• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میں نے گزشتہ کالموں میں عرض کیا تھا کہ بھارت کی بربادی کیلئے وہاں کے وزیراعظم نریندر مودی اور ان کی حکومت ہی کافی ہے جو آر ایس ایس کے ہندوتوا ایجنڈے پر عمل پیرا ہے۔ بھارت کے اندر مسلمان شہریوں کے خلاف آر ایس ایس کے غنڈوں کو کھلی چھٹی دی گئی ہے۔ اس پر بھی بس نہیں کیا تو کمزور سمجھتے ہوئے پڑوسی ملک نیپال کے ایک علاقے پر ناجائز قبضہ کرنے کی کوشش کی گئی لیکن نیپالی فوج نے وہاں سے بھارتی فوجیوں کو بھگا دیا اور اپنا علاقہ واپس لے لیا۔ ادھر چین کے ساتھ چھیر خانی کی گئی، پہلے لداخ میں بھارتی قوانین نافذ کرنے کی کوشش کی پھر متنازع علاقہ میں تعمیرات شروع کر دی گئیں۔ جب چین نے ایسا کرنے سے منع کیا تو بھارت نے چین کو آنکھیں دکھائیں لیکن جب چین حرکت میں آیا تو مکار بھارت رام رام کرتے ہوئے منتیں کرنے لگا۔ 2017ء میں بھارتی فوج نے متنازع علاقہ میں گھسنے کی کوششیں شروع کی تھیں اور اب تازہ واقعات کا آغاز بھی بھارت کی طرف سے ہوا۔ 5مئی کو لداخ کے متنازع علاقہ میں چینی فوجیوں کے ساتھ بھارتی فوجیوں کی جھڑپ ہوئی، دونوں ممالک کے فوجی گتھم گتھا ہوئے چینی فوجیوں نے ڈنڈوں سے بھارتی فوجیوں کی پٹائی کی۔ پھر 9مئی کو سکم میں دونوں ممالک کے فوجیوں میں جھڑپ ہوئی لیکن ان جھڑپوں کے فوری بعد دونوں اطراف کے مقامی فوجی کمانڈرز کی میٹنگ ہوئی اور معاملہ بظاہر رفع دفع کیا گیا۔ اسکے چار دن بعد بھارت نے بغل میں چھری منہ میں رام رام محاورے کے مصداق یہ کیا کہ بھارتی آرمی چیف نے 14مئی کو لیہہ کا خفیہ دورہ کیا اور وہاں تعینات 14ویں کور کے مقامی کمانڈر سے خفیہ ملاقات کی۔ اس ملاقات میں بھارتی آرمی چیف نے ان کمانڈرز کو ہدایات کی کہ چین کے ساتھ محدود لڑائی کی جائے اور اس دوران متنازع علاقہ میں پیشقدمی کی جائے۔ بھارتی فوجی قیادت کا خیال تھا کہ چین اس وقت کورونا اور ملکی معیشت کو دوبارہ بحال کرنے میں مصروف ہے اور اس موقع سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔ چین کے ساتھ لداخ اور سکم میں تنازع بڑھانے کے پیچھے بھارت کے دو اہم مقاصد تھے، ایک تو یہ کہ بھارت نے گزشتہ سال مقبوضہ کشمیر کے ساتھ ساتھ لداخ کی بھی خصوصی حیثیت ختم کرنے کا قانون بنایا تھا جس پر چین کی طرف سے زبانی بیانات کے علاوہ کوئی ٹھوس اقدامات نہیں کئے گئے اور اس وقت بھی چونکہ چین کی توجہ اندرونی معاملات پر ہے اس لئے چین کی طرف سے حسب سابق کسی خاص ردعمل کا امکان نہیں تھا، اس طرح مقبوضہ کشمیر کے مسلمان بھی بھارتی دبائو میں آ جاتے۔ واضح رہے کہ انہی دنوں مودی حکومت نے بھارتی فوجی قیادت کو مقبوضہ وادی میں مزید سخت اقدامات کرنے کی بھی ہدایت کر دی تھی۔ بھارت کا پلان ہے کہ لائن آف کنٹرول پر حالات مزید خراب کیے جائیں تاکہ پاکستان کو یہاں الجھا کر گلگت بلتستان میں بھی امن وامان کی صورتحال کو خراب کیا جائے جس کا مقصد سی پیک کو سبوتاژ کرنا ہے۔

