• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

محمد ضیاءاللہ

لسانیات کی اصطلاح میں زبان در اصل وہ ملفوظ آوازیں ہیں جو انسان اپنے منہ سے ادا کرتا ہے اور اپنے ما فی الضمیر کو ایک دوسرے تک پہنچا تا ہے ۔در اصل انسانی زندگی کا دارو مدار قطعی طور پر زبان پر منحصر ہے ۔ یہ ہما ری زندگی کا نہ صرف اثاثہ ہے بلکہ یہ زندگی میں نہایت اہم کام انجام دیتی ہے۔

زبان کا رشتہ کسی کلچر یا تہذیب سے وا بستہ ہو تا ہے ،علاقائی قومی یا عالمی سطح کی کوئی بھی زبان ہو اس کا ا روز مرہ استعمال،محاورہ اور ضرب المثل ہی اس کی انفرادی خصوصیت کو اجاگر کرتا ہے ۔ان کے برجستہ و بر محل استعمال سے جملے اور شعار دونوں کے حسن میں چار چاند لگ جا تے ہیں ۔روز مرہ ،محاورہ اور ضرب المثل زبان کا مرکزی نقطہ ہو تا ہے یعنی وہ دا ئرہ جو مختصر ہو نے کے با وجود اپنے گرد پھیلی ہو ئی ساری حقیقتوں کو اپنے اندر سمیٹ لیتا ہے ۔روز مرہ ۔محاورہ اور ضرب المثل ہمارے مشا ہدات و تجر بات کو پیش کرتے ہیں۔

غرض محاوروں اور ضرب الامثال میں ہمیں تہذیب و تمدن کے رجحانات، سماج کے عقیدے اور رسم و رواج کی تصویریں نظر آتی ہیں ۔محاورات ا و رضر ب الامثال اجتماعی زندگی کے بہترین مرقع ہوتے ہیں، ان میں معاشرے کی پوری ذہنیت اور شخصیت رچی بسی ہوتی ہے۔محاورے اور ضرب الامثال رنگین الفاظ کا مجموعہ نہیں ہوتے بلکہ یہ اجتماعی تجربے کا ذریعہ اظہار ہیں ۔روز مرہ ،محاورہ اور ضرب الامثال فرد کی انفرادیت ختم کر کے اس کو اجتماعیت کا احساس دلا تے ہیں یہ دیکھنے میں جز معلوم ہو تے ہیں لیکن اس جز میں کل پنہاں ہو تا ہے ، ارتقائے تمدن کی کہا نی پو شیدہ ہوتی ہے۔

یہ حقیقت ہے کہ اظہا ر خیال اور ادا ئے مطلب میں پیچید گی سے بچنے کے لیےمحاورہ اور ضرب المثل کا استعمال نا گزیر ہو تا ہے۔ یہ اردو ز بان و ادب کا ایک بیش بہا خزانہ ہیں، ان کی مدد سے انشا پر دازوں اور شاعروں نے ابلاغ کے کما لا ت اور زبان کے جا دو جگا ئے اور اپنے کلا م و گفتگو میں حسن و لطافت، دلکشی اور جاذبیت بخشی ۔

یہ مسلمہ اصول ہے کہ زبان پہلے بنتی ہے اور قاعدے بعد میں مرتب کیے جا تے ہیں، اس لیے زبان کا کچھ حصہ قواعد کی گرفت سے آزاد ہو تا ہےاورکچھ حصہ ایسا بھی ہو تا ہے، جس پر لغوی معنی کے بجا ئے مجازی معنی کا اطلاق ہو تا ہے ۔یہ وہ حصے ہیں جو زبان میں نقص پیدا کر نے کے بجا ئے اس کی خوبصورتی میں اضا فہ کر تے ہیں ۔اس حصے کا جو قا عدہ متعین کیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ اہل زبان نے انہیں جن معنوں میں استعمال کیا اور جس ترتیب سے استعمال کیا ہے ،اس کا استعمال اسی طرح کیا جا ئے ،اسی لیے زبان و ادب سے لطف اندوز ہو نے کے لیے روز مرہ ،محاوروں اور کہا وتوں سے واقفیت لازمی ہے۔

دیگر زبانوں کی طرح اردو زبان بھی روز مرہ، محاوروں اور کہا وتوں سے مالا مال ہے بلکہ کچھ لو گوں نے کثرت محاورہ کی وجہ سے اردو کو دوسری زبا نوں پر فو قیت دی ہے۔

