یہ مئی2018 کے پہلے ہفتے کی بات ہےجب چین نے یہ امریکی الزام مسترد کردیا تھا کہ جبوتی میں چینی فوجی اڈے کے قریب امریکی جہازوں پر لیزرلائٹ پھینکے جانے کے نتیجے میں امریکی پائلٹس زخمی ہوگئے تھے۔ واضح رہے کہ امریکا کی جانب سے چین سے شکایت کی گئی تھی کہ گزشتہ ہفتوں میں اس کے جنگی جہازوں کو متعدد مواقع پر لیزر لائٹ سے نشانہ بنایا گیا ہے۔ اس وقت پینٹاگان کا کہنا تھا کہ واقعات امریکی فضائیہ کے لیے سنگین خطرہ ہیں۔ چین سے کہا ہے کہ وہ ان کی تحقیقات کرے۔اس وقت امریکا نے اپنے پائلٹس کوہدایت کی تھی کہ وہ جبوتی کے مخصوص علاقے میں پرواز کے دوران احتیاطی تدابیر پر عمل کریں۔جہازپر پھینکی جانے والی لیزرلائٹ پائلٹ کو زخمی یا اسے عارضی طور پر اندھا کر سکتی ہے۔نتیجتا لینڈنگ یا ٹیک آف کے دوران خطرے کا سامنا ہو سکتا ہے۔
چین کی جانب سے ایسے کسی اقدام کی تردید کیے جانے اور امریکا کی جانب سے اصرار نہ کیے جانے کے بعد یہ معاملہ رفع دفع ہوگیا تھا۔لیکن یہ لیزر شعاع کو عسکری مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی جانب پہلا اشارہ نہیں تھا۔اس ضمن میں پہل خود امریکا نے کی تھی۔یہ جولائی 2010کی بات ہے جب ہتھیار بنانے والی ایک امریکی کمپنی ’’ریتھیون‘‘ نے ایک ایئر شو کے دوران جہاز کو مار گرانے والی ایک خصوصی لیزر ٹیکنالوجی پیش کی تھی۔مذکورہ کمپنی بہت دنوں سے لیزرشعاع پر تجربات میں مصروف تھی۔
کمپنی نے ہیمپشائر میں فانبرہ کے مقام پر ایک ایئر شو کے دوران یہ تجربہ کیا تھا۔’’دی لیزر کلوز ان ویپن سسٹم‘‘ یعنی سی آئی ڈبلیو ایس نامی اس نظام کا بہ ذات خود بھی استعمال کیا جا سکتا ہے یا یہ توپوں کے ساتھ بھی مدد گار ثابت ہوسکتا ہے۔یادرہے کہ اس سے قبل مئی 2010 میں بغیر پائلٹ والے ایک جہاز کو مارگرانے کے لیے لیزرٹیکنالوجی کا کام یاب تجربہ کیاگيا تھا۔اس وقت ریتھیون کا کہنا تھاکہ سولڈ فائبر کی لیزر سے پچاس کلوواٹ کی شعائیں پیدا ہوتی ہیں اور وہ بغیر پائلٹ والے جہاز، مارٹر، راکٹ اور اور چھوٹے سمندری جہازوں کے خلاف استعمال کی جا سکتی ہیں۔
لیزرشعاع کی دریافت انیس سو ساٹھ میں ہوئی تھی ۔تب سے اسے بہ طور ہتھیار استعمال کرنے کی کوششیں ہوتی رہی ہیں۔پہلےکیمیائی لیزرکا نظام تھا جوکیمیائی ردعمل سے قوت پاتی تھی۔لیکن اس کے برعکس سولڈ اسٹیٹ لیزرشیشے یا سرامک مادّے کی مدد سے شعائیں پیدا کرتی ہے۔
دفاع سےمتعلق ایک ہفتہ وار میگزین ’’جین ڈیفنس‘‘کے ایڈیٹر پیٹر فیلسٹیڈ کا اس وقت کہنا تھا کہ سی آئی ڈبلیو ایس اب دفاعی امور میں استعمال کی جا سکےگی۔ بغیر پائلٹ والا جہاز ہتھیار ہے اور نہ ہی بہت تیزی سے اُڑتا ہے، لیکن لیزر سے اسے گرادیا گیا۔ یہ ابھی اس ٹیکنالوجی کا ابتدائی مرحلہ ہے جو مستقبل میں بہت موثر ثابت ہوسکتی ہے۔ریتھیون کمپنی کے نائب صدر مائک بوئن نے کہا تھاکہ یہ تجربہ لیزر ٹیکنالوجی کے شعبے میں ایک بڑا قدم ہے۔ اینٹی میزائیل نظام کے تحت اسے امریکی اور نیٹو کے بہت سے جہازوں، جیسے رائل بحریہ پر پہلے ہی نصب کیا جا چکا ہے۔ یہ بچنے کا آخری حربہ ہے۔ اگر آپ نے اسے بھی نصب کر لیا تو پہنچ دور تک ہو جاتی ہے۔
