وباؤں کے تنا ظر میں لکھے جانے والے بیش بہا عالمی ادب میں شاعری اور فکشن، دونوں شعبوں میں اتنی تخلیقات شامل ہیں جن کا شمار کیا جانا ہی ناممکن ہے۔ صرف اردو ادب ہی میں اس حوالے سے سینکڑوں تخلیقات شائع ہوکر ہمارے ادب کی سرخروئی کا سبب بنی ہیں ۔اردو فکشن میں صرف ناولوں ہی میں وباؤں کا ذکر نہیں آیا بلکہ بے شمار افسانے بھی اس پس منظر میں لکھے جاچکے ہیں اور قارئین کے ذہنوں پر گہرے نقوش چھوڑنے کا سبب بنے ہیں۔ایسے ہی بے مثال افسانوں میں راجندر سنگھ بیدی کا افسانہ ’’قرنطینہ‘‘ بھی شامل ہے۔
راجندر سنگھ بیدی اُردو کے صف اول کے افسانہ نگار تھے جنہوں نے ترقی پسند ی کو اپنا مسلک ِ حیات بنایا تھا۔ خود ترقی پسند افسانہ نگاروں میں بھی وہ ایک امتیازی پہچان رکھتے تھے۔انہوں نے مختصر افسانے ہی نہیںلکھے بلکہ طویل افسانے بھی تحریر کیے۔ بڑے کینوس کی کہانی لکھنا خاصا جان جوکھوں کا کام ہے کیونکہ ایسا کرتے وقت لکھنے والے کا جہاں سانس اکھڑا،کہانی ہاتھ سے نکل جاتی ہے۔ بیدی نے چھوٹی بڑی بہت سی کہانیاں لکھیں۔’اپنے دکھ مجھے دے دو‘اور’ایک چادر میلی سی‘ ایسی کہانیاں ہیں جو ہمیشہ اردو ادب کا مان بنی رہیں گی۔بیدی انسانی جذبوں اوراحساسات کے رمز آشنا ہیں۔
وہ ان احساسات کو ان کی اتھاہ ترین گہرائیوں کے ساتھ اپنے کرداروں میں کچھ یوں منتقل کرتے ہیں کہ ان کے کردار،افسانوی کردار نہیں رہتے ،ہمارے ارد گرد چلتے پھرتے انسان بن جاتے ہیں۔ایسے انسان جنہیں ہم نے پہلی مرتبہ اس گہرائی کے ساتھ دیکھا ہوتا ہے۔کوئی تخلیق کس طرح اپنے پڑھنے والے کی حسوں کو بیدار کرتی ہے، یہ تجربہ کرنا ہو تو بیدی کی کہانیاں اس کی بڑی اچھی مثال ثابت ہوں گی۔
’قرنطینہ‘ ایک مثالی ترقی پسند افسانہ ہے۔اس کا کردار ولیم بھاگو ایک خاکروب ہے۔افسانے کا کہانی کار ایک ڈاکٹر ہے جو ایک ایسے شہر میں تعینات ہے جو طاعون کی وبا کی زد میں آچکا ہے۔ڈاکٹر کی ڈیوٹی قرنطینہ کے اندر ہے جہاں وہ مریضوں کی جان بچانے میں روزوشب ایک کیے ہوئے ہے۔ڈاکٹر کا خیال ہے کہ شہر میں جتنی اموات قرنطینہ سے ہورہی تھیں اتنی طاعون سے نہیں ہوئی تھیں،کیونکہ قرنطینہ کا ماحول حد درجہ اذیت ناک تھاجہاں مریض اپنے دائیں بائیں مریضوں کو مرتا دیکھ کر خود بھی مرنے سے پہلے مررہے تھے۔قرنطینہ میں اموات یوں بھی ذیادہ ہورہی تھیں کہ بیماری کے آثار ظاہر ہونے پر مریض اوراُس کے متعلقین اکثر اس کو چھپانے کی کوشش کرتے تھے اور یوں مریض کا علاج مؤخر ہونے پر اُس کی کیفیت مزید خراب ہوجاتی تھی۔طاعون کا خوف خود ڈاکٹر کے اعصاب پر بھی حملہ آور ہوتا تھا جس کے لیے اس کو ہاتھ دھوتے رہنے اور جراثیم کش مرکب سے غرارے کرنے کے علاوہ برانڈی کا سہارا بھی لینا پڑتا تھا۔
