• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مفر ممکن نہیں اس سے کہ کائنات کی تلخ ترین اور سفاک حقیقت بھوک ہے۔ کسی بھی نظریے، فرقے حتیٰ کہ مذہب سے اس کا کوئی واسطہ نہیں ہوتا، ورنہ یہ بات باور نہ کرائی جاتی کہ ’’بعید نہیں بھوک حدِ کفر کو چھو لے‘‘۔ اینٹھتی آنتوں میں جب بھوک کا الائو بھڑکتا ہے تو تہذیب و تمدن کی سبھی دلیلوں کو خاکستر کرکے رکھ دیتا ہے۔ فلسفہ خودی اور شرافت ڈھکوسلا دکھائی دینے لگتی ہے، بھوک بڑی بدذات ہے۔ ملک کے سب سے بڑے اور متمول شہر کراچی کے مضافات میں کمتر وسائل میں زندگی گزارنے والے ڈھائی لاکھ سے زائد افغان مہاجرین لاک ڈائون کے بعد ایسی ہی صورتحال سے دوچار ہیں۔ یہی کیا خود اس ملک کے لاکھوں باسی اسی اذیت میں مبتلا ہیں، کراچی کی افغان بستی سمیت ملک کی ہزاروں بستیوں میں غذائی قلت بڑھتی چلی جا رہی ہے اگرچہ مخیر پاکستانی اپنے تئیں غربا میں راشن اور نقد رقوم تقسیم کر رہے ہیں لیکن حکومت کی طرف سے عوام الناس کو ریلیف پہنچانے کا کوئی منظم و مربوط نظام دکھائی نہیں دے رہا۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت کو ’’زبانی جمع خرچ‘‘ کے طعنے دینے پر بھی اپوزیشن مستعد دکھائی دے رہی ہے۔ دوسری جانب اگر غربا و مساکین بھوک کو کورونا سے بھی زیادہ خطرناک قرار دے رہے ہیں تو بےجا نہیں۔ ان لوگوں کو ماسک اور سینی ٹائزر سے کوئی غرض نہیں، غرض ہے تو فقط روٹی سے۔ یہ بھی غلط نہیں کہ حکومت اپنے مختصر وسائل کے باعث ہر پاکستانی کی مدد نہیں کر سکتی اور اس نے مہاجرین سے متعلق اقوام متحدہ کے ادارے یو این سی ایچ آر سے مدد طلب کی ہے جسے فوری طور پر مدد کیلئے آگے آنا چاہئے تاکہ حالات چھینا جھپٹی کی طرف نہ جانے پائیں جو ایسے حالات کا حتمی نتیجہ ہوا کرتی ہے، حکومت فوری طور پر ملک کے امرا کو غربا کی مدد کی ترغیب دے تاکہ کسی بھی خرابی کے پیدا ہونے کا احتمال بھی نہ رہے۔ تاخیر کی گئی تو حالات کو یہ حقیقت ثابت کرنے میں تاخیر نہ لگے گی کہ بھوک، کورونا تو کیا ہر شے سے زیادہ خطرناک ہوتی ہے۔

تازہ ترین