہے۔ اس مرتبہ انسان انسان سے ڈر رہا ہے۔

جب ہزاروں ٹھکانے لگ گئے تو ہم پر بھید کھلا کہ کوئی کسی کو ہاتھ نہ لگائے، گلے نہ ملے، سینے سے نہ لگے، منہ نہ چومے، قریب نہ بیٹھے، بیٹھے تو بیچ میں چھ ہاتھ کا فاصلہ رکھے، غرض یہ کہ اگر کرنا ہی ہو تو دور سے سلام کرے۔

وبائیں زندگیاں چھینا کرتی تھیں، اس نے تو غضب کیا ہے۔ اس وبا نے محبتیں چھین لی ہیں۔ انسانوں کے درمیان فاصلے بڑھ رہے ہیں، دوریاں دو چند ہورہی ہیں، مرض کو کیسے پر لگے ہیں کہ اُڑ کر ایک دوسرے کو لگ رہا ہے۔ کیسا پرند ہے جو کسی کی پکڑ میں نہیں آ رہا۔

کہتے ہیں کہ کچھ نہ کرو، گھر میں بند ہو کر بیٹھ رہو۔ جیسے آیا ہے، ویسے ہی چلا جائے گا۔ کیسا آسان نسخہ ہے۔ ایسا ہی ہوتا تو اٹلی میں سب جی رہے ہوتے اور ایران پر رحمتوں کی جھڑی لگی ہوتی۔

یہ بھی کیسا غضب ہے کہ اگر کچھ اجازتیں ہیں تو ان کے ساتھ کچھ پابندیاں بھی ہیں۔ ورزش کے خیال سے دوڑنا چاہیں یا پیدل چلنے کی خواہش ہو تو چلئے اجازت ہے مگر تنہا دوڑیں، اکیلے چلیں۔

کھلے میدانوں میں جائیں تو لوگوں کے کسی جمگٹھے میں پاؤں نہ دھریں۔ دوسروں سے دور رہیں کہ اس میں آپ کی بھی بھلائی ہے اور دوسروں کی بھی خیر ہے۔

یہ کیا بات ہوئی۔ ہمارے زمانے میں جو بیماری پھیلتی تھی اس کا علاج دوائی سے ہوا کرتا تھا۔ یہ کون سا مرض ہے جس کا علاج تنہائی سے ہوتا ہے۔ اگر یہ بے رحم کورونا وائرس آپ کی جان سے چمٹ ہی گیا ہے تو خود کو کسی کمرے میں بند کر لیں، نہ آپ باہر جائیں، نہ کوئی اندر آئے۔

تو کیا کرے، انسان انسان سے بیزار ہو جائے؟ یہ تو بیماری نہ ہوئی، یہ تو انسان دشمنی ہوئی، محبت کی قاتل۔ہم جو سدا محبتوں میں پلے ہیں، چاہتوں میں بڑے ہوئے ہیں اور قربتوں میں رہ کر ہوش سنبھالا ہے، کیا کریں، سب سے کنارہ کر لیں، تمام سے منہ پھیر لیں۔ نہیں، یہ مرض نہیں کچھ اور ہے، یہ بیماری نہیں، کوئی آسمانی آفت ہے۔

کیا عجب کہیں سے کوئی اُڑن طشتری آئی ہو اور اپنے ساتھ یہ وبا لائی ہو۔ ایسی آفت کہ جس میں وبا تو ہو، وفا نہ ہو۔ جس میں ایسا کچھ ہو جو پہلے کبھی نہ ہوا، جس میں کچھ ایسا کرنا پڑ ے جو پہلے کبھی نہ کیا ہو۔ جس کے چلن نرالے اور جس کے ڈھنگ انوکھے ہوں۔ اسی لئے تو یہ انسان کے بس میں نہیں آرہی۔

یہ مرض اپنے ساتھ حیرتیں لایا ہے۔ جہاں جہاں پھیلا ہے وہاں عجیب باتیں ہو رہی ہیں۔ پہلی تو یہ کہ ہلاکتوں کی خبروں کی بہتات کے باوجود یوں لگتا ہے جیسے لوگ ان خبروں کو ایک کان سے سن کر دوسرے سے اڑا رہے ہیں۔

جیسے لوگوں کو ایک عجیب دیوانگی جیسا یقین ہے کہ جو ہونا ہے اوروں کو ہو، انہیں کچھ نہیں ہوگا۔ کرفیو لگ رہے ہیں، لاک ڈاؤن ہورہے ہیں، لوگ ،سرپھرے لوگ یہ دیکھنے کے لئے گھروں سے نکل آئے ہیں کہ باہر کیا ہورہا ہے۔ذمے دار لوگ چیخ رہے ہیں چلا رہے ہیں کہ یہ لاک ڈاؤن ہے، مزے کرنے والی چھٹی نہیں۔