ولیم بھاگو مذہباً عیسائی تھا ۔وہ پادری ریورنڈ لابے کی تعلیم سے متاثر ہے جس نے اُس کو بتایا ہے کہ یسوع مسیح یہی سکھاتے ہیں کہ بیمار کی مدد کرنے کے لیے اپنی جان تک لڑادینی چاہیے۔بھاگو گلی میں صفائی کا کام کرتا ہے۔وہ رات گئے اٹھتا ہے۔گلیوں اور نالیوں میں چونا بکھیرتا ہے۔بازار میں پڑی ہوئی لاشوں کو اکٹھا کرتا ہے۔گھروں میں بند لوگوں کے کام کاج کردیتا ہے۔اُس کو طاعون سے خوف نہیں آتا۔اس کا خیال ہے کہ ’’بن آئی بال بھی بیکا نہیں ہوگا‘‘۔
پھر بھاگو، قرنطینہ میں ڈاکٹر کے ساتھ کام کرنے لگا۔وہ جس طرح مریضوں کی خدمت کرتا اور اُن کی دلجوئی کررہا ہوتا تھا وہ خود ڈاکٹر کے لیے بھی مشعل راہ تھا۔وہ بھی بھاگو کی سی جانفشانی سے کام کرنے کا عزم کرتا ہے لیکن بقول اُس کے: ’کورانٹین میں پہنچ کر جب میں نے مریضوں کی خوفناک حالت دیکھی اور اُن کے مونہہ سے پیدا شدہ تعفن میرے نتھنوں میں پہنچا،تو میری روح لرز گئی اور بھاگو کی تقلید کرنے کی ہمت نہ پڑی‘۔
وبا اپنے ساتھ افراتفری بھی لے کر آئی۔ایک مریض جو قرنطینہ میں خوف سے بے ہوش ہوگیا تھا،اُس کو مردہ تصور کرکے دیگر لاشوں کے ساتھ جلنے کے لیے ڈال دیا گیا،جب اُس نے شعلوں میں ہاتھ پائوں مارے تو بھاگو نے بمشکل اس کو نکال تو لیا مگر اُس کا اپنا ہاتھ جھلس گیااور چربی باہر نکل آئی،کچھ دیر بعد وہ مریض تڑپ تڑپ کر ہلاک ہوگیا۔بھاگو جھلسے ہوئے ہاتھ کے ساتھ ایک مرتبہ پھر مریضوں کے خدمت میں لگ گیا۔
ایک روز ڈاکٹر قرنطینہ نہیں گیا۔اُس کی اپنی طبیعت بہت بوجھل تھی۔ آس پاس پھیلے ہوئے موت کے سائے نے اُس کو خوف میں مبتلا کررکھا تھا۔شام گئے بھاگو ہانپتا کانپتا ڈاکٹر کے پاس آیا اور بتایا کہ اُس کی بیوی سخت بیمار ہے،وہ اُس کو دیکھنے کے لیے ساتھ چلے۔ڈاکٹر کو غصہ آیا کہ اگر بیوی بیمار تھی تووہ قرنطینہ ڈیوٹی پر کیوں گیا۔ ڈاکٹر نے اُسے غصے سے جھڑک دیا۔بھاگو مایوس واپس چلا گیا تو ڈاکٹر اپنے رویّے پر نادم ہوا اور لباس تبدیل کرکے بھاگو کے گھر گیامگر باوجود کوشش کے وہ بھاگو کی بیوی کو بچا نہیں سکا۔بھاگو پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔بظاہر اُس کی دنیا تاریک ہوچکی تھی مگر اگلے روز ڈاکٹر نے اُس کو قرنطینہ میں اسی جذبے کے ساتھ مریضوں کی خدمت کرتے پایا۔ایک بھاگو ہی نے ’سینکڑوں گھروں کو بے چراغ ہونے سے بچا لیا‘۔ ڈاکٹر نے بھی اس کی تقلید میں خود کو پہلے سے زیادہ مستعدی سے بیمارو ں کے علاج کے لیے وقف کردیا۔
وبا جب ختم ہوئی اور شہر کی صفائی کی جانے لگی تو معمولاتِ زندگی بھی رفتہ رفتہ بحال ہونے لگے۔اب ڈاکٹر کی خدمات کے اعتراف کا سلسلہ شروع ہوگیا۔وبا کے دنوں میں اس کی کارکردگی سب سے بہتر قرار دی گئی۔لوگ احسان مند نظروں سے اُس کی طرف دیکھتے۔ اخبارات اُس کے لیے تعریفی کلمات اور اس کی تصاویر چھاپتے،دادو تحسین کی اسی فضا میں ڈاکٹر کا سر فخر سے بلند ہوجاتا۔ڈاکٹر کی خدمات کے اعتراف ہی میں فیصلہ ہوا کہ اُس کے اعزاز میں ایک تقریب منعقد کی جائے۔شہر کے عمائدین نے اس جلسے میں تقریریں کیں۔بنی آدم کی خدمت گزاری کے صلہ میں وزیر بلدیات نے ڈاکٹر کو ایک ہزار ایک روپے کی تھیلی کا تحفہ دیا۔