اس وقت مسٹر بوئن نے اعتراف کیا تھا کہ لیزر ٹیکنالوجی ابھی پوری طرح سے ترقی نہیں کر پائی ہے اور اس میں بعض مشکلات کا سامنا ہے۔ لیکن یہ مشکلات دور کی جا سکتی ہیں۔ان کا کہنا تھاکہ ہر مادّے کی اپنی ریفلیکشنز ہیں،لیکن آپ طاقت سے اس پر قابو پا سکتے ہیں۔ ایک بار آپ اس کے کلو واٹ اور تھریش ہولڈ پر قابو پالیں تو پھر لیزروہی کرے گی جس کے لیے وہ ڈیزائن کی گئی ہے۔
اس وقت لیزر شعاع کی مدد سے بغیر پائلٹ کے جہاز کو مار گرایا گیاتھا،لیکن کمپنی نے اس کی رفتار، اونچائی اور رینج کے متعلق کچھ نہیں بتایاتھا۔ ریتھیون کا کہنا تھاکہ اس کا ڈیٹا کافی حساس ہے۔دوسری جانب مسٹر فیلسٹیڈ کا کہنا تھا کہ لیزر ٹیکنالوجی کو صرف جہاز گرانے کے لیے ہی نہیں بلکہ کئی دیگر اشیا میں بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ افغانستان میں ایئربیس، بغداد میں گرین زون اور غزہ کی سرحد پر اسرائیل کی جانب سے اس طرح کی ٹیکنالوجی بہ خوبی استعمال کی جا سکتی ہے۔
پھر فروری 2011میں یہ خبر آئی تھی کہ دنیا کی پہلی’’اینٹی لیزر مشین‘‘ تیارکرلی گئی ہے۔اس وقت بتایا گیا تھا کہ امریکا کی یئیل یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے سائنس دانوں کی تیارکردہ یہ مشین لیزر شعاع کو مکمل طور پر جذب کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے اوراس اینٹی لیزرکو آپٹیکل کمپیوٹنگ میں استعمال کیا جا سکتا ہے۔ان دنوں محققین کا خیال تھا کہ یہ طاقت ور لیزر ہتھیاروں کا توڑ کرنے کے لیے تیار نہیں کی گئی ہےبلکہ ان کے خیال میں اسے مستقبل کے ایسے سپر کمپیوٹرز میں استعمال کیا جا سکے گا جن کے اجزائے ترکیبی الیکٹرونز کی جگہ روشنی کا استعمال کریں گے۔
لیکن لیزرکوعسکری مقاصد کے لیے استعمال کرنے کے لیے تجربات جاری رہے اور جنوری 2013میں یہ خبر سامنے آئی کہ جرمنی نے ڈرون کومارگرانے والی لیزر ٹیکنالوجی کا تجربہ کیا ہے۔ خبرمیں کہا گیا تھا کہ جرمنی کی ایک کمپنی نے لیزر ہتھیاروں کا ایسا نظام ایجادکیا ہے جس کی مدد سے ایک میل سے زاید فاصلے سے دو ڈرون طیاروں کو نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔
اس نظام کو مختلف موسموں میں آزمایا گیا ہے اور جرمنی کی رائن میٹل ڈیفنس کمپنی نے اس لیزر ہتھیار کا مظاہرہ بھی کیا ہے۔مذکورہ کمپنی نے زیادہ توانائی کے حامل لیزر آلات کا استعمال کیاتھا جن کی مدد سے تیزی سے حرکت کرتے ہوئے ڈرون طیاروں کو نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔اس لیزر سسٹم میں دو ہتھیار ہوتے ہیں جن کی مدد سے ایک کلومیٹر کےفاصلے سے فولاد کے گارڈرکوبھی کاٹا جا سکتا ہے۔