محاورہ سماج کی گود میں پرورش پاتا ہے، اس لیے سماج کے تجربات و مشا ہدات کا اظہار محاورہ میں جا بجا نظر آتا ہے ۔اس کی تشکیل میں ہر فرد انجا نے میں حصہ لیتا ہے۔ کوئی واقعہ یا حادثہ سماج کو متأ ثر کرتا ہے اسی واقعہ پر فرد اظہارِ خیال کر تا ہے ۔ لیکن یہ اظہار با لواسطہ نہیں ہو تا بلکہ اس میں واقعہ کی طرف اشا رہ ہو تا ہے ۔اسی اظہار میں کو ئی ایسا فقرہ یا جملہ غیر ارا دتاً زبان سے ادا ہو جا تا ہے جومقبو ل ہوجاتا ہے۔

اردو ادب کا دامن نثر ہی نہیں بلکہ صنف نظم بھی رنگا رنگ محاوروں کی گلکا ریوں سے مزین ہے ۔زبان و ادب کی تفہیم کے لیے روز مرہ کی طرح محاورہ سے واقفیت بھی ضروری ہے ۔

الطاف حسین حالی ؔ ’’مقدمہ شعر و شاعری ‘‘میں محاورہ کے ذیل میں لکھتے ہیں ۔

”محاورہ لغت میں مطلقاً بات چیت کرنے کو کہتے ہیں، خواہ وہ بات چیت اہل زبان کے روز مرہ کے موا فق ہو، خواہ مخا لف لیکن اصطلاح میں خاص اہل زبان کے روز مرہ یا بول چال یا اسلوب بیان کا نا م ہے‘‘۔

سید قدرت نقوی نے ’’لسانی مقالات‘‘ میں محاورے کی ترتیب میں تبدیلی کو نا جا ئز قرار دیا ہے وہ لکھتے ہیں۔

”محاورہ کی ترتیب کو بد لا نہیں جا تا اگر بدل دیں تو وہ خلاف فصاحت اور ایک غلطی تسلیم کی جا ئے گی مثلاً: ہاتھوں کے طوطے اڑنا اس کی تر تیب کی تبدیلی اس شعر میں پا ئی جا تی ہے جو بے لطفی کا سبب بن گئی ہے۔بے ترتیبی کی مثال:

اس کا خط جب دیکھتے ہیں صیاد

طوطے ہاتھوں کے اڑا کرتے ہیں

کہا وتوں کو زبان کا سنگار بھی کہا گیا ہے ۔اس سے زبان کے قدرتی حسن میں اضافہ ہو تا ہے، خاص طور سے تخلیقی ادب میں کہا وتوں کا استعمال زینت اسلوب کا با عث ہوتا ہے ،جس طرح صنا ئع بدائع کے استعمال سے نظم و نثر کا حسن بڑھ جا تا ہے، اسی طرح کہا وتوں کے استعمال سے مختلف اصناف ادب کی خوبصورتی اور کشش میں اضا فہ ہو جا تا ہے۔یقیناروز مرہ ، محاورہ اور کہا وت ادب کے تمام اصناف سخن کی دلچسپی اور معنی خیزی کو وسعت و گہرا ئی عطا کر تی ہیں اور زبا ن و ادب میں ان کے استعمال سے مزید لطف پیدا ہو تا ہے زبان کے اسلوبیاتی مطا لعے کے سلسلے میں کہا وتیں بڑی اہمیت کی حامل ہیں۔

مشہور عربی مثل ہے ۔’’المثل فی الکلام کا الملح فی الطعام ‘‘یعنی کلام میں مثل اسی طرح ہے جس طرح کھانے میں نمک، حقیقت یہ ہے کہ زبا ن و ادب میں کہا وتوں کا استعمال نمکینی و شیرینی دونوں کو بڑھا تا ہے ،کیونکہ مثل خواہ سادہ ہی ہو،اسے روز مرہ میں جگہ ملی ہو ئی ہو لیکن حکمت اور تجربہ سے لبریز ہو نے کی وجہ سے دلوں پر زیا دہ اثر کر تی ہیں ۔ان کے بر محل استعمال سے بڑے بڑے کام انجام کو پہنچتے ہیں۔قطعی طور پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ جب تک کسی زبان میں روز مرہ۔ محاورے اور ضرب المثلیں نہ پا ئی جائیں وہ زبان کہلا نے کے مستحق نہیں۔

تازہ ترین