• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کا شہر، حیدر آباد، تاریخی اہمیت کا حامل سندھ کا دوسرا بڑا شہر ہے، جو مختلف زمانوں کی یاد دلاتا ہے۔ ہمارا بچپن شہر کی ان ہی گلیوں میں گزرا،جہاں کی خوش گوار یادیں آج بھی دل و دماغ میں تازہ ہیں۔ موسم چاہے جتنا بھی گرم ہو،شام ہوتے ہی یہاں کی ٹھنڈی اور تازہ ہوا سے دن بھر کی تھکن دُور ہوجاتی تھی۔ حیدر آباد چھوڑے ہوئے پچاس برس سے زائد گزرگئے۔ ایک طویل عرصے سے دیارِغیر میں مقیم ہیں۔ اس بار جب اپنے آبائی شہر گئے، تو میرتالپوروں کے قدیم مزاروں پر بھی جانے کا اتفاق ہوا، جہاں اکثر بچپن میں جانے کا اتفاق ہوتا تھا۔

سندھ کنٹونمنٹ کی طرف سے ہیرآباد کے لیے پہاڑی چڑھنے کے بعد ایک میدان آتا ہے، جہاں میران تالپور کے اَن مول مقبرے تھے، جنہیں قُبّے کہتے ہیں۔ قبّہ سندھی زبان کا لفظ ہے، جس کے معنیٰ مزار یا مقبرے کے ہیں۔ان مقبروں کی اندرونی دیواریں مینا کاری اور خطّاطی کا اعلیٰ نمونہ پیش کرتی ہیں،جو جابجا قرآنی آیات اور دعائوں سے مزیّن ہیں۔ہمارے بچپن میں بھی ان مقبروں کی حالت نہایت خستہ تھی۔ گرمیوں کی چلچلاتی دھوپ میں ان میں کتّے سوتے تھے یا پھر شام کو منشیات کے عادی اپنا ٹھکانہ بنایا کرتے تھے۔ گرمیوں میں لُو کے جھکڑ کے ساتھ اُڑنے والی مٹّی نے ان عمارتوں کے اوپر مٹیالے رنگ کی تہہ چڑھادی تھی۔ یہ مقبرے پورے سندھ میں بکھرے ہوئے ہیں اور ان کے مکینوں کی اپنی تاریخ ہے۔ اٹھارہویں صدی میں 1701ء سے 1783ء تک سندھ میں کلہوڑوں کی حکومت قائم تھی۔ ان میں سب سے مشہور حکمران میاں غلام شاہ کلہوڑو تھے، جنہوں نے 1763ء میں حیدرآباد سندھ تعمیر کرکے اپنا دارالخلافہ وہاں منتقل کیا اور حیدر آباد کو مہران کا دل کہا۔ 

کلہوڑوں سے ہمیشہ ان بلوچ قبائل کا جھگڑا رہتا تھا، جوسندھ میں صدیوں سے آباد تھے۔ ان میں سے ایک قبیلہ تالپوروں کا تھا، جو ڈیرہ غازی خان میں آباد تھا، مگر وہ ان جھگڑوں میں نہیں پڑتے تھے۔کہتے ہیں کہ اُس دور میں کلہوڑوں نے تالپوروں کو دعوت دی کہ اگر وہ جنوبی سندھ آکر آباد ہوجائیں، تو انہیں خصوصی مراعات دی جائیں گی، بشرطیہ کہ وہ سندھ میں بسنے والے بلوچ قبائل کو قابو میں رکھیں۔ چناں چہ تالپور جنوبی سندھ آکر بس گئے اور سندھی بودوباش اپنالی۔ تاہم، ان کی جذباتی وابستگی بلوچوں کے ساتھ ہی رہی۔ کلہوڑوں کا آخری حکمران عبداللہ نبی کلہوڑو تھا۔ 1779ء میں بلوچ قبائل نے بغاوت کےبعد کلہوڑوں کو نکال باہر کیا ،جس کے بعد میر فتح علی خان تالپور کی حکومت قائم ہوئی۔ 

عبداللہ نبی کلہوڑو بھاگ کر قندھار پہنچ گیا۔ بعدازاں، وہاں کے امیر کی مدد سے 1782ء میں سندھ پر حملہ کیا، مگر تالپوروں نے دوبارہ شکست دے کر اُسے بھگادیا۔ تالپور دراصل بلوچی پٹھان تھے اور میر کے لقب سے بلائے جاتے تھے۔ اُن کا دَور، تعلیم وثقافت کا ایک زرّیں دور تھا، جس کی یہ مقبرے آج بھی یاد دلاتے ہیں۔ تالپوروں نے 1843ء تک سندھ پر حکومت کی۔ ہندوستان پر برطانوی غلبے کے بعد انگریزوں کو افغانستان پر چڑھائی کی کوشش میں جب منہ کی کھانی پڑی، تو چارلس نیپیئر نے جھلاہٹ میں سندھ پر قبضہ کرلیا، جس کے بعدمیر تالپور حکومت کاخاتمہ ہوگیا۔

اس بار جب ہم 55 سال بعدمیران تالپور کے قُبّوں کی زیارت کو گئے، تو یہ دیکھ کر بڑی مایوسی ہوئی کہ ُاس میدان کا کوئی وجود ہی نہیں رہا، جہاں وہ مقبرے تھے۔ تجاوزات نے مقبروں کو چاروں طرف سے گھیرلیا ہے۔ ہمارے ساتھ اسکول کے زمانے کے دو دوست بھی تھے۔ ہم تینوں اس علاقے کی تنگ گلیوں میں گھومتے رہے، جہاں کسی زمانے میں میدان ہوتا تھا۔ بیش تر لوگوں کو ان قبوں کا کوئی علم نہیں تھا۔ آخر ایک صاحب نے راستہ بتایا اور ہم گلی دَر گلی ہوتے آگے بڑھے، توسامنےایک اونچی سی دیوار آگئی،اُس کے پیچھے سے وہ مقبرے نظر آرہے تھے۔

دیوار کے ساتھ ساتھ چلتے مرکزی دروازے تک پہنچے، تو یہ دیکھ کر خوش گوار حیرت ہوئی کہ کچھ لوگ ان مقبروں کی مرمّت کررہے ہیں۔ قریب ہی ایک صاحب میز، کرسی لگائے بیٹھے تھے۔ ہم قریب پہنچے اور سلام دعا کے بعد قُبّے کی زیارت کا بتایا، تو انہوں نے خوش دلی سے پُرتپاک خیر مقدم کیا۔ ان صاحب کا نام عبدالحق بھنبھرو تھا اور وہ سندھ میوزیم کے مہتمم تھے، انہوں نے بتایا کہ ’’بھائیو! اب تو یہاں شاذ و نادر ہی لوگ آتے ہیں، اور حال ہی میں ان خستہ حال قُبّوں کو اصل حالت میں بحال کرنے کے لیے مجھے پراجیکٹ منیجر مقرر کیا گیا ہے۔‘‘

بھنبرو صاحب ماہرِ آثار قدیمہ ہیں۔ انہوں نے اپنے والد کی لکھی ہوئی ایک ضخیم کتاب’’Indus Script‘‘ بھی تحفتاً پیش کی۔ ان کے والد عطا محمد بھنبرو سندھ کے مشہور ماہرِ بشریات و آثار قدیمہ ہیں۔ اس کتاب کا موضوع ’’موہن جو دڑو کا رسم الخط‘‘ ہے۔عبدالحق صاحب نے مزید بتایا کہ ’’ان مقبروں کو محفوظ کرنے کے لیے ان کےگرد ایک اونچی دیوار حال ہی میں بنائی گئی ہے، کیوں کہ جس تیزی سے یہاں تجاوزات بڑھتی چلی جارہی ہے، اس سے لگتا ہے کہ لوگ اب ان مقبروں کے اندر بھی رہنا شروع کردیں گے۔ حکومت کی ذمّے داری ہے کہ وہ یہاں رہنے والے لوگوں کو متبادل رہایش فراہم کرے، کیوں کہ میروں کے قبّے، تاریخی اہمیت کی حامل عمارتیں ہیں اور ان کے اردگرد کی زمین کو اس کی اصلی حالت میں لانا بہت ضروری ہے۔

مزارات کا رنگ، ان کی ساخت، اور باقی سب کچھ فنِ تعمیرکا ایک نادر نمونہ ہے۔ دیواروں اور قبروں پر قرآنی آیات کی خطاطی بہت ہی دل کش ہے۔ مزاروں کی تراش خراش اور وہاں بنائے گئے نقش و نگار دیکھ کر نظریں جمی کی جمی رہ جاتی ہیں۔ امید ہے کہ جب اگلی بار حیدرآباد آنا ہوگا، تو وہ میدان جوں کا توں ہوگا۔

تازہ ترین