دور حاضر چوتھے صنعتی انقلاب سے گزر رہا ہے ۔تمام ممالک خواہ ترقی یافتہ ہوں یا ترقی پزیر سب ان شعبہ جات میں اپنے طور سے ان مخصوص شعبوں میں محنت کررہے ہیں جو ان کی سماجی اقتصادی ترقی کے لئے اہم سنگ میل ہو ۔ اس ضمن میں طب کے شعبے میں بے تحاشہ تحقیق و ترقی ہو رہی ہے ۔
کینسر کے علاج میں ترقی
ایک تحقیق کے مطابق ہر سال 80 لاکھ افراد کینسر کی وجہ سے موت کا شکار ہوجاتے ہیں ، اس بیماری کے ساتھ اہم مسئلہ یہ ہے کہ یہ اس وقت شناخت ہوتی ہے جب یہ کافی بڑھ چکی ہوتی ہے۔ پھیپھڑوں کے کینسر میں رسولی (ٹیومر) اس وقت نظر آتی ہے جب اس کا سائز کرکٹ کی گیند کے برابر ہو چکا ہوتاہے، چنانچہ پھیپھڑوںکے کینسر کے90 فی صد مریض اس کی تشخیص کے پانچ سال کے اندر ہلاک ہو جاتے ہیں۔ صحت کے حوالے سے معمولی اسکریننگ میں ابتدائی کینسر کا پتا لگانا مشکل ہوتا ہے،جس کی وجہ سے اس کی دیر سے تشخیص مرض کو اس قدرپیچیدہ کر چکی ہوتی ہے کہ اس کا علاج کافی دشوار ہو جاتا ہے۔( Nottingham (UKاور کنساس (امریکا) کے سائنس دانوں اور ڈاکٹروں نے 51سال کی تحقیق کے بعد کینسر کی تشخیص کے لیے ایک سادہ سا خون کا ٹیسٹ تیار کیا ہے، جس کو اس مرض کی تشخیص کے حوالے سے اہم سنگ میل قرار دیا جارہا ہے۔
اس نئی ٹیکنالوجی میں کینسر کی پہلی مالیکیولی علامت کا سراغ لگانا شامل ہے جب کینسر کے خلیات بننا شروع ہوتے ہیں تو بعض مخصوص پروٹین (Antigens)پیدا ہوتے ہیں جو جسم کے مدافعتی نظام کو تیز کر دیتے ہیں اور اینٹی باڈیز Anti Bodies کی تشکیل کے ذریعے ردعمل دیتے ہیں۔ تیا رکیا گیا خون کا ٹیسٹ اس سرگرمی کو دریافت کرے گا اور سائنس دانوں کو بالکل درست Antigens اور اس سے منسلک اینٹی باڈیز Antibodies کی شناخت میں مدد ملے گی ،جس کے ذریعے زیر تشکیل کینسر کی رسولی کی قسم کی شناخت ہو سکے گی۔ یہ کام مریض کے صر ف10mL خون سے ہو سکے گا جو کہ معمول کے ٹیسٹ میں شامل ہو گا اس کے ذریعے کینسر کا ابتدا ہی میں سراغ لگا لیا جائے گا جو کہ عام طو رپر قابل علاج مرحلہ ہوتا ہے۔
کینسر کے پھیلنے کا اندازہ لگانا
کینسر کے مریضوں کا آپریشن کرتے وقت سرجن کے لیے ایک سب سے اہم مسئلہ اس بات کو یقینی بنانا ہوتا ہے کہ رسولی مکمل طور پر نکال لی گئی ہےیا نہیں۔ اس آپریشن کی کامیابی کا انحصار مریض کی زندگی اور موت پر ہوتا ہے۔ کیلیفورنیا یونیورسٹی سان ڈیاگو میں کام کرنے والے ڈاکٹر روحہ سین اور ان کے رفقاء کار کینسر کے خلیات سے ایسے پروٹین منسلک کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں کہ جب ان پر خاص تیکنیک سے روشنی ڈالی جاتی ہے تو وہ چمکنے لگتے ہیں اس کے نتیجے میں کینسر کے خلیات کا پتا لگانا آسان ہو جاتا ہے جو کہ دوسری صورت میں ممکن نہیں تھا۔ ان مارکرز کے استعمال سے کینسر کے 90فی صدرہ جانے والے خلیات کا سراغ لگا کر انہیں بھی نکالا جا سکتا ہے۔ اس تجربہ کے نتیجے میں کینسر کے مریض چوہوں کی زندگی میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ اُمید ہے کہ یہ ٹیکنالوجی جلد ہی انسانی استعمال میں آجائے گی۔
رنگوں کے نابینا پن کے لیے جین تھراپی
انسانی جینوم کے راز سے پردہ اٹھنے کے بعد جینیاتی نقص کو دور کرنے کے مواقع پیدا ہوئے ہیں۔ یہ مسئلہ عام طور پر جین میں تبدیلی Mutation کی وجہ سے رونما ہوتا ہے۔ اس کے نتیجے میں آنکھوں کے پردہئ جشم پر موجود روشنی کو جذب کرنے والے پگمنٹ غیر فعال ہو جاتے ہیں۔ اگر سرخ فوٹو پگمنٹ غیر موجود ہوں گے تو سرخ اور سبز اشیاء خاکستری کے مختلف Shades میں نظر آئیں گی۔ یہ نقص بندروں کی بعض اقسام میں بھی پایا گیا ہے۔ یونیورسٹی آف واشنگٹن کے Eye Institute میں کام کرنے والے Jay اور Maureen Neitz کی ٹیم نے دریافت کیا ہے کہ اس نقص کا جین تھراپی کے ذریعے علاج ممکن ہے۔
رنگوں کے نابینا پن کا شکاربالغ بندروں میں نقص سے پاک جین تھراپی کے ذریعے علاج ممکن ہے۔ رنگوں کے نابینا پن کا شکار بالغ بندروں میں نقص سے پاک جین انجکشن کے ذریعے داخل کیا گیا۔ اس کے بعد بندروں کو کمپیوٹر کی اسکرین پر رنگوں کی شناخت کی تربیت دی گئی۔ ابتداء میں رنگوں کے نابینا پن کا شکار بندر پیلے اور نیلے دھبوں کی شناخت کرنے میں کامیاب ہو گئے، مگر سرخ اور سبز دھبوں کی شناخت میں ان کو دشواری محسوس ہوئی۔پانچ ماہ کی جین تھراپی کے بعد یہ بندرسرخ اور سبز دھبوں کی شناخت کرنے میں کام یاب ہو گئے ۔
الزائمر کے مرض کے لیے … جین تھراپی
بعض بیماریاں جین میں نقص کی وجہ سے واقع ہوتی ہیں۔ جین تھراپی میں کسی شخص کے خلیات یا حیاتیاتی بافتوں (ٹشوز) میں جین داخل کیا جاتا ہے یا تبدیل کیا جاتا ہے اور اس کے ذریعے مرض کا علاج کیا جاتا ہے۔ فی الحال اس عمل میں محدود پیمانے پر کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں۔ Manhasset نیویارک میں واقع Feinstein انسٹی ٹیوٹ فارمیڈیکل ریسرچ میں کام کرنے والے سائنس دانوں نے دریافت کیا ہے کہ پارکسنز سے متاثرہ مریضوں کا علاج جین تھراپی کے ذریعے ممکن ہے۔ پارکسنز دراصل عصابی انحطاطی مسئلہ Neurodegenerative Disorder ہے۔
جو کپکپاہٹ، عضلات میں سختی، چال میں لڑکھڑاہٹ اور توازن میں خرابی کا باعث بنتا ہے۔ اس حالت کی وجہ دماغ میں ایک کیمیائی مواد (GABA)کی کمی ہونا ہے۔ سائنس دانوں نے ان مریضوں کے دماغ میں ایک وائرس داخل کیا ہے جو کہ GABA کی سطح میں اضافہ کر سکتا ہے۔ تجرباتی طور پر ان مریضوں کی حالت میں نمایاں تبدیلی نظر آئی ہے۔امپریل کالج لندن کے ڈیپارٹمنٹ آف جین تھراپی میں کام کرنے والے سائنس دانو ں میں جن کی سربراہی جین تھراپی پروفیسر Nicholas Mazarakis کر رہے ہیں ،انہوں نےجین تھراپی کا طریقےکار مختلف عصبی Disorder کے علاج کے لیے استعمال کیا ہے۔
ایچ آئی وی کے خلاف جنگ …
افریقا میں اب بھی ایڈز سب سے بڑا قاتل ہے۔یہاں 2007ءمیں دوملین افراد اس مہلک وائرس کا شکار ہوئے تھے ۔تاہم اب ایڈز کا علاج تقریباً دریافت ہوچکا ہے۔اس کے علاج کے لیے جین تھراپی کا استعمال جرمنی میں خون کے سرطان اور ایڈز کا شکار ایک شخص کا علاج Bone Marrow Transplant ہڈی کے گودے کی تبدیلی کے ذریعے کیا گیا اس عمل میں مریض کے مدافعی خلیات بھی تبدیل ہو گئے۔ تاہم ہڈیوں کے گودے یا Bone Marrow کو تبدیل کرنا اس قدر آسان نہیں ہے۔
نیز یہ علاج انتہائی منہگا اور مشکل ہے۔ امریکی کمپنی Sangamo Biosciences ایک جین تھراپی کا طریقہ تیار کر رہی ہے ،جس میں ہڈیوں کے گودے کی تبدیلی Bone Marrow Transplant کو بنیاد بناتے ہوئے علاج کیا جائے گا اس کے اثرات وہی ہوں گے جو ہڈیوں کی گودے کی تبدیلی کے ہوتے ہیں۔ اگر یہ طریقے کار کامیاب رہا تو جین تھراپی کا صرف ایک وار اس مہلک وائرس کو مکمل طور پر ختم کر دے گا۔ اس وقت اس تصور کی بنیاد پر جو طریقہ استعمال کیا جارہا ہے وہ Anti Retroviral therapy (ART) ہے۔ تاہم یہ دوائیں زندگی میں صرف ایک دفعہ استعمال کی جاسکتی ہیں اور انتہائی منہگی بھی ہیں۔
ٹی بی کا پتا چلانے کے لیے نینو پارٹیکل
ٹی بی کے مرض کی شناخت کے روایتی طریقے کار میں جراثیم کی آبادی کی نمو کی جاتی ہے جو کہ دو ہفتے کا وقت لے لیتا ہے۔ اب ٹی بی کی شناخت کے لیے ایک ایسا ٹیسٹ تیار کیا جاچکا ہے،جس میں مقناطیسی نینو پارٹیکل کا استعمال کر کے مرض کے جراثیم کی30 منٹ کے اندر شناخت کرلی جائے گی۔ نینو پارٹیکل پرایسی antibodies کا غلاف چڑھایا جائے گا جو ٹی بی کا سبب بننے والے بیکٹیریا کے ساتھ جڑ جائیں گے اور ان کو مقناطیسی اسکینر کے ذریعے دیکھا جاسکے گا،یہ کام حال ہی میں ہاورڈ میڈیکل اسکول کے سائنس دانوں نے انجام دیا ہے اور اُمید کی جاری ہے کہ اس کے ذریعے اس مہلک مرض کی جلدی شناخت کر لی جائے گی۔
DNAٹیسٹنگ … چند گھنٹوں میں
گزشتہ صدی کے ابتدائی نصف سے مجرموں کی شناخت کے لیے انگلیوں کے نشانات کے بعد ڈی این اے ٹیسٹنگ کا طریقہ دریافت ہوا ہے۔اس کے نمونے حاصل کرنے کے بعد لیبارٹری میں لے جانے اور شناخت کے عمل کے مکمل ہونے میں دو ہفتے کا وقت لگ جاتا ہے جب کہ اکثر جینیاتی ٹیسٹ24 سے 48 گھنٹے لیتے ہیں ۔
