سید اطہر حسین نقوی
کام یاب زندگی گزارنے کے لیے تعلیم یافتہ اور ہنرمند ہونے کے ساتھ ساتھ خود اعتمادی بھی ضروری ہے۔آپ کی شخصیت میں اس کی جھلک نمایاں ہونی چاہیے۔ صبح وشام ہمارا واسطہ ایسے بے شمارنوجوانوں سے پڑتا ہے، جو خداد اد صلاحیتوں کے مالک ہوتے ہیں، لیکن خود اعتمادی کی کمی کی وجہ سے اپنا نظریہ ، خیالات وغیرہ دوسروں کے سامنے بیان کرنے سے قاصر ہوتے ہیں، اس وجہ سے ان کی صلاحیتیں سب کے سامنے نہیں آپاتیں ، جس سے انہیں زنگ لگتا رہتا ہے۔نتیجتاً ایسے نوجوان اکثر زندگی کی دوڑ میں پیچھے رہ جاتے ہیں۔
عدم اعتمادی کا شکار نوجوان گفتگو کرنے میں گھبراتے ، اسکول، کالج یا کام کی جگہ ، نصابی وغیرنصابی سرگرمیوں میں حصہ لینے سے کتراتے اور سب کے سامنے بیٹھنے ، بات کرنے کے خوف سے وہ سماجی سرگرمیوں سے بھی دور رہتے ہیں، علاوہ ازیں تجربات کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ نہ صرف یہ بلکہ ، کلاس میں بھی سوال کرنے سے کتراتے ہیں، دوست نہیں بناتے ، خاموش اور الگ تھلگ، اکیلے ہی بیٹھ کر نتائج اخذ کرلیتے ہیں، جو اکثر منفی ہی ہوتے ہیں، اگر کوئی صحیح بات معلوم بھی ہو تو اس کے اظہار کی ہمت نہیں کر تے۔ یعنی مجموعی طور پر انہیں زندگی کے بہت سے معاملات میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور وہ ہر لحظہ تذبذب کا شکار رہتے ہیں۔
اس لیے ضروری ہے کہ کم سے کم اپنی شخصیت سے بلاضرورت جھجک کو خارج کردیں، خود اعتمادی سے محروم نوجوان عزم وہمت کے ساتھ زندگی گزارنے کا فیصلہ کریں، بلا شبہ آج کے ترقی یافتہ دور میں وہ نوجوان جن میں تحمل، یکسوئی، صبر و برداشت کا عنصر ہوتا ہے ، وہ پرسکون رہتے ہوئے اپنی گفتگو اور عادت و اطوار سے سامنے والے کو متاثر کرنے میں کام یاب ہوجاتے ہیں، ترقی کی منازل بآسانی طے کرتے ہوئے، اپنا مستقبل تاب ناک بنالیتے ہیں۔ مشاہدے میں آیا ہے کہ موجودہ دور میں وہی نوجوان کام یاب ہیں، جو اپنی ذات پر بھروسا کرتے اور خود اعتمادی کے ساتھ اپنے فرائض سرانجام دیتے ہیں۔لیکن اس کے برعکس تجزیوں اور مشاہدات سے یہ بات بھی واضح نظر آتی ہے کہ، نوجوان نسل میں خود اعتمادی کا فقدان ہے، ایسے نوجوان تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود عملی زندگی میںکام یاب نہیں ہو پاتے۔
اگر ابتدائی عمر سے ہی والدین یا اساتذہ اپنےبچوں کی تربیت میں کوتاہی اور بےپروائی نہ برتیں،قدم قدم پر ان کی حوصلہ افزائی کریںتو بڑے ہو کران میں قوت فیصلہ، خود اعتمادی، فیصلہ سازی جیسی خصوصیات نمایاں نظر آئیں گی،جن بچوں کوبے جا تنقید، ڈانٹ ڈپٹ اور والدین ، اساتذہ کی جانب سے حوصلہ شکنی کا سامنا ہوتا ہے ، وقت کے ساتھ ان کی سوچ اور شخصیت پر بھی منفی اثرات مرتب ہوجاتےہیں اوران کی شخصیت بری طرح مسخ ہوجاتی ہے۔ وہ وقت کے ساتھ نفسیاتی مسائل اور الجھنوں میں گھرتے جاتے ہیں ۔اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ نوجوان نسل عملی زندگی میں قدم رکھتے ہوئے، کسی پینل کے سامنے انٹرویو دیتےہوئے، تذبذب اور گھبراہٹ کا شکارہوجاتی ہے، جس سے انٹرویو لینے والے اراکین ان کے چہرے کے تاثرات دیکھتے ہوئے ایسے سوالات کرتے ہیں ،جس سے وہ ذہنی طور پر منتشر ہوجاتے ہیں۔ اس کے برعکس وہ نوجوان ،جن کو اپنی ذات پر بھروسا اور اعتماد ہوتا ہے ، سکون اور اطمینان کے ساتھ مدلل جواب سےسامنے والے کو قائل کرلیتے ہیں ۔
حقیقت یہ بھی ہے کہ، اگرتعلیم یافتہ نوجوانوں اور غیرتعلیم یافتہ نوجوانوں کے درمیان خود اعتمادی کا جائزہ لیا جائے تواکثرایسے کردار ہمارے سامنے آتے ہیں، جن میں بھر پور اعتماد ہوتا ہے۔ ٹھیلے والے سے لے کر کسی دکان دار تک کو دیکھ لیں خواہ ان کے کاروبار کی کوئی بھی نوعیت ہو وہ اپنی اشیاء کو فروخت کرنےکے لیے انتہائی خود اعتمادی کے ساتھ اپنی باتوں سےگاہک کو اشیا ءخریدنے پر قائل کرلیتے ہیں۔ اس کے بر عکس تعلیم یافتہ نوجوانوں میں اعتماد کم نظر آتا ہے۔انہیںچاہیےجو،ہوچکاہےاسےماضی کا حصہ بنائیںاور ازسرنو اپنی شخصیت کی کردار سازی کریں ،اپنے آپ میںاعتماد پیدا کریں۔