• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ حقیقت ہے کہ فن کار بے حد حساس مزاج کے حامل ہوتے ہیں، اپنی فنی خدمات اور فن سے مداحوں کو تفریح فراہم کرنے والے یہ فن کار اپنے دُکھوں اور زخموں کو چُھپا کر معاشرے کو صحت مند اور خوشنما بنانے میں بڑا اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ کچھ فن کار ایسے بھی ہیں، جنہیں حقیقی زندگی میں ناحق قتل کیا گیا اور آج بھی خون میں لت پت ان کی لاشیں اپنے قاتلوں کا نام پوچھتی ہیں اور ایک سوال کرتی ہیں کہ ہمیں کس جرم میں مارا گیا ہے۔ معروف انقلابی ہدایت کار خلیل قیصر کا قتل اس سلسلے کا آغاز بنا۔ یہ قتل 1966ء میں ہوا۔ 

خلیل قیصر ایک سوچ کا نام تھا، ایک فکر تھی، اصلاح معاشرے کے لیے ایک تحریک تھی، سام راجوں اور سرمایہ داروں کے خلاف ایک بغاوت تھی، وہ عزت و قار، جیو اور جینے دو کا علم بردار تھا۔ ساری زندگی اندھیروں سے لڑنے والا، اجالالوں کی باتیں کرنے والا، ایک مردآہن! جسے 1966ء کی ایک کالی سیاہ رات میں ایک درندہ صفت شخص نے اپنے خنجر کا نشانہ بنایا۔ لہو ناحق بن کر زمین پر ٹپکا اور ایک داستان رقم کرگیا۔ خلیل قیصر کا پہلا تعارف فلمی صنعت میں بہ طور ہدایت کار 1959ء میں پنجابی فلم ’’یاربیلی‘‘ سے ہوا۔ اس فلم کے بعد اسی سال ان کی ناگوں کے موضوع پر ایک نغماتی کاسٹیوم سپرہٹ فلم ’’ناگن‘‘ ریلیز ہوئی، جس میں اداکارہ نیلو نے پہلی بار سولو ہیروئن کا کردار ادا کیا۔ اس فلم کی کام یابی نے نیلو کو صف اول کی ہیروئن بنایا تھا۔ رتن کمار اس فلم کے ہیرو تھے۔ 1960ء میں خلیل قیصر کی ’’کلرک‘‘ ریلیز ہوئی، جسے آرٹ فلم کا درجہ حاصل ہے۔ اس میں ہدایت کاری کے علاوہ بہ طور ہیرو انہوں نے اداکاری کے جوہر بھی دکھائے۔ 

1961ء میں صوبہ سرحد (خیبر پختونواہ) کے حریت پسند عجب خان پر ایک خُوب صورت فلم ’’عجب خان‘‘ کے نام سے بنائی۔ 1962ء میں انہوں نے فلم ’’شہید‘‘ بناکر بڑی شہرت پائی۔ اس فلم کا موضوع قدرتی دولت تیل اور طاقت تھا، جس نے سوئے ہوئے عربوں کو احساس دلایا کہ وہ کسی سام راجی سازش کا شکار نہ ہوں۔ یہ وہ پہلی پاکستانی فلم تھی، جس نے سب سے زیادہ ’’نگار‘‘ ایوارڈ حاصل کرنے کا ریکارڈ بنایا تھا۔ بہ طور ہدایت کار ان کی دیگر فلموں میں ’’دوشیزہ‘‘ ’’حکومت‘‘ ’’ماں باپ‘‘ کے علاوہ 1964ء کی ناقابل فراموش سپرہٹ فلم ’’فرنگی‘‘ کے نام شامل ہیں۔خلیل قیصر کا قتل پوری فلمی صنعت کے لیے ایک لمحہ فکر بن گیا۔ فلم ’’فرنگی‘‘ نے اس گیت کا نغمہ ان کی خون میں لت پت لاش پڑھ رہی تھی۔؎

