داغ دہلوی
ایک بار داغ دہلوی اجمیر گئے ۔جب وہاں سے رخصت ہونے لگے تو اُن کے شاگرد نواب عبداللہ خان مطلب نے کہا:
’’استاد! آپ جارہے ہیں، جاتے ہوئے اپنی کوئی نشانی تو دیتے جایئے۔‘‘
یہ سُن کر داغ نے بلا تامل کہا:
’’داغ کیا کم ہے نشانی کا، یہی یاد رہے‘‘
…٭…٭…
ایک دن داغ دہلوی نماز پڑھ رہے تھے کہ اُن کا شاگرد آیا۔ استاد کو نماز پڑھتے دیکھا تو واپس چلا گیا، جب داغ دہلوی نماز سے فارغ ہوئے تو نوکر نے کہا فلاں صاحب آئے تھے۔ داغ نے نوکر سے کہا، دوڑ کر بلا لائو۔ جب وہ صاحب آئے تو داغ نے کہا، آپ آکر چلے گئے؟ شاگرد نے کہا، آپ نماز پڑھ رہے تھے۔ داغ کہنے لگے، جناب ہم نماز پڑھ رہے تھے، لاحول تو نہیں پڑھ رہے تھے، جو آپ بھاگ گئے۔
…٭…٭…
داغ کی ایک ملازمہ تھی۔ کوئی بیس برس کی۔ ایک دفعہ داغ نے اپنے آدمی کے ذریعے اسے بلوایا، اُس نے کہا کہ ان سے کہہ دے میری بلا بھی نہیں آتی۔ ملازم نے یہی جملہ داغ سے آکر دہرایا۔ داغ لطف اندوزی کی خاطر بار بار اس سے دریافت کرتے تھے کہ اُس نے کیا کہا اور وہ اسی جملہ کو دہراتا جاتا تھا۔ اسی کیفیت میں اُنہوں نے نواب عزیز یار جنگ سے (جو موجود تھے) کہا کہ لکھو۔
یہ کیا کہا کہ میری بلا بھی نہ آئے گی
کیا تم نہ آئو گے تو قضا بھی نہ آئے گی