اُس کو ہاروں سے لاددیا گیا۔ ساتھ ہی اعلان ہوا کہ ڈاکٹر کو ترقی دے کر لیفٹیننٹ کرنل کے عہدے پر فائزکردیا گیا ہے۔ڈاکٹر نے اپنی شکریے کی تقریر میں وبا کے دنوں کے اپنے تجربات بتائے اور بتایا کہ وبا کے دنوں میں ہسپتال اور قرنطینہ کے علاوہ اُس نے اور اُس کے رفقاء نے غریب بستیوں میں بھی رات گئے تک کام کیا۔ زبردست دادو تحسین وصول کرنے کے بعد ڈاکٹر گھر پہنچا تو ایک آہستہ سی آواز نے اُس کو اپنی طرف متوجہ کیا۔یہ بھاگو کی آواز تھی:’بابو جی۔۔۔بہت بہت مبارک ہو‘۔
تب احساس تفاخر سے لبریز ڈاکٹر پر ایک اور احساس نے غلبہ پایا،یک دم اُس کو خیال آیا کہ وبا سے نجات کے بعد سب ایک دوسرے کو مبارکبادیں دے رہے ہیں۔ سب کی خدمات کا اعتراف ہورہا ہے۔خود ڈاکٹرایک ہیرو بن کر ابھرا ہے لیکن کسی کی نظر وبا کے دنوں میں سب سے اذیت ناک اور مشکل کام کرنے والے بھاگو کی طرف نہیں گئی۔تب ڈاکٹراُس غریب ،اور سماج کی نظروں میں کم ترین شخص،خاکروب بھاگو سے مخاطب ہوکر بولا:’دنیا تمہیں نہیں جانتی بھاگو،تو نہ جانے۔۔۔ میں تو جانتا ہوں۔تمہارا یسوع تو جانتا ہے۔۔۔پادری لابے کے بے مثل چیلے۔۔۔تجھ پر خدا کی رحمت ہو‘۔ ڈاکٹر کا گلا سوکھ گیا۔بھاگو کی مرتی ہوئی بیوی او ربچے کی تصویر اُس کی آنکھوں میں کھنچ گئی۔ہاروں کے بار سے اس کو اپنی گردن جھکتی ہوئی محسوس ہوئی۔بٹوے کے بوجھ سے اس کی جیب پھٹنے لگی۔ اوروہ اتنے اعزاز حاصل کرنے کے باوجود بھی بے توقیر ہوکر اس قدر شناس دنیا کاماتم کرنے لگا۔
بیدی کی اس کہانی نے یہی تعلیم دی کہ ہم پسے ہوئے اور ادنیٰ خدمات کی انجام دہی میں منہمک جن لوگوں کی طرف دیکھنا بھی گوارا نہیں کرتے ،اصل شرفِ انسانیت کے حامل تو یہی لوگ ہیں۔اور اگر ذرا غور سے دیکھیں تو یہی افتادگانِ خاک ہیں جن کے طفیل ہمارا کاروانِ ہستی رواں دواں ہے اور وبائوں سے بھی نبرد آزما ئی کرتا رہا ہے۔
پس نوشت: بیدی کی کہانی ’قرنطینہ‘ پر اس تبصراتی مضمون کو پڑھنے والے قارئین سے کیا یہ درخواست کرنا بے جا ہوگا کہ اب جبکہ ساری دنیا کی طرح ہم بھی ایک خطرناک وبا سے دوچار ہیں،ہم اس لڑائی میں اگلے محاذ پر لڑنے والے ڈاکٹروں، نرسوں اور دیگر تکنیکی عملے کے ساتھ ساتھ ہسپتالوں کے سوئپرز اور ہلاک شدگان کی تجہیز و تدوین کرنے والے انسانیت کے خدمت گزاروں کو بھی نہ بھولیں اور اُن کی خدمات کا بھی کھل کر اعتراف کریں۔ کیا ہمارے کالم نگار اور ٹی وی چینلوں کے پیش کار، معاشرے کے ان بالکل ہی دھتکارے ہوئے لوگوں کو اپنے قومی بیانیوں میں جگہ دیں گے جن کو ہم گھر کے برتنوں میں پانی دینے کے بھی روادار نہیں مگر جو،ان دنوں ہمارے اُن عزیز ترین رشتہ داروں اور دوست احباب کے بیمار جسموں کو صاف کررہے ہیں، اُن کی غلاظتوں کو صاف کررہے ہیں،جن کے قریب بھی جانے کی ہم ان دنوں ہمت نہیں کررہے۔