• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ارے امی !عید آنے میں اتنے کم دن رہ گئے ہیں،لیکن اب تک میں نے جیولری لی ہے اورنہ ہی میچنگ کی چوڑیاں ۔مجھے اس کے علاوہ بھی بہت سی چیزیں لینی ہیں۔ ہم مارکیٹ کب چلیں گے؟ ایک دن فیشل ،مینی کیور اور پیڈی کیور کرانے کے لیے پارلر بھی جانا ہے ۔ اتنے سارے کام باقی ہیں عید کی تیاری کے لیے اور وقت اتنا ہی کم ہے۔ چاند رات کو مہندی لگوانے بھی جانا ہے ۔یہ باتیں عید آنے سےقبل ہرگھر میں ہورہی ہوتی ہیں ۔بہت سے افراد ،خصوصا خواتین کے لیے عید کی اصل رونق ان ہی چیزوں سے ہوتی ہےکہ ہر روز بازار جائیں،میچنگ کی اشیا خریدیں، پھر کچھ نہ کچھ بھول جائیں اور اگلے روز پھر بازار کا چکر لگائیں ۔کبھی گھر کی تزئین و آرائش کے لیے اشیاء خریدیں تو کبھی بچوں اور بڑوں کے لیے کچھ لے کر گھر لوٹیں ۔بہت سے گھرانوں میںرمضان کے آخری دنوں میں ہر طرف ایک عجیب افراتفری ہوتی ہے ۔اور کیوں نہ ہو، عید نام ہی خوشیاں منانے کا ہے ۔

اس دن کے لیے بعض خواتین زرق برق ملبوسات کی تیاری رمضان کی آمدسےقبل ہی شروع کردیتی ہیں۔وہ عیدکی تیاریوں میںسب سے آگے ہوتی ہیں اوراس ضمن میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑتیں۔عید کے تینوں دن رشتےداروں اور عزیز واقارب کے گھر جانا ،ایک دوسرے سے بغل گیر ہونا، بزرگوں کا ،بڑوں اوربچوں کو عیدی دینا ،طرح طرح کے پکوان،خصوصا شیرینی سے لوگوں کی خاطر تواضح کرنا ۔یہ سب ہمارے معاشرے میں عید کے دنوں کی خاص روایات ہیں ۔لیکن اس برس بدقسمتی سے عید ایسے دنوں میں آرہی ہےجب پوری دنیامیں کورونا وائرس کی وبا پھیلی ہوئی ہے۔اس مرتبہ عید کی وہ رونقیں ہیں اور نہ ہی عید آنے کی روایتی خوشی ہے۔سب گھروں میں قید ہیں ۔ 

اس عید پردعوتوں کا سلسلہ ہوگا اور نہ ہی آپس میں بغل گیر ہو سکیں گے، کیوں کہ وائرس کی وجہ سے سماجی دوری قائم رکھنی ہے ۔عید کی خوشیاں وائرس کی وجہ سے ماند پڑ گئ ہیں۔بعض گھروں میں عید کے دنوں کی مخصوص خاندانی روایات ہوتی ہے۔اس مرتبہ تو وہ روایتیں بھی پوری کرنا مشکل لگ رہا ہے ۔کسی نے سوچا بھی نہیںہوگا کہ کوئی عید ایسی بھی آئے گی ،جس میں ہم جوش وجذبے کے ساتھ تہوار کی تیاریاں کرسکیں گے،نہ روایتی انداز میں اس کی خوشیاں منا سکیں گے اور نہ کسی سے بغل گیر ہوسکیں گے ۔

کورونا کی وبا کی وجہ سے بازار اور دکانیں کھولنے پر پابندیاں ہونے کی وجہ سے آن لائن ملبوسا ت اور دیگر اشیاء کی خرید و فروخت کا سلسلہ تو چل رہا ہے،لیکن خواتین کے لیے عید کے ملبوسات اور دیگر اشیا آن لائن خریدنے کا تجربہ کیسا ہے اور اس سال ان کا کورونا وائرس کی وجہ سے احتیاط کے ساتھ عیدکس طرح منانے کا ارادہ ہے؟اس حوالے سے ہم نے چند خواتین سے بات چیت کی۔آئیے، دیکھتے ہیں اس ضمن میں ان کا کیا کہنا ہے ۔