یہ بات سن کر لوگ قہقہے لگا رہے ہیں۔ کہیں کوئی پیسے والی خاتون رکشہ میں بیٹھ کر اور ہاتھوں میں نوٹوں کی گڈی لے کر گھر سے باہر نکل آئیں کہ دہاڑی والے مزدوروں میں نوٹ تقسیم کریں گی۔ سڑکوں پر بلا وجہ گھومنے والے لوگ ان کی آٹو رکشہ پر ٹوٹ پڑے اور ان کے ہاتھوں سے نوٹ چھیننے لگے۔

تنگ آکر انہوں نے نوٹ ہوا میں اچھالے اور اپنے گھرکی راہ لی۔ تو کیا یہ نوٹ لوٹنے والے واقعی نادار اور بے یار و مددگار تھے۔ کیا شہر میں وبا پھیلی ہو تو انسان کی طرح لحاظ اور مروت بھی مر جاتے ہیں۔ کیا فضاؤں میں اڑتے ہوئے جراثیم قاعدے قانون کی دھجیاں اڑا دیتے ہیں۔

ایسے میں ہمارے دور کے بہت بڑے کہانی کار گبرئیل گارسیا مارکیز کا وہ ناول یاد آتا ہے جس کا نام ہے: وبا کے دنوں میں محبت۔ اس میں ایک لڑکا اور ایک لڑکی ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں مگر لڑکی کے باپ کوبیٹی کی یہ ادا پسند نہیں، وہ لڑکی کو لے کر کہیں اور بسیرا کر لیتا ہے۔

مگر وہ دونوں فاصلے کے باوجود اسی شدت سے محبت کرتے رہے۔ اسی دوران لڑکی کے باپ کی ملاقات ایک باکمال ڈاکٹر سے ہو جاتی ہے جو ہر جانب پھیلی ہوئی ہیضے کی وبا پر قابو پانی کی کوشش کر رہا ہے۔ باپ اپنی بیٹی کی شادی اس ڈاکٹر سے کردیتا ہے۔ دو محبت کرنے والے پچاس سال ایک دوسرے سے جدا رہتے ہیں کہ ایک روز ڈاکٹر سیڑھیوں سے گر کر مرجاتا ہے۔

وقت یہاں تھم جانا چاہئے تھا لیکن محبت ہر جانب پھیلی ہوئی وبا سے زیادہ توانا نکلی۔ ہیضہ مر گیا، محبت جی اٹھی۔کہانی میں جو کچھ ہے سب وقت کے بدلتے ہوئے تیور کی علامتیں ہیں۔

زمانے کو گزرتے رہنے سے غرض ہے، لوگ خود کو زمانے کی شکل میں ڈھالیں یا زمانہ لوگوں کی صورت میں ڈھل جائے۔ اس کا انحصار زمانے پر ہے یا لوگوں پر، اس سوال کو ناول میں جواب کے بنا چھوڑ دیا گیا ہے۔

آج ہمارے سروں پر بھی ایک سوال منڈلا رہا ہے۔ کیا ہم پر کورونا وائرس کی شکل میں جو عذاب نازل ہوا ہے، کیا یہ ہوا کے ایک جھونکے کی طرح گزر جائے گا یا آج کے بعد ہمارا رویہ بدلے گا.

ہمار ے سوچنے سمجھنے کے انداز بدلیں گے، کیا انسانی جان کی جو قدر و قیمت بازار کے بھاؤ کی طر ح گرتی جارہی تھی، اس قیامت کے بعدوہ ہمیں ہمیشہ سے زیادہ عزیز ہوگی، کیا جب نوٹ تقسیم ہورہے ہوں گے تو ہم پیچھے ہٹ کر اپنے سے زیادہ ضرورت مندوں کو راہ دیں گے.

کیا آج کے بعد ہم اپنے ماحول کو یوں جھاڑ پونچھ کر رکھیں گے کہ پھر کوئی نیا وائرس سر نہ اٹھا سکے۔ یہی سوچنے کا مقام ہے کہ اس کے بعد کیا ہر طرف گرتی ہوئی لاشوں پر ہم نوحہ خوانی کریں گے یا جینے کے ایسے ارادے باندھیں گے کہ زندگی ہماری بھول چوک کو معاف کردے گی؟

تازہ ترین