خبر میں کہا گیا تھا کہ کمپنی کا منصوبہ ہے کہ اس نظام کو موبائل یعنی آسانی سے ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جانے کے قابل بنایا جائے اور اس میں خود کار توپیں موجود ہوں۔کمپنی کا کہنا تھاکہ پچاس کلو واٹ توانائی کے حامل اس سسٹم میں ریڈار اور آپٹیکل نظاموں کے تحت تیزی سے آنے والے ڈرونز کی نشان دہی کی جاسکتی اور ان پر نظر رکھی جا سکتی ہے۔
کمپنی کے مطابق پچاس میٹر فی سکینڈ کی رفتار سے پرواز کرنے والے ڈرون جب فائرنگ کے لیے مخصوص علاقے میں پہنچے تو ان کو مار گرایا گیا۔اس لیزر سسٹم میں پندرہ ملی میٹر موٹے فولاد کے گارڈر کو کاٹنے کی صلاحیت بھی موجود ہے۔کمپنی نے اس نظام کی برف، بارش سمیت مختلف موسمی حالات میں آزمائش کی ہے۔
دشمن کی تنصیبات کا سراغ لگانا اور انہیں تباہ کرنا فوجی نظام کا اولین کام سمجھا جاتا ہے۔ اس لحاظ سے لیزر ٹیکنالوجی اپنی خصوصیات کی بہ دولت دفاعی آلات میں زیادہ سے زیادہ اہمیت حاصل کرتی جا رہی ہے۔لیزرکو بہ طور رڈار اور دشمن کی تنصیبات کا کھوج لگانےاور فاصلہ معلوم کرنے کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے،بالکل اسی اصول پرجن پر رڈاربنائے جاتے ہیں۔ ان میں فرق صرف اتنا ہے کہ رڈار میں برقناطیسی لہریں استعمال کی جاتی ہیں جو راستے میں موسمی تغیرات کی وجہ سے بہت صحیح اور عمیق پیمائش دینے سے قاصر رہتی ہیں۔ اس کے مقابلے میں لیزر اپنی خصوصیات کی بنا پربر قناطیسی لہروں کی نسبت کہیں زیادہ تسلی بخش کام کرتی ہے۔
آج یہ حقیقت کھل کر سامنے آچکی ہے کہ مختلف ممالک اور دفاعی سازو سامان تیار کرنے والے ادارے لیزر ٹیکنالوجی کے حامل ہتھیار بنانے پر کام کر رہے ہیں۔
جدید دنیا کی انقلابی دریافتوں میں شمار کی جانے والی دریافت ’’لیزر‘‘کی سولہ مئی 2010 کو پچاسویں سال گرہ منائی گئی تھی ۔ لیزر روشنی کی تیز اور طاقت ور شعائیں پیدا کرتی ہے۔ یہ آج کے زمانے میں ڈی وی ڈی پلیئرز سے لے کر پے چیدہ طبی آلات اور سپر مارکیٹ کے اسکینرز سے لےکر انٹرنیٹ کا نظام سنبھالنے والے فائبر آپٹک کیبلز تک میں استعمال ہوتی ہے۔
امریکی سائنس دان تھیوڈور نے انیس سو ساٹھ میں پہلی بار لیزر کے استعمال کا مظاہرہ ایک ایسی مشین کی مدد سے کیا تھا جس کے وسط میں یاقوت کا بنا ہوا ایک چھوٹا سا سرخ راڈ لگا ہوا تھا۔ماہرین کا کہنا ہےکہ لیزر ایک تابب ناک مستقبل کی حامل ایجاد ہے اور وہ مستقبل میں لیزر کو خلیات اور پروٹین کی توڑ پھوڑ اور نیوکلئیر فیوژن کے لیے استعمال کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
آج جہاں دفتر میںکرسی پر بیٹھا ٹائپسٹ اپنے ٹائپ کیے ہوئے غلط الفاظ کو ربر کے بجائے محض ایک بٹن دباکر لیزر شعاع سے مٹا دیتا ہے وہاں دیو ہیکل ہوائی جہاز بنانے والا ماہر اس کے پرزوں کو رتّی برابر صحیح جگہ پر لگانے اور بڑی بڑی دھاتوں کو کاٹنے کا کام بھی لیزر ہی کی مدد سے لے رہا ہے۔ جہاں ڈاکٹر آنکھ کے پردوں کے اندر نقصان شدہ اور معلق پردوں کو سینے پر ونے کا کام لیزر شعاعوں سے لیتا ہے، وہاں ماہر انجینئر بڑے بڑے رڈار اور ٹیلی فون کے لامحدود چینل سے سیاروں تک کی پیغام رسانی کا کام بھی اسی سے لیتا ہے۔
جہاں دند ان ساز دانتوں کے چھوٹے چھوٹےناکارہ ریزوںکوتن درست دانتوں سے جدا کرنے کے لیے لیزر کا سہارا لیتا ہے، وہاں کپڑوں کی لاتعداد تہوں کو کاٹ کر سوٹ بنانے کا کام بھی بڑے اداروں میں لیزر ہی لیا جاتا ہے۔لیکن کیا لیزرکی منتہا یہی کچھ ہے یا ابھی اسے اور پروان چڑھنا ہے؟ اس سوال کا جواب ماہرین یہ دیتے ہیں کہ ابھی تولیزر کی ابتداہے۔
ماہرین کو امید ہے کہ وہ لیزر کی مدد سے ایٹم کے اندر ہلچل مچاکر اور ایٹم کو توڑکر اس کی پنہائیوں میں بھی جھانک سکیں گے۔ جو اب تک سائنس دانوں کی پہنچ سے دور ہیں اور جب انسان ایٹم کے اندر صرف محدود حد تک ہی جھانک کر اس قدر دانا اور طاقت ور بن گیا ہے تو مزید ایٹم کے اندر جانے سے خدا جانے اورکیا کیا مزید نئی راہیں دریافت ہوں گی۔
اکیسویں صدی کے سائنس دانوں کے سرپر پلازما بنانے کا جنون سوار ہے۔ اگر ایٹم کےچند ایک الیکٹرونز کو توانائی دے کر ایٹم سے علیحدہ کردیا جائے تو باقی ماندہ ایٹم ایسی عبوری حالت میں پایا جاتا ہے جسے پلازمہ کہتے ہیں۔یہ حالت کچھ ایسی ہوتی ہے کہ اس میں یہ ایٹم ایک دوسرے سے مل کر ایک انتہائی وسیع توانائی کا منبع بن سکتے ہیں۔ ہائیڈروجن بم اس کی ایک زندہ مثال ہے۔
فی الحال ایسی توانائی کا کوئی خاطر خواہ محرک ایجاد نہیں ہوسکا ہےجوایٹم سے اس کے الیکٹرونز کو جدا کرکے پلازما کو ہماری مرضی کے مطابق بناسکے۔ لیکن خیال ہے کہ لیزر کی توانائی کو مرکوزکرکے یا کیو سوئچنگ (Q-Switching)کی مدد سے اس قدر توانا بنایا جاسکے گا کہ وہ ایٹم کے چند الیکٹرونز کو ان سے جدا کرکے پلازما بنانے میں ہماری مدد کرسکے گا۔اس طرح سائنس دانوں کی سب سے کٹھن مشکل آسان ہوجائے گی۔
دوسری جانب یہ خبریں ہیں کہ سڑک کے کنارے نصب بم کی تلاش لیزر کی مدد سے ممکن ہوچکی ہے۔امریکی سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ انہوں نے ایسی لیزر ایجاد کی ہے جس کی مدد سے آتش گیر مادے کا پتا لگایا جا سکتا ہے۔ادہر چین سے خبر ہے کہ اس نے سائیلنٹ ہنٹر نامی اینٹی ڈرون لیزر ہتھیار تیار کر لیاہے جس کی مدد سے سے انسداد دہشت گردی کی کوششوں میں بڑی مدد مل سکتی ہے ۔اسی برس جنوری کے مہینے میں سامنے والی ایک اطلاع کے مطابق چین نے جدید لڑاکا طیاروں کو لیزر ہتھیاروں سے مسلح کرنے کی تیاری شروع کردی ہے جو ڈاگ فائٹ (لڑاکا طیاروں کی دُوبدو لڑائی) میں دشمن طیاروں کو پلک جھپکتے میں فضا میں ہی تباہ کر ڈالیں گے۔
امریکی جریدے ’’پاپولر مکینکس‘‘ کے مطابق اب امریکی کم طاقت والے لیزر ہتھیار اورلڑاکا طیاروں کو اس قابل بنائیں گے کہ وہ دشمن کے لڑاکا طیاروں کے علاوہ چھوٹے موٹے میزائلوں کو بھی دورانِ پرواز تباہ کرسکیں۔ البتہ اگر یہ لیزر ہتھیار زیادہ طاقت ور ہوئے تو یہ دشمن کی طرف سے داغے گئے بیلسٹک میزائل تک کو فضا ہی میں نشانہ بنا کر ان کے پرخچے اڑا دیں گے۔