شرمیلا فاروقی، وزیراعلیٰ سند ھ کی سابق مشیر کا اس سال عید منانے کے حوالے سے کہنا ہے کہ عام طورپر توعید گھروالوں ،رشتے داروں اور دوست احباب کے ساتھ منائی جاتی ہے، لیکن اس سال چوں کہ پوری دنیا میں کورونا وائرس کی وبا پھیلی ہوئی ہے اس لیے عید روایتی طور پر منانے کا کوئی ارادہ نہیں ہے اور نہ ہی عید کے لیے کوئی خاص اہتمام کیا ہے ۔عید کے ملبوسات کی تیاری کے بارے میں ان کا کہنا تھاکہ عید کا جو ایک خاص جوڑا بنوایا جاتا ہے، اس سال میں نے نہیں بنوایا ہےاورارادہ کیا ہے کہ اپنا کوئی بھی پرانا جوڑا پہن لوں گی۔

میں ہر سال عید پر منہدی لازماً لگواتی ہوں، لیکن اس سال حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے ایسا نہ کرنےکا فیصلہ کیا ہے۔اگرچہ آن لائن شاپنگ کا سلسلہ چل رہا ہے اور یقیناًبہت سی خواتین نے آن لائن شاپنگ کی بھی ہوگی ۔لیکن میں نے آن لائن بھی کچھ نہیں منگوایا ،کیوں کہ کووڈ19 کی وجہ سے حالات بہت زیادہ خراب ہیں۔چہار سو ایک عجیب سا سماء ہے ۔عید کی روایت کے بارے میںشر میلا نے بتا یا کہ شادی کے بعد سے عید کا پہلا دن لاہور میں گزارتی ہوں،کیوں کہ میرا سسرا ل لاہورمیں ہے۔ لیکن اس سال عید کراچی میں اور سادگی سے منانےکا ارادہ ہے۔ایک تو لاک ڈائون ہے،دوسرا یہ کہ سماجی دوری کا بھی خیال رکھنا ہے۔دعوتوں کا جو سلسلہ ہوتا ہےکہ پوراخاندان ایک جگہ جمع ہوتا ہے،وہ بھی اس مرتبہ نہیں ہوسکتا۔

ہمیں کوشش بھی یہی کرنی چاہیے کہ عید کے دنوں میںبھی احتیاط کریں اور جہاں تک ممکن ہو سکے گھروں میں رہیں ۔غیر ضروری کاموں کےلیےگھر سے باہر نہیں جائیں ۔بہت سے افراد اس وائرس کی وجہ سے زندگی کی بازی ہارچکے ہیں ۔ہمارے اردگرد بہت سے ایسے خاندان موجود ہیں جو رواں سال عید نہیں مناسکتے۔بہت سے افراد بےروزگار ہوگئے ہیں ۔بہت سوں کے پاس کھانے کو نہیں ہے ۔اس لیے ہم سب کو چاہیے کہ حالات کا خیال رکھتے ہوئے سادگی سے عید منائیں ۔یہ ایک موقع ملا ہے اپنے گھروالوں کے ساتھ وقت گزارنے کا جوعام حالات میں ہمیں نہیں ملتا ۔اس لیے ہمیں چاہیے کہ اس وقت کوگھروالوں کے ساتھ اچھی طرح گزار یں ۔

نیلم یوسف ،جیو کی نیوز کاسٹر ہیں ۔ موجودہ حالات میں عید منانے کے بارے میں اظہار خیال کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے کوئی خاص تیاری تو نہیں کی ہے ۔ بازار بند ہیں۔اس لیے تھوڑی بہت آن لائن شاپنگ کی ہے ۔عید کی جو خاص روایتیں ہوتی ہیں کہ ایک دوسرے کے گھر عید کی دعوت کا اہتمام ہوتاہے ،عید ی دی جاتی ہے ،ایک دوسرے سے بغل گیر ہوتے ہیں۔ اس مرتبہ یہ سب روایتیں نبھانامشکل ہے ،کیوں کہ لوگ وائرس کے ڈر سے گھروں میں رہنے کو ترجیح دے رہے ہیں۔ میری فیملی لاہور میں رہتی ہے،لہٰذا میں عید منانے لاہور جاتی ہوں۔ لیکن اس مرتبہ فلائٹس بند ہیں تو عید کراچی میں ہی مناؤں گی ۔

