رحمٰن عباس کا ناول’روحزن‘ ایک ایسا طلسماتی جزیرہ ہے جس میں داخل ہونے کے لیے بھیدوں سے بھرے سمندرکی نہ جانے کتنی پرتوں ،اتھاہ گہرائیوں، سرپٹختی طغانیوںاور کتنے ہی مدو رگردابوں سے گزرنا پڑتا ہے۔ قرنوں کے دوران سمندر نے ان گنت کہانیوں، لاتعداد افسانوں، بے پناہ رازوں اور بے انتہا واقعات کو جنم دیا لیکن خود سمندر کب اور کیسے وجود میں آیا، تاریخ انسانی اس کا احاطہ نہیں کرتی البتہ یہ بات قیاس کی جاسکتی ہے کہ سمندر نسائی توانائی سے بھرپور ایسے نمکین پانیوں کا مجموعہ ہے جس پر کبھی مقدس دیویوں کی حکمرانی رہی ہوگی۔
رازوں بھرے ان نمکین پانیوں کا ذائقہ چکھنے سے پہلے اگر آپ رحمٰن عباس کے پہلے ناول ’’نخلستان کی تلاش‘‘میں محبت کے تپتے ریگستان سے نہیں گزرے، دوسرے ناول’’ایک ممنوعہ محبت کی کہانی‘‘کا آخری گیت آپ نے نہیں سنا اور تیسرے ناول’’خدا کے سائے میں آنکھ مچولی‘‘ کرنے والے عبدالسلام سے نہیں ملے توچوتھے ناول ’روحزن‘ کاذائقہ آپ کو بے مزہ بھی کرسکتا ہے۔ ویسے بھی سمندر جس کسی کو اپنے راز میں شریک نہیں کرتا، اُسے باہر اُچھال دیتا ہے۔
ناول کے مرکزی کردار کا نام بھی اسرار ہے اور سمندر کی پراسرار دنیا میں اپنے والدکی گمشدگی کے باوجود اسے سمندر سے وحشت محسوس نہیں ہوتی بلکہ سمندر اسے اپنی طرف کھینچتا ہے۔ وہ سمندر سے مکالمہ کرتا ہےاور فطرت سمندر کے روپ میں اس پر منکشف ہونے لگتی ہے۔ اس کا باپ کوئی دیوتا نہیں تھا اور نہ ہی اسے کسی اپسرا سے جنگ میں شکست ہوئی تھی۔ اس کے باوجود وشنو کے حکم پر سمندر کو ایک بار پھراس کے لیے بلویا گیا اور سمندر کا نمکین پانی اسرار کے لیے ایسا امرت بن گیا جس میں اشنان کے بعد وہ کئی ایک اپسرائوں کو تسخیر کرنے والا تھا۔
کہانی کی اول و آخر افرودیتی تو حنا ہے جو حاجی علی کی درگاہ پر حاضری کے دوران ہلکی ہلکی پھوار کی صورت میں اس کے روح و بدن سے ہمکلام ہوتی ہے اور پھر نفس کے غائب حاضر غائب لمحےمیں داخل ہونے تک اس کے وجود کا دائمی حصہ بن جاتی ہے لیکن حسن اور محبت کی یہ دیوی حنا کے ساتھ ساتھ کئی اور شکلوں اور صورتوں میں بھی اس کی تکمیل کرتی دکھائی دیتی ہے۔ حاجی علی کی درگاہ میں ہونے والی ہلکی ہلکی پھوار سے بہت پہلے تیز طوفانی بارش کی ایک رات یہی دیوی اسے مس جمیلہ کی شکل میں ملی تھی اور دونوں نے روح و بدن کاپہلا گیت مل کر گایا تھا۔