بہرکیف بھارتی آرمی چیف کے لیہہ میں14ویں کور کے مقامی کمانڈر سے خفیہ ملاقات اور منصوبے کا علم چین کو بروقت ہو گیا اور اس سے پہلے کہ بھارتی مقامی کمانڈرز کوئی شرارت کرتے چینی فوجی ان کے سر پر پہنچ گئے۔ چین کے پانچ ہزار فوجی لداخ کی وادی گولوان میں داخل ہو گئے اور دوسرے ہی دن متنازع علاقہ پیونگ وانگ کے جھیل سیکٹر پر مزید پانچ ہزار چینی فوجیوں نے قبضہ کر لیا۔ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق اب جنوبی لداخ کے ڈیم چوک اور شمالی سکم کے ناکولا نامی علاقہ میں بھی چینی فوجی داخل ہو چکے ہیں۔ واضح رہے کہ یہ تمام مذکورہ علاقے بھارت کے کنٹرول میں تھے اور چین نے ان تمام علاقوں سے بھارتی فوجیوں کو بھگا کر ان پر قبضہ کر لیا ہے۔ اس وقت مشرقی لداخ میں حالات انتہائی کشیدہ ہو گئے ہیں اور شہری گھروں میں محصور ہیں۔ دونوں ممالک کی فوجیں آمنے سامنے ہیں اور چینی صدر نے فوج کو باضابطہ ہدایت کی ہے کہ وہ حالات کو بدترین سمجھتے ہوئے جنگ کی تیاری کریں۔ اب بھارت کی حالت یہ ہے کہ وہ چین سے فلیگ میٹنگ اور مذاکرات کی اپیل کر رہا ہے جن کو چین نے یکسر مسترد کر دیا ہے۔ ادھر نئی دلی میں اہم ملاقاتوں اور اجلاس کا سلسلہ دن رات جاری ہے۔ دلی میں مقیم اہم ممالک اور دوست ممالک کے سفیروں سے بھی رابطوں کا سلسلہ جاری ہے اور اپوزیشن جماعتوں کے قائدین کو بھی اعتماد میں لینے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔ چین نے بھارت کیساتھ سرحد کے قریب ایئر بیس قائم کرنے اور سرحد پر مزید کمک پہنچانا بھی شروع کر دی ہے۔ بھارت بھی بڑی تعداد میں فوجی اور ساز و سامان لداخ پہنچا رہا ہے۔ حالات انتہائی کشیدہ ہیں اور کسی بھی وقت کچھ بھی ہو سکتا ہے۔

محترم قارئین! مودی سرکار بھارت کو ڈبو رہی ہے اور بھارت کے اندر بھی علیحدگی کی تحریکیں تیز ہو سکتی ہیں اور اس خطہ میں حالات نیا رخ اختیار کر سکتے ہیں۔ علم الاعداد کے مطابق جون کے آخری عشرے سے پاکستان میں سیاسی اور معاشی حالات تبدیل ہو سکتے ہیں۔ حادثات اور ناگہانی آفات میں اضافہ ہو سکتا ہے اور کورونا وبا میں مزید تیزی آ سکتی ہے۔ میں نے پہلے ہی ٹڈی دل کی یلغار کا ذکر کیا تھا جو اب ملک میں جاری ہے۔ حکومت کو ان تمام حالات کے مطابق پیش بندی کرنی چاہئے اور اپوزیشن اور میڈیا کو ساتھ ملا کر چلنا چاہئے۔ میڈیا ہائوسز کی واجب الادا رقوم کی فوری اور پوری ادائیگی کرنی چاہئے اور میڈیا کی پابند سلاسل شخصیات کو فوری رہا کرنا چاہئے۔ یہ تاریخی حقیقت ہے کہ میڈیا کے ساتھ تلخ رویہ اور خراب تعلقات کبھی بھی حکمرانوں کے حق میں بہتر ثابت نہیں ہوئے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین