• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گزرے وقتوں کے لوگ جیسا کہ بتاتے ہیں کہ ،کراچی کی سڑکیں روزانہ رات کو دھلا کرتی تھیں۔ دن میں ان سڑکوں پر ٹرامیں، وکٹوریہ (گھوڑا گاڑیاں) تانگے، سائیکل رکشے اور ڈبل ڈیکر بسیں چلا کرتیں۔ سرکاری بسیں عوام کےلیے ٹرانسپورٹ کی سہولت فراہم کرتی تھیں، پھر ان کےساتھ پرائیویٹ بسیں بھی چلنا شروع ہو گئیں۔اس وقت کی حکومتیں عوام کو سہولیات پہنچانے کی طرف خصوصی توجہ دیا کرتی تھیں۔کراچی میں پبلک ٹرانسپورٹ کا بہترین نظام قائم تھا۔ بسیں اور ٹرامیں صبح سویرے انتہائی مناسب کرایوں میں کراچی کے شہریوں کو ان کے روزگار کے مقام دفاتر، کارخانوں اور فیکٹریوں میں پہنچانے کا کام بخوبی انجام دیتی تھیں۔ 

ڈرائیور اور کنڈیکٹرخوش اخلاق ہوا کرتے تھے۔ہرعلاقہ کا کرایہ سرکارکی طرف سے طے ہوتا تھا۔کنڈیکٹر مسافروں کو ٹکٹ لازمی دیتا تھا، جس کی وجہ سے زائد کرایہ وصولی کا تصور ہی نہ تھا۔ ہر شہری کو اپنی بستی سے کراچی کے کسی بھی علاقے میں جانے کےلئے بسیں بآسانی مل جایا کرتی تھیں۔ اب تو صرف یادیں ہی باقی ہیں۔آج کی نسل کو وہ دور ایک خواب کی طرح لگتا ہے۔

کراچی جو کہ ایک تجارتی حب ہے لیکن بد قسمتی سے کراچی میںملک کے دیگر شہروں کی نسبت پبلک ٹرانسپورٹ کا نظام انتہائی فرسودہ ہے۔ایندھن کی قیمتوں میں اضافے اور مہنگائی نے شہریوں کے لیے سفر کرنا مزید مشکل بنا دیا ہے۔ اس کی مثال ایسی ہی ہے جیسے،ملے نہ ملے، جہاں اور جب جی چاہے رکے اور جہاں چاہے روکے نہ رکےجب چاہے طوفانی رفتار، اور جب چاہے چل کے ہی نہ دے، چلے تورینگ رینگ کر وقت ضائع کرے،جب اترنا ہو تو، بیچ سڑک پر تیز چلتی گاڑیوں کے درمیان زوردار بریک مار کے کودنے کے لیے چیخ پکار مچے تو تڑاخ اور گالم گلوچ شروع ہوجائے،جی بالکل یہ ملک کو 70 فی صد ریونیو کما کر دینے والے کراچی کی ’پبلک ٹرانسپورٹ‘ کا ذکر ہے۔ 

جس کی ٹوٹی پھوٹی اور خستہ حال بسوں میں سفر کی اذیت ناقابل بیان ہے، اور اب ان بسوں کی تعداد بھی گھٹتی جا رہی ہے۔ یہ محدود بسیں بھی شام ڈھلتے ہی بند ہونے لگتی ہیں۔ ان بسوں کے کرائے ڈیزل کے حساب سے لیے جاتے ہیں، اگرچہ زیادہ تر گاڑیاں سی این جی سے چلتی ہیں، اس کی بندش کی صورت میں من مانے کرائےلیے جاتے ہیں۔چاہے ان بسوں کی خراب اور تنگ نشستوں میں پھنس کر آپ کے کپڑے پھٹ ہی کیوں نہ جائیں، زنگ کے نشان پڑ جائیں، بارش میں ٹوٹی کھڑکیوں سے کیچڑ اندر آئے، ٹپکتی چھتوں سے کپڑے گندے ہوں، لیکن کراچی کے متوسط طبقے کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں۔

کوچزمیں بیٹھنے کے لیے مسافر کی صرف مالی حالت کا مضبوط ہونا کافی نہیں بلکہ اس کے لیے مضبوط دل گردے کا مالک ہونا بھی ضروری ہے۔کھٹارہ اور ناکارہ بسیں، ان کی سڑکوں پر کمیابی اور ملنے پر تیز رفتاری اور سڑکوں پر ان کی خرمستیاں، اور فحش فلمی گیت اور وہ بھی اکثر بھارتی۔ کرایوں میں مسلسل اضافہ، مسافروں اور بالخصوص خواتین کے ساتھ ناروا سلوک، یہ سب کچھ ایک دو دن کی بات نہیں برسہا برس سے یہ سب کچھ بسوں اور منی بسوں کے بے بس سواروں کے ساتھ ہوتا چلا آ رہا ہے۔ شہر قائد میں اندھیر نگری چوپٹ راج ہے۔

پیٹرول اورسی این جی کی قیمت کے بڑھ جانے پرٹرانسپورٹ مافیا نے پبلک ٹرانسپورٹ کے کرایوں میں خود ساختہ اضافہ کر دیا ۔ 20 روپے کا سفر اب 40 روپے میں طے ہوتا ہے، مجبور لوگ آدھا سفر پیدل طے کرنے لگے۔ کرایہ بڑھانے پر ڈرائیور اور کنڈیکٹروں کی روزانہ مسافروں سے تلخ کلامی معمول بن گئی ہے۔پرانے لوگوں کو وہ دور اچھی طرح یاد ہوگا جب کراچی کے کمشنر نے بسوں کے کرائے میں اضافے سے پہلے بنیادی جمہوریتوں کے چیئرمین حضرات کو اعتماد میں لینے کے لیے ایک اجلاس طلب کیا،تب کہیں جا کے بسوں کا زیادہ سے زیادہ کرایہ 25 پیسے سے بڑھا کر 30 پیسے کیا گیاتھا۔

ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی میں ماس ٹرانزٹ سسٹم کی غیر موجودگی میں عوام کو ٹوٹی پھوٹی منی بسوں اور بسوں میں سفر کرنا پڑتا ہے، جبکہ صبح اور شام کے اوقات میں اپنی منزلِ مقصود تک پہنچنے کے لیے عوام ،جس طرح خطرناک انداز میں لٹک کر اور چھتوں کے اوپر سفر کرتے نظر آتے ہیں وہ اس پریشانی کی عکاسی کرنے کے لیے کافی ہے ۔اس لیے یہ کہا جا سکتا ہے کہ ہماری قوم دنیا کی بہادر ترین قوم ہے۔ اس کا ثبوت ٹوٹی پھوٹی سڑکیں ہیں۔ آپ نے ان سڑکوں اور اس پر چلتی گاڑیوں کو تو دیکھا ہوگا، ان سڑکوں پر اور کوچز اور بسوں میںجس طرح عوام کو بھیڑ بکریوں کی طرح بھرکر ہمارے ڈرائیور حضرات گاڑیاں چلاتے ہیں،یہ ان کی بہادری نہیں تو اور کیا ہے۔

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق کراچی میں ہر سال 550 افراد ٹریفک حادثوں میں اپنی جان گنواتے ہیں۔ شہر میں کاروں کی تعداد سڑکوں کے تعمیر کردہ ڈھانچے سے کہیں زیادہ ہے۔بڑھتا ہوا ٹریفک اور دھواں چھوڑتی گاڑیوں کو کھلی چھٹی کے باعث، شہر میں آلودگی بھی بڑھتی جا رہی ہے۔ کراچی میں فضائی آلودگی عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے متعین کردہ معیار سے 20 گنا زیادہ ہے۔

