برصغیر پاک و ہند کی تاریخ میں، اردو زبان کے ذریعے، ناول نگاری کی ابتدا، جس ناول سے ہوئی، اس کا نام’’مراۃ لعروس‘‘ ہے، جس کو ڈپٹی نذیر احمد دہلوی نے 1857 کی جنگ آزادی کے بعد، انگریزوں کے سامنے، مسلمانوں کی ساکھ اور شناخت کو بحال کرنے کے لیے لکھا۔ یہ ناول 1869 میں شائع ہوا۔ ناول نگار نے اس ناول کے ذریعہ مسلمانوں، بالخصوص عورتوں کی سماجی زندگی کوباریک بینی سے پیش کیا۔ اُس دور کے مغربی ناقدین کی توجہ بھی اس ناول پر مبذول ہوئی، اب تک اس ناول کے سینکڑوں ایڈیشنز شائع ہوچکے ہیں۔
ڈپٹی نذیر احمد دہلوی، جن کو ادبی دنیا میں ڈپٹی نذیر احمد بھی کہا جاتا ہے، وہ 1831 کو ضلع بجنورکے ریہڑ نامی گائوں میں پیدا ہوئے اور 1912 میں ان کی رحلت ہوئی۔ ان کے والد سعادت علی خان تدریس کے پیشے سے وابستہ تھے، یہی وجہ ہے، انہوں نے اپنی ابتدائی تعلیم گھر میں ہی حاصل کی۔ نو سال کی عمر تک فارسی اور عربی پڑھی، پھر دہلی جاکر، عربی، فارسی، انگریزی، تاریخ، فلسفہ، نحو، منطق اور دیگر علوم کوحاصل کرنے کے لیے بھی کوشاں رہے۔ اس تعلیمی سفر میں کئی نامور علما سے فیض حاصل کیا، جن میں نصراللہ خویشگی اور استادالکل’’مولانامملوک العلی نانوتوی‘‘ جیسے نامور اساتذہ شامل ہیں۔
بہت کم عمری میں ہی ڈپٹی نذیر احمد نے اپنے دل کی آواز سن لی تھی، وہ ڈپٹی کلکٹر بننے کے خواب دیکھتے تھے، ایک روز جو پورا بھی ہوگیا۔ اس دور میں ڈپٹی کلکٹر بننے کا مطلب، بہت ترقی یافتہ ہونا تھا۔ انہوں نے اس مقام کو پانے کے لیے سخت محنت کی۔ زمانے کے نشیب و فراز دیکھے۔ اٹھارہ سو ستاون کی جنگ آزادی کو بھی انتہائی قریب سے دیکھا، آپ ان دنوں دہلی میں ہی قیام پذیر تھے، جب یہ تاریخ رقم ہوئی۔ آپ سرسید احمد خان کے افکار سے متاثر تھے، اسی لیے اٹھارہ سو ستاون کےبعد، مسلمانوں کے مثبت تصور کے لیے اپنی سی کوششیں کیں، انہی کوششوں کی بدولت یہ تخلیقی راہ پر گامزن ہوئے۔
ڈپٹی نذیر احمدکے ناول پڑھنے کے بے حد شائق تھے، ان کے سامنے اردو میں تو کوئی نمونہ تخلیق نہیں تھا، البتہ انہوں نے اپنے طور پر کوشش کی اور ناول نگاری میں قدم رکھا، آگے چل کر تاریخ نے ثابت کردیاکہ وہ ایک معاملہ فہم، زیرک اور زبان پر قدرت رکھنے والے، زبردست مشاہدے کے آدمی تھے، انہوں نے اپنی انہی خوبیوں کی بدولت اردو ناول نگاری کی داغ بیل ڈالی اور متعدد ناول لکھے، جن میں مراۃ لعروس، بنات النعش، توبتہ النصوح، فسانہ مبتلا، ابن الوقت، روئے صادقہ، ایامی، امہات الامہ و دیگر کتب شامل ہیں۔ ان کا مقبول ترین اور اردو کا سب سے پہلا ناول’’مراۃ لعروس‘‘ ہمارا آج کا انتخاب ہے۔
انہوں نے اسی ناول کی توسیع کرتے ہوئے پھر’’بنات النعش‘‘ بھی لکھا، مگر ان کابڑا ادبی حوالہ ہمیشہ’’مراۃ لعروس‘‘ ہی رہا ہے۔ اس کا عام فہم معنی’’دلہن کا آئینہ‘‘ ہے، جس میں وہ اپنا اور دوسروں کا نظریاتی سراپا دیکھتی ہے۔ اس ناول میں مسلمانوں کی سماجی زندگی کا بغور جائزہ لیا گیا ہے۔ اکبری و اصغری کے کرداروں کے ذریعے، مسلمانوں اور خاص طورپر عورتوں کی نجی گھریلو زندگی کی عکس بندی کی گئی ہے۔ مختلف کرداروں کے ذریعے اچھائی و برائی کا فرق بیان کیا گیا ہے، ساتھ ساتھ تعلیم و تربیت اور تہذیب و تمدن کی مختلف جہتوں کو بھی عرق ریزی سے متشرح کیا گیا ہے۔ انہوں نے اپنی کہانیوں کے ذریعے، معاشرتی اصلاح، نئی نسل کی تربیت اور طبقہ نسواں کی شعوری بالیدگی کے لیے خوب کام کیا۔
ان کے اکثر ناولوں میں دہلی کی ٹکسالی زبان بھی نمایاں ہے۔ ان کے لیے کہا جاتا ہے، یہ اپنے ناولوں میں ناصح بن جاتے ہیں، لیکن ان کا مقصد تھا کہ مسلمانوں کو جنگ آزادی میں حوصلہ شکنی ہونے پر، اعتماد فراہم کیا جائے، تاکہ وہ معاشرتی ترقی میں اپناکلیدی کردار ادا کرسکیں۔ اکبری، اصغری، ماما عظمت، دور اندیش خان، محمد عاقل، محمد کامل سمیت دیگر کرداروں کے ذریعہ سبق آموز کہانی کو فنی مہارت کے ساتھ قلم بند کیا گیا اور عام انسانوں کی زندگی کی تفہیم بہت باریک بینی سے کی گئی ہے۔ یہی ڈپٹی نذیر احمد کے فن کا نکتہ کمال ہے۔
ان کے مشہور زمانہ ناول’’مراۃ لعروس‘‘ پر اسٹیج کے لیے کئی بار کہانی کو برتا گیا، البتہ 90 کی دہائی میں پہلی مرتبہ اس ناول کی ڈرامائی تشکیل ہوئی۔ پاکستان ٹیلی وژن (پی ٹی وی) سے پیش کیے گئے، اس ڈرامے کا مرکزی خیال ڈپٹی کے ناول سے ہی ماخوذ تھا، جبکہ ٹیلی وژن کے لیے اس کی ڈرامائی تشکیل پروفیسر حق نواز نے کی۔ شوکت زیب العابدین نے اس ڈرامے کی ہدایات دیں۔اس ناول کو پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ کس طرح اپنی تہذیب و ثقافت کو سینکڑوں برس تک محفوظ رکھا جاسکتا ہے، اس پر بنائے گئے ڈرامے سے تخیل کو مزید وسعت ملی، بصری تقاضوں کی بدولت، قدیم کہانی ہمارے آج کے عہد سے جڑ گئی۔ ہمیں ضرورت ہے، اردو زبان کے مزید بہترین ناولوں کو ڈرامائی تشکیل دی جائے، فلموں کے پردے پر منتقل کیا جائے۔