• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

معاشی حقائق…سکندر حمید لودھی


وزیراعظم عمران خان نے ماہِ رمضان میں حکومتی کارکردگی کو بہتر انداز میں اجاگر کرنے کے لیے ایک نئی میڈیا ٹیم متعارف کرانے کا فیصلہ کرکے سبھی حلقوں کو حیران کر دیا۔ خاص کر اُن حلقوں کو جو سمجھتے تھے کہ فارغ کی جانے والی مشیرِ اطلاعات ڈاکٹر فردوس عاشق کئی حلقوں اور حکام پر حاوی ہیں۔ اِس فیصلے کے بعد وزیراعظم نے جو نئی میڈیا ٹیم متعارف کرائی ہے، اُسے حسبِ روایت اے پی این ایس اور سی پی این ای نے سراہا ہے۔ ویسے سراہنا بنتا بھی ہے۔ دونوں شخصیات، احمد فراز کے فرزند شبلی فراز ہر لحاظ سے اچھے اور میٹھے انسان جبکہ جنرل (ر) عاصم سلیم باجوہ جدید آئی ایس پی آر کے سربراہ سمجھے جاتے ہیں جن کے دور میں آئی ایس پی آر کو جدید بنیادوں پر استوار کیا گیااور آج آئی ایس پی آر ایک میڈیا اور قومی سلامتی کے معاملات کے دفاع کے حوالے سے ایک موثر ترین ادارہ یا انسٹی ٹیوشن بن چکا ہے۔ جنرل (ر) عاصم سلیم باجوہ میڈیا، خاص کر سینئر میڈیا شخصیات کے حوالے سے جانے پہچانے ہیں۔ انہیں میڈیا کے ساتھ تعلقات بنانے اور اپنے ادارے یا حکومتی موقف منوانے کا سلیقہ بھی آتا ہے۔ امید کی جا سکتی ہے کہ جیسے جنرل ضیاء کے دور میں بریگیڈئیر صدیق سالک اور جنرل مجیب الرحمٰن سیکرٹری اطلاعات کے دور میں میڈیا کے معاملات دیکھتے اور گائیڈ کرتے تھے، اب بھی ایسی ہی کوئی حکمتِ عملی وضع کی جائے گی جس سے حکومت اور حکمرانوں کے بارے میں زیادہ تر مثبت نکات پڑھنے اور سننے کو ملیں گے۔ اس سلسلہ میں حکومت اور میڈیا مالکان کے درمیان کئی وجوہ کی بناپر جو تھوڑے بہت فاصلے پیدا ہو چکے ہیں، اُنہیں دور کرنے کی کوشش بھی کی جائے گی اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کچھ عرصہ بعد ہی حکومت اور میڈیا مالکان 2021سے پہلے ایک ایسے ضابطہ اخلاق کی تیاری میں کامیاب ہو جائیں جس سے پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا دونوں آزاد، خودمختار اور سب سے زیادہ ذمہ دار صحافت کا راستہ اپنا لیں۔ دوسری طرف حکمران بھی برداشت اور تحمل سے دل بڑا کر لیں۔ نئی میڈیا ٹیم ہر لحاظ سے متوازن ہے۔ وزیر اطلاعات شبلی فراز اور میڈیا ایڈوائزر جنرل (ر) عاصم سلیم باجوہ دونوں ہی صلح جو اور ٹھنڈے مزاج کی شخصیات ہیں۔ دونوں کے دل بڑے اور دروازے کھلے ہیں، اس لئے اُنہیں ملک میں ایک اچھی روایت کا آغاز کرتے ہوئے جنگ اور جیو گروپ پر پڑنے والے دبائو میں کمی اور گروپ کے سربراہ میر شکیل الرحمٰن کی رہائی کے لیے کوئی آسان اور قابلِ قبول راستہ نکالنا چاہئے۔ اس سے بین الاقوامی سطح پر کئی اداروں میں پاکستان میں میڈیا پر دبائو بڑھنے کے خدشات ختم کرنے میں کافی مدد مل سکتی ہے۔ دوسرا یہاں صحافتی اداروں کو ایک اطمینان ہو سکتا ہے کہ نئی میڈیا ٹیم واقعی میڈیا فرینڈلی ہے۔ ایسے فیصلے کرنا حکومت کے لیے اچھا ہوگا۔ اس کے علاوہ نئی میڈیا ٹیم سے گزارش ہے کہ وہ ملک میں سیاست کےماحول کو گرما گرمی سے نکالنے کے لیے قومی سطح پر حکومتی اداروں کی معاشی اور سماجی شعبوں میں کارکردگی کو زیادہ اجاگر کرے تاکہ عوام کو معاشی مسائل اور ان کے حل کے حوالے سے صحیح حقائق معلوم ہو سکیں۔ اس وقت ملک میں زیادہ تر سیاست نان ایشوز پر ہورہی ہے اور عوام کی اکثریت یہ رائے رکھتی ہے کہ پارلیمنٹ کے ریڈار پر قومی معاشی ’’ایشوز‘‘ اس طرح زیرِ بحث نہیں لائے جاتے جیسے لائے جانے کی ضرورت ہے۔ اِس وجہ سے عوام کی اکثریت کو نہ تو کچھ سمجھ آ رہا ہے اور نہ ہی کچھ مل رہا ہے۔ نئی میڈیا ٹیم کے حوالے سے اب ایک چیلنج کا سامنا اپوزیشن کو بھی کرنا پڑے گا۔ وہ جب حکومتی پالیسیوں پر تنقید کریں گے تو انہیں یہ دیکھنا ہوگا کہ انہیں جواب دینے والی میڈیا ٹیم کن شخصیات پر مشتمل ہے اور دونوں کا پسِ منظر کیا ہے، اس لئے احتیاط اور سمجھ داری وقت اور حالات کا تقاضا بن سکتی ہے۔


(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین