عابد محمود عزام
کہا جاتا ہے کہ زندگی میں کام یاب ہونے کے لیے خوداعتمادی کا ہونا اتنا ہی ضروری ہے جتنا زندہ رہنے کے لیے سانس لینا۔ اسے کام یابی کی پہلی سیڑھی سمجھا جاتا ہے، جو لوگ اپنی زندگی کے مقاصد کا تعین کرلیتے اور مستقل مزاجی کے ساتھ اپنے مقاصد کی تکمیل میں لگ جاتے ہیں ،وہی زندگی میں کوئی اعلیٰ مقام حاصل کر پاتے ہیں۔ ماہرین نفسیات کا کہنا ہے کہ، انسان کی عملی زندگی میں ناکامی کی بنیادی وجہ احساس محرومی،احساس کمتری اور اپنی ذات پر بھروسہ نہ ہونا ہے، جن لوگوں میں خوداعتمادی کی کمی ہوتی ہے، ان کے دلوں میں یقین کی پختگی بھی نہیں ہوتی،جو انسان اپنی صلاحیتوں پر یقین رکھتا ہے، مقصد کے حصول کے لیے مسلسل جدوجہد کرتا رہتا ہےوہ بالآخر کام یاب ہوہی جاتا ہے۔
خود اعتمادی ایک ایسی انسانی صفت ہے ،جس سے ہر شخص مالامال ہونے کی خواہش رکھتا ہے۔ اسے خوف کی ضد بھی کہا جا سکتا ہے، خوف زدہ نوجوان کبھی کام یاب نہیں ہو سکتا۔ یہ خوف ہی تو ہوتاہے، جو کسی منزل کا تعین کرنے سے پہلے ہی راہی کو راستے کی دشواریوں کے وسوسوں اور اندیشوں سے خائف کرتے ہوئے عزائم اور ارادوں کو متزلزل کر دیتا ہے۔ اندیشے اور خوف منزل کی راہ میں حائل رہتے ہیں۔ اگر انسان خود ہی اپنی صلاحیتوں کے بارے میں تشویش کا شکارہو، اسے اعتماد ہی نہ ہو کہ میری کام یابی یقینی ہے ،تو وہ کیسے اپنی منزل مقصود پر پہنچ سکے گا۔اس لیے کام یاب ہونے کے لیے اللہ تعالیٰ کی جانب سے عطا کی ہوئی صلاحیتوں کا ادراک اور ان پر مکمل اعتماد ضروری ہے۔ انسان میں صلاحیتوں کی نہیں ، بلکہ ہمت، حوصلےاورخوداعتمادی کی کمی ہوتی ہے۔
تاریخ شاہد ہے کہ، دنیا میں کچھ نام ور افراد نےبارہا ناکام ہونے کے بعد بھی ہار نہیں مانی اور اپنی منزل کی تلاش میں ڈٹے رہے، بالآخر تمام مشکلات و پریشانیوں کو ان کے آگے ہار ماننی ہی پڑی۔عصر ِحاضر میں دیکھا جا رہا ہے کہ، نسل نو بہت جلد مایوس ہوجاتی ہے، ذرا سی ناکامی پر ہمت ہار جاتی ہے، ان میں خود اعتمادی کا فقدان صاف نظر آتا ہے۔شاید یہ ہی وجہ ہے کہ وہ اپنے مستقبل کے لیے صحیح فیصلہ نہیں کر پاتی۔بیش تر نوجوانوںکا المیہ ہے کہ وہ دوسروں کی کام یابیوں سےحسد کرتے ہیں اور یوں اپنا تمام وقت گنوا دیتے ہیں۔ حالاں کہ دوسروں کی کام یابی کو دیکھ کر جلنے سے بہتر ہے کہ، اپنے خوابوں کی تکمیل کے لیے کوشش کریں، ذرا سی شکست پر ہار ماننےسے کبھی کچھ حاصل نہیں ہو سکتا، آگے بڑھنے کی لگن اور اپنے خوابوں کی تعبیر حاصل کرنے کی تگ و دَو کرتے رہنا چاہیے۔یاد رکھیے، جب کسی کام کی شروعات کی جاتی ہیں ، تو ناکامیوں کا سامنا بھی کرناپڑتا ہے، زندگی میں کبھی نہ گِرنا کمال نہیں بلکہ گر کر سنبھلنا کمال ہے۔
اعتماد بحال کرنے کے لیےضروری ہے کہ، آپ اپنے متعلقہ شعبے میں مہارت حاصل کریں،مطالعہ کریںاور صرف اپنے مضمون پر ہی نہیں بلکہ تمام شعبوں سے متعلق تھوڑی بہت آگاہی حاصل کرنے کی کوشش کریں۔قدم تب ہی ڈگمگاتے ہیں،جب صلاحیتوں پر یقین نہیں ہوتااور ناکام بھی تب ہی ہوتے ہیں۔اگر آپ کو اپنے کام ، صلاحیت اور محنت پر پختہ یقین ہے تو بلا جھجک اپنی منزل کی طرف قدم بڑھاتے جائیں۔ خوداعتمادی دراصل مختلف شعبوں میں انسان کی صلاحیتوں اور قابلیتوں کا اندازہ لگانے کا مؤثر پیمانہ ہے۔ ماہرین نفسیات کہتے ہیں کہ، کام یاب ہونے کے لیے اپنی قابلیت اور صلاحیت کو نکھارناضروری ہے۔
تعلیم یافتہ نوجوان، قلم اُٹھائیں اور لکھیں درج ذیل عنوان پر:
زندگی، تجربات کا دوسرا نام ہے۔ ہر انسان کی زندگی میں اتار چڑھاؤ آتے رہتے ہیں، جن سے کچھ سیکھ لیتے ہیں، کچھ ٹھوکر کھا کر آگے چل پڑتے ہیں، پچھتاتے اُس وقت ہیں، جب کسی مسئلے سے دوچار ہوجاتے ہیں، مگر حل سمجھ نہیں آتا۔ دکھ سکھ، ہنسی خوشی، یہ سب زندگی کے رنگ ہیں، جن سے کھیلا جائے تو بہت کچھ حاصل ہوتا ہے۔ مشاہدے میں آیا ہے کہ، آج کا نوجوان زندگی سے مایوس ہوتا جا رہا ہے۔ ایک تجربے کے بعد دوسرا تجربہ کرتا ہے، جب پے در پے ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو وہ مایوسی کا شکار ہو جاتا ہے۔ لیکن زندگی کے تجربات بہت کچھ سکھاتے ہیں۔ ہم نے آپ کے لیے ایک سلسلہ بعنوان،’’ہنر مند نوجوان‘‘ شروع کیا ہے، اگر آپ تعلیم یافتہ ہنر مند نوجوان ہیں تو اپنے بارے میں لکھ کر ہمیں ارسال کریں، ساتھ ایک عدد پاسپورٹ سائز تصویر اور کام کے حوالے سے تصویر بھیجنا نہ بھولیں۔
اس کے علاوہ ایک اور سلسلہ ’’میری زندگی کا تجربہ‘‘کے نام سے بھی شروع کیا ہے، جس میںآپ اپنےتلخ وشیریں تجربات ہمیں بتا سکتے ہیں۔ بہت ممکن ہے کہ آپ کے تجربات یا تجربے سے دیگر نوجوان کچھ سیکھ لیں۔
ہمارا پتا ہے: انچارج ’’صفحہ نوجوان‘‘ روزنامہ جنگ،
میگزین سیکشن، اخبار منزل،آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی۔
email:nujawan.magazine@janggroup.com.pk