’’ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے

تیرے ہونٹوں کے پھولوں کی چاہت میں ہم

دار کی خشک ٹہنی پہ وارے گئے‘‘

ان کے ہم خیال، ہم قدم ساتھی ریاض شاہد نے ان کی شہادت پر ایک نوحہ بھی لکھا تھا۔

اداکارہ نِگو جو فلموں میں رقص کے لیے آئی اور ابتدائی چند رقص کرنے کے بعد اس کا شمار فلمی صنعت کی ایک معروف رقاصہ کے طور پر ہونے لگا۔ 1964ء میں فلمی دُنیا میں متعارف ہونے والی نگو کا اصل نام نرگس تھا۔ ہدایت کار ایس۔اے حافظ کی کاسٹیوم ایکشن فلم ’’سجدہ‘‘ میں فلم بینوں نے اس کا رقص پہلی بار دیکھا، جسے بے حد پسند کیا گیا۔ وہ اپنے دور کی کام یاب اور معروف آئم گرل رہیں۔ اس دور میں بننے والی زیادہ تر پنجابی فلموں میں اس کا دل کش رقص لازمی سمجھا جاتا تھا۔ 

ہدایت کار ایم اکرم کی آل ٹائم سپرہٹ پنجابی فلم ’’خان چاچا‘‘ میں نِگو پر فلمایا ہوا رقص ’’جناں تیری مرضی نچا بیلیاں‘‘ ملکہ ترنم نورجہاں اور موسیقار نذیر علی کا ایک ایک سپرہٹ گیت تھا، جو آج بھی مقبولِ عام ہے۔ نِگو پر فلمائے گئے چند اور مقبول گانوں میں یہ بھی شامل ہے۔

1970ء میں بننے والی پنجابی فلم ’’قاسو‘‘ کے پروڈیوسر خواجہ اظہر کو نِگو پسند آگئی اور پھر بات شادی تک پہنچی۔ بیگم بن کر وہ خواجہ اظہر کے گھر کی زینت بن گئی ، مگر اس کے رشتے دار اسے شمع محفل بنانے پر اکساتے رہے، کیوں کہ اس کا پیدائشی تعلق ایک ایسے گھرانے سے تھا،جو گھنگرئوں کی جھنکار اور طبلے کی تھاپ سے منسلک تھا۔ 

125؍فلموں میں بہ طور رقاصہ اور اداکارہ کام کرنے والی نِگو 5؍جنوری 1972ء کو اپنے بالاخانے پر اپنے اہل خانے کے ساتھ مقیم تھی، اپنے مجازی خدا سے ناراض ہوکر آئی تھی۔ خاوند کی عزت نے جوش مارا، وہ بالاخانے پر اپنی ناراض بیگم کو لینے گیا، بحث و تکرار کی اور پھر ایک گولی چلی، جس کی آواز سے پُورا بازار حُسن گونج اٹھا۔ ایک خُوب صورت جسم خون میں لت پت لاش کی صورت میں تھا۔ نِگو جو ایک رنگین کتاب تھی، اب ایک سنگین کہانی بن گئی۔ نِگو پاکستان میں قتل ہونے والی پہلی اداکارہ تھی۔

حیدرآباد سندھ سے تعلق رکھنے والے شاہنواز گھمن کو 25؍جون 1991ء کو حیدرآباد میں دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا۔ مرحوم نے 1972ء کو پہلی فلم ’’من کی جیت‘‘ میں بہ طور ولن اداکاری سے فلمی کیریئر کا آغاز کیا۔ اپنی پہلی ہی فلم میں وہ منفی کرداروں کے حوالے سے معروف ہوگئے۔ نہ صرف انہوں نے اردو فلموں میں شہرت پائی، بلکہ وہ پنجابی اور پشتو فلموں میں بھی ولن کے روپ میں پسند کیے گئے۔ 155؍فلموں میں کام کرنے والے یہ اداکار بنیادی طور پر اسٹیج، ریڈیو اور ٹی وی سے تعلق رکھتے تھے۔

80ء کی دہائی میں اپنے آبائی شہر حیدرآباد میں بلڈرز کے طور پر کام شروع کیا۔ اس شعبے میں انہوں نے بہت ترقی کی۔ 1991ء میں بھتہ مافیا کی دہشت گردی کا شکار ہوگئے۔ ان کی چند قابل ذکر فلموں میں ’’قسمت‘‘ ’’نوکر‘‘ ’’جب جب پھول کھلے‘‘ ’’آتش‘‘ ’’دیکھا جائے گا‘‘ ’’شیشے کا گھر‘‘ ’’محبت اور مجبوری‘‘ کے نام شامل ہیں۔