جسموں اور روحوں کے کورس میں گائے جانے والے اس گیت میں شامل ایک شانتی بھی ہے جو اسرارکو اپنا کسٹمر نہیں سمجھتی۔ یہی وجہ ہے کہ حنا سے ملنے کے باجود اس کے قدم خود بہ خودشانتی کی طرف اُٹھنے لگتے ہیں۔روحوں اورجسموں سے جڑی اس کہانی میں حنا کا باپ یوسف بھی ایک مضبوط کردار کے طور پر سامنے آتا ہے اور پھر ایمل ، مس تھامس، حنا کی سہیلی ودی اور ’کتاب الحکمت بین الآفاق ‘کے تعلیم کردہ نصاب کے ذریعے ایک ایسے طرزِ فکر اور طرزِ زندگی کی تشکیل سامنے آتی ہے جس نے اس کہانی کوحزن و ابنساط کی ایسی جدلیات میں تبدیل کردیا ہے جس سے گزرے بغیر اُردو ناول کے تجریدی ارتقاء کو سمجھنا اور ناول نگاری کے نئے معیارات کا تعین انتہائی مشکل ہے۔
رحمٰن عباس پر فرائڈ اور ڈی ایچ لارنس کے اثرات نمایاں ہیں لیکن اس ناول میں ان کے کرداروں کی نفسیاتی تجسیم ممتاز مفتی کے رنگ میں رنگی ہوئی ہے۔ ممتاز مفتی کے طویل ناول ’علی پورکے ایلی‘میں ایلی کے کردار کےارتقائی سفراور رحمٰن عباس کے ناول’روحزن‘کی تفہیم ایک جیسے انداز میں ہوئی ہے۔ لیکن اپنے اپنے کلائمکس اور تھیسس میں دونوں کہانیاں الگ الگ دنیائیں ہیں۔’علی پورکاایلی‘ میں ایلی کا باپ ہر جگہ نفسانی فتوحات حاصل کرتا ہے جس سے بچے کی شخصیت بری طرح متاثر ہوتی ہےاور وہ نفسانی خواہشات سے متنفر ہو جاتا ہے۔ ممتاز مفتی کا ایک اور ناول ”الکھ نگری“ ہے۔ اگر علی پور کا ایلی اور الکھ نگری کوایک ساتھ پڑھا جائے تو لگتا ہے کہ ایک ہی کردارہے جو نفسانیت سے تصوف کی طرف محوِ سفر دکھائی دیتاہے۔
جبکہ رحمٰن عباس کے کردار جنسی عمل کو ہی’ روحزن‘ کا آسان علاج قراردیتے ہیں۔ ناول میں اس کی وضاحت ان الفاظ میں کی گئی ہے۔’’والدین میں سے کسی ایک یا دونوں کی کسی اور سے وابستگی کو اگر بچہ اپنی آنکھوں سے دیکھ لے تو یہ منظر اس کی روح کو پرحزن کر دیتا ہے۔ یہ حزن روح میں چھید کردیتا ہے۔ چھید کا رقبہ وقت کے ساتھ بڑھتا جاتا ہے۔ یہ خالی رقبہ اپنے خالی پن کے سبب روح کا ایک مرض بن جاتاہے ۔اس مرض کا آزمودہ اور آسان علاج انبساط ِ اختلاط ہے۔ اختلاط محبت کی فطری پناہ گاہ ہے۔ اس سے انکارنفس اور محبت دونوں کا انکار ہے۔ اختلاط بدن کی کھڑکیاں کھولتا ہےجس سے روح میں روشنی پھیلتی ہے۔ اس روشنی سے روح کی کئی ایک بیماریاں ٹھیک ہو جاتی ہیں‘‘۔
رحمٰن عباس اپنی کردارنگاری، جزئیات پر گہری نظراور زبان و بیان پر مکمل گرفت کے حوالے سے روسی ناول نگاروں کے زیادہ قریب دکھائی دیتے ہیں۔کہیں کہیں مارکیز کا عکس بھی اس ناول میں ملتا ہے اور جب ’ممبادیوی‘ کی جلوہ گری سامنے آتی ہے تو مصنف کا بیانیہ میرامن دہلوی کے’قصہ چہار درویش ‘ کی زبان جیسا لطف دینے لگتا ہے۔ حزن و ملال اور لطف و انبساط میں گندھی بے نام رشتوں کی یہ کہانی ایک نئی داستان اوربے نام کیفیتوں، انسانی جبلتوں اور نفسیات کی نئی تفہیم ہے۔ اُرد وزبان کی خوش بختی ہے کہ اسے رحمٰن عباس کی شکل میں سماجی و سیاسی شعوررکھنے والا ایک نیا داستان گو مل گیا ہے۔