عید سے پہلے عیدی بھیجوانے کی جو ایک خاص روایت ہوتی ہے، وہ اس سال پوری نہیں ہوسکی ہے ۔اور دوسری سب سے خاص چیز یہ کہ عیدکی نماز پورا خاندان مل کر پڑھتا ہے،لیکن اس سال یہ فریضہ بھی ایک ساتھ ادا نہیں کرسکیں گے ۔ارادہ ہےکہ کراچی میں جو دوست احباب ہیں، ان کے ساتھ مل کر سادگی سے عید منائوں ۔یہ افسوس کی بات تو ہےکہ عید ایک ایسے وقت میں آرہی ہے جب آپ کھل کر اور پورے اہتمام کے ساتھ عید کی خوشیاں نہیں منا سکتے یا ان روایت کو پورا نہیں کرسکتے ۔لیکن ہمیں اس کے ساتھ یہ بھی سوچنا چاہیےکہ زندگی میں صحت سب سے زیادہ اہمیت کی حامل ہے۔

اسی بات کو مد نظر رکھتے ہوئے ہم اس سال عید سادگی سے منالیں۔گھر میں رہ کر اچھے اچھے کھانے بنائیں اور کھائیں۔ گھروالوں کے ساتھ وقت گزاریں ۔اس طرح عید منانے سے ہمیں ان لوگوں کا بھی احسا س ہوگا ،جو ہر سال مالی پریشانی یا کسی اور وجہ سے عید سادگی سے مناتے ہیں۔میرا لوگوں کو یہ پیغام ہے کہ اس سال عید پر کم سے کم باہر نکلیںاور گھرہی میں رہ کر عید کی خوشیاں منائیں۔جہاں تک ممکن ہوسکے اپنا اور اپنے پیاروں کا خیال رکھیں۔

انیس ہارون،خواتین کے حقوق کے تحفظ کے لیے کام کرنے والی سرگرم خاتون کے طورپر معروف ہیں۔ان کا اس ضمن میںکہناہے کہ رواں سال عید کا جوایک خا ص اور روایتی تصور ہے وہ تو پورا نہیں ہوسکےگا،کیوں کہ کورونا وائرس کی وجہ سے حالات بہتر نہیں ہیں۔ ہزاروں لوگ اس وبائی بیماری کی زد میں آچکے ہیں۔بہت سے افراد بے روز گار ہوگئے ہیں ۔ان حالات کے سبب میں نے ارادہ کیا ہے کہ عید کا کوئی اہتمام نہیں کروں گی اور نہ کسی کے گھر جائوں گی ۔بہتر یہ ہی ہے کہ احتیاط کی جائے۔اگر کوئی مہمان گھرآتا ہے تو ہاتھ ملانے اور گلے ملنے سے گریز کریں ۔ سماجی دوری اختیار کریں ۔بلا وجہ گھر سے باہر نہ نکلیں ۔ 

میرےگھر کی روایت ہےکہ عید کے دوسرے دن میں پورے خاندان کو کھانے پر بلاتی ہوں۔ مگر اس سال میں یہ روایت قائم نہیں رکھ سکوں گی ۔میں نے عید کے لیے کوئی خاص کپڑوں کی خریداری بھی نہیں کی ہے۔اگرچہ آن لائن خریداری کا سلسلہ چل رہا ہے،لیکن میں نے آن لائن بھی کچھ نہیں منگوایا ۔اگر ایک سال عید پر نئےکپڑے نہیں بنائے جائیں اوردعوتیں نہیں کی جائیں تو یہ اتنا بڑا مسئلہ نہیں ہے۔اس سے زیادہ اہم مسئلہ یہ ہے کہ ان لوگوں کی مدد کی جائے جن کی اس لاک ڈائون کی وجہ سے آمدنی ختم ہوگئی ہے ۔ کیوں نہ ہم اپنے عید کے جوڑے کے پیسے مستحق لوگوں کو دے دیں،تاکہ عیدکے دن وہ بھی تھوڑا بہت اہتمام کرلیں۔ اس طر ح عید منا کر ہم ان لوگوں کا درد محسوس کرسکتے ہیں جو ہر سال خوشی کے اس تہوارپرکوئی خاص اہتمام نہیں کرپاتے ۔