لہٰذا جب تک ٹیسٹ کے نتائج آتے معاملہ کہیں اور ہی پہنچ چکا ہوتا ہے ۔چناں چہ تیز رفتاری سے انجام دیے جانے والے ڈی این اے ٹیسٹ کی ضرورت کو شدت سے محسوس کیا جارہاہے۔ ایری زونا میں واقع یونیورسٹی آف کینساس نے برطانیہ کی فورنسک سائنس سروس کے ساتھ مل کر نئی چپ تیار کی ہے جو کہ 4گھنٹے کے اندر نتائج تیار کر دیتی ہے۔کوشش کی جارہی ہے کہ اس ٹیکنالوجی میں مزید بہتری لا کر ٹیسٹ میں لگنے والے وقت کو کم کرکے 2گھنٹے کر دیا جائے۔ یہ ٹیکنالوجی جلد ہی تجارتی پیمانے پر پیش کر دی جائے گی۔یہ فورنسک سائنس یا علم جرمیات کے حوالے سے اہم دریافت ہے۔
جراثیم جنگ جیت رہے ہیں
بیماری پیدا کرنے والے مائیکرو آرگینزم (خردنی حیاتی اجسام)نے جینیاتی تغیر (mutation) اور دوسرے ذرائع سے خود کو زندہ رکھنے کا میکنیزم تعمیر کر لیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ جراثیم اینٹی بائیو ٹک داوؤں سے مزاحمت کر کے زندہ رہتے ہیں،چناں چہ سائنس دان مسلسل نئی اینٹی بائیوٹیک دواؤں کی تیاری میں مصروف رہتے ہیں۔ابھی تک مائیکروآرگینزم سے مزاحم جراثیم (اسٹرین) کی وجہ سے اسپتالوں کے وارڈ میں ہونے والے انفیکشن سب سے بڑا خطرہ سمجھے جاتے ہیں اور کئی اموات اسپتال میں علاج کی وجہ سے وقوع پذیر ہوتی ہیں۔
نئی دواؤں کی تیاری میں درکار بھاری مالیت کی وجہ سے یہ مسئلہ مزید گھمبیر ہوتاجارہا ہے، کیوں کہ اس میں اخراجات ایک ارب ڈالر سے بڑھ سکتے ہیں اور اس میں کی جانے والی سرمایہ کاری مکمل خسارے کی صورت میں سامنے آسکتی ہے۔ کیوں کہ دوا کو تجارتی پیمانے پر پیش کرنے سے پہلے اگر اس کے مضمر ضمنی اثرات (Side Effects) سامنے آگئے تو فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن FDA اس کو مسترد کر دے گی۔ اکثر ادویات ساز ادارے جراثیم کے لیے مزاحم اسٹرین کے خلاف نئی ادویات کی تیاری کے لیے تحقیق پر سرمایہ نہیں لگانا چاہتے کیوں کہ معاشی نکتہ نظر سے یہ فائدہ مند نہیں ہے۔ چنانچہ ہم بیماریوں سے مزاحم جراثیم کے ساتھ دوڑ رہے ہیں۔ اس کے نتیجے میں بیماریوں سے مزاحم اسٹرین کی مزید پیداوار کا خطرہ ہے چنانچہ موثر اینٹی بائیو ٹیک نہ ہونے کی وجہ سے لاکھوں اموات واقع ہوسکتی ہیں۔
اس حوالے سے ایک اہم قدم پودوں سے حاصل کیا جانے والا عرق ہے جو مزاحم اسٹرین کے خلاف اینٹی بائیو ٹیک سرگرمی کا اظہار کرتا ہے۔ یہ کام پاکستان میں کیا جاچکا ہے۔ان کوششوں کے نتیجے میں درختوں سے اہم مرکبات دریافت ہوئے ہیں ۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہمیں ایک دفعہ پھر قدرت کی طرف واپس پلٹنا ہو گا۔ اس کرہ ارض پر انسانوں کی زندگی اور بقاء کا دارومدارحیاتیاتی تنوع اور اس سے منسلک کیمیائی تنوع پر ہے، کیوں کہ قدرت نے ہمیں پودوں اور نباتات کی شکل میں ایک خزانے سے نوازا ہے۔