ٹریفک کی صورتحال دیکھ کر تو ٹریفک پولیس والوں پر رحم آتا ہے جو اپنی بے بسی کے سبب ٹریفک کے اژدھام میں ایک کنارے کھڑے نظر آتے ہیں۔ٹریفک کے جام ہونے کی وجہ سے ایمبیولینس بھی اپنی منزلِ مقصود پر پہنچنے سے قاصر رہتی ہیں اور معلوم نہیں کتنے مریض ان لمبی لمبی قطاروں میں اپنی زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں۔ہم سب ایک جیسے ہی ہیں، کوئی کتنا ہی پڑھا لکھا کیوں نا ہو ٹریفک کے قوانین کی پاسداری کو اپنے لئے جرم سمجھتا ہے۔ جھڑکنے میں ایک دوسرے کو لعن طعن کرنے میں اور کہیں کہیں تو مارپیٹ کرنے میں بھی بلکل ایک جیسے ہیں، ایک وہ جو سوٹ بوٹ میں بڑی چمکتی اور ٹھنڈی گاڑی میں سوار ہے اور دوسرا وہ جو اپنی شور مچاتی موٹر سائیکل یا پھر کار میں بیٹھا ہے جب کسی بات پر اڑ جائینگے تو دونوں کا مزاج ایک جیسا ہی معلوم ہوگا، بس ذرا سی جگہ ملنی چاہیے۔

کراچی کو لندن پیرس بنانے والوں نے کراچی کو کراچی بھی نہ رہنے دیا، بجلی، پانی،ٹرانسپورٹ کے مسائل نے شہریوں کوبے دم کردیا ہے۔کراچی کی حالت شائد پاکستان کہ تمام بڑے شہروں میں سب سے ابتر ہے۔

کراچی میں ٹرانسپورٹ کا واحد متبادل اور کچھ حد تک آرام دہ ذریعہ چنگ چی اور آٹو رکشہ ہیں، لیکن وہ بھی کم فاصلے کے سفر کے لیے موزوں ہیں، تاہم بہت سے افراد بسوں کی چھتوں پر سفر کرنے سے بچنے کے لیے ان میں سفر کو ترجیح دیتے ہیں۔چنگ چی رکشوں کے ڈرائیوروں کی عمریں عام طور پر 15 سے 20 سال کے درمیان ہیں، جن کے پاس نہ تو کوئی ڈرائیونگ لائسنس ہے اور نہ ہی انھیں ٹریفک کے قوانین کا پتاہے۔موٹر سائیکل وہ سواری ہے ،جسے خطرناک ترین سواری کے طور پر جانا جاتا ہے۔ اس سواری کی مثال خربوزے کی سی ہے، جیسے چاہے خربوزہ چھری پر گرے یا چھری خربوزے پر نقصان خربوزے کا ہی ہوتا ہے۔ سندھ حکومت کب نیند سے بیدار ہوگی یا کب اور کون انہیں یہ یاد دلائے کا کہ جناب کراچی بھی کوئی شہر ہے جس کا اچھا برا آپ کے ہاتھوں میں ہے۔

کراچی کے مسائل اس شہر کی آبادی کے ساتھ ساتھ بڑھتے چلے جارہے ہیں، انھیں فہم و فراست سے حل کرنا چاہیے، مزید پریشان کن مسئلہ اس وقت وفاقی اور صوبائی حکومت کی جانب سے شہر میں شروع کیے گئے منصوبوں کی تکمیل میں تاخیر ہے ،گرین لائن بس کے منصوبہ کو ہی لے لیں جو کہ انتہائی سست رفتاری کا شکار ہے۔ جگہ جگہ شہر کی اہم سڑکیں کھدائی کی وجہ سے بند ہیں، ان منصوبوں کی تکمیل میں تاخیر کی وجہ سے شہری ٹریفک کے حوالہ سے سخت مشکلات کے شکار ہیں۔ حکومت شاید ان منصوبوں کو شروع کرکے بھول چکی ہے، اس لیے وفاقی اور صوبائی حکومت کو چاہیے کہ وہ شہر میں جاری مختلف منصوبوں کو جلد از جلد مکمل کرے ،تاکہ عوام کو اس مشکل سے نجات حاصل ہو۔

تازہ ترین