جسٹس (ر)ناصرہ اقبال نے اس ضمن میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ضروری نہیں ہے کہ ہر سال عید زور وشور اور بھر پور اہتمام اور روایتوں کے ساتھ منائی جائے۔اگر اس مرتبہ پوری دنیا میں ایک وبا پھیلی ہوئی ہےتوگھر میں رہ کر اپنے عزیز واقارب کے ساتھ عید منالیں۔گھر میں عید کے روایتی کھانے بنا کر اہتمام کرلیں اور جن سے ہر سال عیدپر ملنے جاتے ہیںانہیں فون کرکے عید کی مبار ک باد دے دیں ۔اور آپ کے اردگردجو مستحق لوگ ہیں ،ان کی مدد کردیں ۔تاکہ وہ عید کی خوشیوں میں شامل ہوسکیں ۔ اس عید پر ان لوگوں کا احسا س کریں جن کی عید منانے کی حیثیت نہیں ہے ۔

اسماء نبیل ،ڈراما نگارنے اس سال عید منانے کے حوالے سے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ عید رمضان کے بعد روزہ داروں کے لیے اللہ کی طرف سے ایک تحفہ ہوتا ہےاور ہمیں اسے اچھی طرح منانا بھی چاہیے،لیکن چوں کہ اس سال پوری دنیا میں ایک وبا پھیلی ہوئی ہے لہٰذا اس مرتبہ احتیاط کے ساتھ عید منانے کا سوچا ہے۔ صرف قریبی عزیز واقارب کو عید کا سلام کرنے جائوں گی،ورنہ عموماًدوست ،احباب اور دیگر رشتے داروں کے گھر بھی آنا جانا ہوتا ہے ۔

لیکن اس برس یہ سلسلہ نہیں ہوگا۔میرے گھر کی عیدکے ضمن میں خاص روایت یہ ہے کہ پہلے دن رات کا کھانا میرے گھر پر ہوتا ہے،جس کا میں بہت خاص اہتمام کرتی ہوں۔یہ سلسلہ کئی سالوں سے چل رہاہے،لیکن اس دفعہ کورونا وائرس کی وجہ سے حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے دعوت کا اہتمام نہ کرنے کا سوچا ہے ۔عید کے ملبوسات کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ عید کے لیے کوئی خاص جوڑا نہیں بنوایا ہے۔ارادہ ہے کہ پہلے سے جو رکھے ہوئے ہیں ان ہی میں سے کوئی پہن لوں گی ۔

میرے خیال میں اس برس عید کے ملبوسات پر پیسہ خرچ کرنے سے زیادہ بہتر یہ ہے کہ وہ پیسہ کسی مستحق کو دے دیں ،تا کہ وہ عید کا تھوڑا بہت اہتمام کرسکے ۔ میرا لوگوں کو یہ پیغام ہے کہ عید کی خوشیاں ضرور منائیں،لیکن اپنی خوشی میں ان لوگوں کو یاد رکھیں جو اس لاک ڈائون کی وجہ سے مسائل میں گھرے ہوئے ہیں۔ ان کا خیال کرکے ہم عید کی خوشیوں میں اضافہ کرسکتے ہیں ۔

اقراعزیز،اداکارہ کا موجودہ حالات میں عید منانے کے بارے میں کہنا ہے کہ اس دفعہ گھر میں رہ کرصرف فیملی کے ساتھ ہی عید منانے کا ارادہ ہے۔سماجی دوری کاخیال کرتے ہوئے دوست ،احباب کے ہاں نہ جانے کا سوچاہے ۔بزرگوں اور بڑوں کو عید کی مبارک باد دینے کے لیے فون یا ویڈیو کال کرلوں گی ۔شادی کے بعد یہ میری پہلی عید ہے تو یہ عید میرے لیے تھوڑی خاص اہمیت کی حامل ہے۔

عید کے جوڑے کے لیے میں نے خاص منصوبہ بندی کی تھی کہ اپنا جوڑا خود ڈیزائن کروں گی ،ایمبرائڈری کراؤں گی، لیکن کورونا وائرس کی وجہ سےساری منصوبہ بندی فیل ہوگئی۔اب یہ سوچا ہےکہ موجود ملبوسات میں سے ہی کچھ پہن لوں گی۔میرے خاندان کی عید کے حوالے سے ایک خاص روایت یہ ہے کہ عید کی نماز کے بعد خاندان کے لوگ ایک جگہ اکٹھے ہوتے ہیں ،سویاں بنتی ہے، عیدی دی جاتی ہے،لیکن اس دفعہ یہ روایت پوری ہونا مشکل ہے ۔میری نظر میں عید کے موقعے پر ایک دوسرے کو عیدی دینا سب سے خوب صورت روایت ہوتی ہے۔اگر اس سال عیدی نہیں ملی تو میں اسے سب سے زیادہ یاد کروں گی۔ عید ی ملنے کا انتظار پورا سال بے صبری سے کرتی ہوں۔

دوسری چیز یہ کہ خاندان میں دعوتوں کا سلسلہ بھی نہیں ہوگا۔میرے خیال میں اس دفعہ عید پر گزشتہ عیدوں کے مقابلے میں ایک خاص فرق یہی ہوگاکہ زور وشورسےخاندان میں دعوتوں کا جو سلسلہ ہوتا ہے وہ بھی نہیں ہوگا ۔ اپنے گھر میں تو آپ اسی طر ح اہتمام کرسکتے ہیں ۔ اگر حالات کی وجہ سے ایک سال دعوتیں نہیں ہوتیں تو یہ اتنا بڑا مسئلہ نہیں ہے۔

زندگی میں سب سے زیادہ اہمیت کی حامل آپ کی صحت ہے۔اگر ہم اپنی صحت کا خیال نہیں رکھیں گے توکچھ نہیں کرسکتے۔لہٰذا اس عید پر اپنے ساتھ دوسروں کا بھی بہت خیال رکھیں اور گھر پر ہی عید منائیں ۔ساتھ میں ان لوگوں کا بھی خیال کریں جو ان حالات کی وجہ سے سادگی سے بھی عید نہیں مناسکتے ۔

ڈاکٹر سمیعہ راحیل قاضی ،سابق رکن قومی اسمبلی کا اس ضمن میں کہنا ہےکہ اس سال عید کی وہ روایتیں اور رونقیںنہیں ہیں جو عام طور پر ہوتی ہیں ۔ہر طرف عجیب سا سماء وائرس کی وجہ سے ایک دوسرے سے دوری اختیار کی ہوئی ہے۔اس لیے گھر میں تو دعوت کا اہتمام کرنے کا ارادہ نہیں ہے، ورنہ میں ہر سال گھر میں عید کے روایتی پکوان پکا کر اپنے گھر کے تمام ملازمین کی دعوت کرتی ہوں۔

لیکن اس دفعہ ایسا نہیں کرسکتی ۔لہٰذا یہ سوچا ہےکہ وہ پکوان ان کےگھر اور ہم سایوں میں بھجوادوں گی۔سب سے اہم فریضہ عید کی نماز سب مل کر ادا کرتے ہیں، لیکن اس سال یہ فریضہ مل کر ادا نہیں کرسکتے ۔عید کے ملبوسا ت کی تیار ی میں ہرسال بہت شوق سےکرتی ہوں،لیکن اس سال عید کے کپڑوں کی کوئی تیاری نہیں کی ہے ۔اب کے گھر میں رہ کربچوں اور امی کے ساتھ ہی عید منائوں گی۔

تازہ ترین