جب سے ہوش سنبھالا ہے زندگی اسی دشت کی سیاحی میں گزر رہی ہے کہ گھر میں روٹی پکے نہ پکے مگر اخبار ضرور چھپے گا، ماں باپ کے بعد اس فانی دنیا میں میرا پہلا ناتہ اخباری کاغذ، قلم اور اخبار سے جڑا۔
کرائے کے مکانوں سے لیکر خدا کی بھرپور رحمتوں کے سائے میں میرے خاندان کا صحافت سے عشق ایسا ہے کہ میں نے اس گھر میں آنکھ کھولی جہاں الماریوں میں زرق برق ملبوسات یا ڈریسنگ ٹیبل پر قیمتی میک اپ کے بجائے سالہا سال پُرانے اخبارات و جرائد سجے یا بےترتیب پڑے رہتے تھے اور والدہ مرحومہ اور والد محترم کے درمیان صبح و شام یہ مسئلہ درپیش رہتا کہ اخبار کی ردی فروخت کرکے چند روپے امی جان کے ہاتھ لگ جائیں۔
والد کی خواہش یہ رہتی کے کوئی تاریخی حوالوں سے مزین ان اخبارات کو ہاتھ نہ لگائے پیار و محبت، خلوص کی یہ نرم گرم جنگ ان مذاکرات کی بنیاد پر ختم ہوتی کہ والد گرامی کسی عید تہوار اخبارات کی چھانٹی کرتے اور اپنی ضرورت کے اخبارات نکال کر دفتر لے جاتے اور باقی مال و اسباب امی جان کے ہاتھ لگ جاتا اور زندگی کا معاملہ یوں آگے بڑھتا چلا جاتا۔
نجانے والدہ مرحومہ نے اس ردی سے زندگی کی کتنی ضرورتیں پوری کی ہوں گی اور والد نے اس تاریخی سرمائے سے کون کون سی تاریخ رقم کی ہوگی لیکن ایک بات سچ ہے کہ اخبار نویس کی زندگی جہدِ مسلسل کی زندہ داستان ہوتی ہے جو قبر تک جاری و ساری رہتی ہے۔
آج میرشکیل الرحمٰن بھی ایک ایسا ہی ضمیر کا قیدی پابند سلاسل ہے جس نے اپنے خاندان کے سربراہ میر خلیل الرحمٰن مرحوم کی میراث کو زندہ رکھا اور اس منزل کو پانے کے لیے جو قربانیاں دیں وہ تاریخ کا ایک ایسا انمٹ اور انمول باب ہے جو بے ضمیر لوگوں کی سمجھ میں نہیں آ سکتا۔
میں خوش ہوں میر شکیل الرحمٰن پابند سلاسل ہوگئے۔ میں اس لیے بھی خوش ہوں کہ میری آئندہ نسل کو پتا ہونا چاہیے کہ اس پیارے پاکستان میں صحافی بننا اوراخباری مالک کے طور پر اپنا کردار ادا کرنا ہر دور میں کتنا مشکل رہا ہے۔
یہ کانٹوں کی سیج ہے پھولوں کا ہار نہیں۔ میری نسل نے مولانا ظفرعلی خان کو صرف کتابوں میں پڑھا، عملی طورپر ان کے نڈر کردار کو آنکھوں سے نہیں دیکھا۔ آج میں یہ منظر دیکھ رہا ہوں۔
سوچ یہ تھی کہ میر شکیل الرحمٰن جس کمزور اراضی کیس میں نیب کے ہتھے چڑھے ہیں‘ بہت جلد رہا ہو جائیں گے اور کچھ لکھنے کی ضرورت نہیں پڑے گی لیکن جس انداز میں معاملات آگے بڑھ رہے ہیں اور جو اندازِ حکمرانی اپنایا جا رہا ہے اور جس انداز میں ایک اچھے دوست کی دوستی کا احسان اتارا جا رہا ہے اور جس طرح انصاف کے دروازے پر تالے پڑے ہیں۔
قلم اٹھانا ہی پڑا کہ یہی وہ وقت ہے کہ جب حق سچ کا ساتھ دینا ضروری ہو جاتا ہے اور ایک بہادر، نڈر اخباری مالک کی گواہی دینا پڑتی ہے کہ تاریخ بھی گواہ رہے کہ تحریک پاکستان کے دوران جن ہستیوں نے پاکستان بنانے میں کردار ادا کیا ان کے وارثوں سے نئے پاکستان میں کیا سلوک ہو رہا ہے اور انہیں سچائی کی کیا سزا مل رہی ہے۔
دورِ جدید کی صحافت اگرچہ پرنٹ سے الیکٹرونک میڈیا کی طرف منتقل ہو گئی ہے (اس کا سہرا بھی جیو کی شکل میں میر شکیل الرحمٰن کو ہی جاتا ہے) اور اب قلم سے زیادہ زبان پر اعتبار کیا جانے لگا ہے کہ زبان درازی سے الزام تراشی کا چلن زیادہ نمایاں نظر آنے لگا ہے اور صحافت حقائق سے ہٹ کر افسانوی انداز اختیار کرتی جا رہی ہے۔
ان حالات میں اگر کوئی شخص حقیقی معنوں میں حقائق، اعداد و شمار کی بنیاد پر حکمرانوں کو آئینہ دکھا رہا ہے تو وہ ہیں میر شکیل الرحمٰن! جو دورِ جدید میں ہر حکمران اور آمر کے سامنے ہمیشہ حقائق کی بنیاد پر ڈٹے رہے اور اس کی سزا بھی پائی۔
یہ ثابت کرنے کے لیے کہ میرشکیل الرحمٰن کتنا سچا ہے یا جھوٹا، کچھ کہنے کی ضرورت اس لیے بھی نہیں کہ ہر اخباری مالک جو کچھ چھاپتا ہے اس کا ذمہ دار بھی وہی ہوتا ہے اور اسے قابو کرنے کے مروجہ قوانین بھی موجود ہیں۔ اس مقصد کے لیے جھوٹے اراضی کیس نہیں بنانا پڑتے۔
میرشکیل الرحمٰن اس عظیم باپ (میر خلیل الرحمٰن مرحوم) کے بیٹے ہیں جنہوں نے تحریک پاکستان ’’جنگ‘‘ سے لڑی اور ہمیشہ صحافت کے اعلیٰ ترین معیارات قائم کیے اور میر شکیل الرحمٰن نے اپنی صلاحیتوں کے بل بوتے پر ان معیارات کو بلندیوں تک پہنچایا۔
میر شکیل الرحمٰن بڑے باپ کے بڑے دل والے بیٹے ہیں جنہوں نے ہمیشہ اپنے مخالفوں کی کوتاہیوں کو درگزر کیا اور انہیں بار بار اپنے سینے سے لگایا، یہ ان کی بدقسمتی کہیں یا خوش قسمتی کہ انہوں نے جن سیاستدانوں، نامی گرامی اخبار نویسوں، اینکر پرسنز پر مشکل حالات میں احسانات کیے۔
جنگ، جیو کے پلیٹ فارم سے انہیں ایک شناخت دی، زمین سے اٹھا کر آسمان کی بلندیوں پر پہنچایا، وہی احسان فراموش آج اپنا قرض اتار رہے ہیں اور میر شکیل الرحمٰن آزادیٔ صحافت کی جنگ تنِ تنہا لڑ رہے ہیں، آخر کس کے لیے؟