پشتو فلموں کی پہلی سپر اسٹار یاسمین خان، جن کا اصل نام شمشاد تھا، 1950ء میں پشاور میں پیدا ہوئیں۔ 1960ء میں کراچی میں نجی محفلوں میں بہ طور رقاصہ عملی زندگی کا آغاز کیا۔ کراچی میں بننے والی فلموں میں ایکسٹرا ڈانسر کے طور پر کئی فلموں میں اپنے فن کا مظاہرہ والی اس اداکارہ کو 1970ءمیں ہدایت کار عزیز تبسم نے پہلی پشتو فلم ’’یوسف خان شیر بانو‘‘ میں بہ طور ہیروئن کاسٹ کیا۔ بدر منیر اس فلم کے ہیرو تھے۔ پہلی پشتو فلم اپنے دور میں بلاک بسٹر ثابت ہوئی۔ پشتو فلم انڈسٹری کی بنیاد اسی کام یاب کلاسیک فلم سے پڑی۔ 

یاسمین خان اور بدر منیر کی جوڑی اس قدر مقبول ہوئی کہ ہر دوسری پشتو فلم میں یہ دونوں کاسٹ ہونے لگے۔ بدر منیر کے علاوہ یاسمین خان نے آصف خان، بیدار بخت کے ساتھ کئی فلموں میں ہیروئن کے کردار کیے۔ پشتو کے علاوہ یاسمین خان نے چند اردو اور پنجابی فلموں میں بھی اپنی اداکاری کے جوہر دکھائے، جن میں ’’جہاں برف گرتی ہے‘‘ ’’ایک رات‘‘ ’’دل والے‘‘ ’’دُلہن ایک رات کی‘‘ ’’سارجنٹ‘‘ ’’عورت راج‘‘ کے نام شامل ہیں۔ یاسمین خان نے تین شادیاں کیں۔ پہلی شادی اداکار ساقی سے پھر اس کے بعد راحیل باری اور آخری بار پشاور سے تعلق رکھنے والے ایک شخص کی بیوی بنیں، جس نے 15؍اپریل 1999ء کو اسے قتل کردیا تھا۔

86ء میں ہدایت کار یونس ملک (مولا جٹ فیم) نے اپنی فلم ’’آخری جنگ‘‘ میں نادرہ نامی ایک نئی اداکارہ کو متعارف کرایا تھا۔ اس خُوب صورت، حسین اداکارہ کا اصل نام ملکہ فرح تھا،جس کے بارے میں لوگ کہتے ہیں کہ جس وقت وہ پہلی بار اسٹوڈیو میں شوٹنگ کرنے آئی تو ایک خُوب صورت قیمتی گاڑی میں آئی تھی۔ ایسی شان و شوکت اس سے قبل لوگوں نے کسی ہیروئن کی نہیں دیکھی تھی۔ خوب صورت اور حسین ہونے کے ساتھ ساتھ وہ بے پناہ خداداد صلاحیتوں کی مالک تھیں۔ بہت قلیل عرصے میں وہ ایک کام یاب سپر اسٹار بن گئیں۔ 

دیکھتے ہی دیکھتے نادرہ شہرت کی بلندیوں کو چُھونے لگیں۔ ’’ناچے ناگن‘‘ میں نادرہ کی کردارنگاری اور رقص فلم بینوں پر ایسا سحر کرگئے کہ وہ اس فلم کو باربار دیکھنے پر مجبور ہوگئے۔ ’’میری آواز‘‘  ’’مولا بخش‘‘ ’’مفرور‘‘ ’’حکومت‘‘ ’’تحفہ‘‘  ’’برداشت‘‘  ’’میں اللہ رکھی‘‘  ’’ناگن جوگی‘‘  ’’تیس مار خان‘‘  ’’زخمی عورت‘‘  ’’راجہ‘‘  ’’دولت کے پجاری‘‘  ’’حسن کا چور‘‘  ’’لکھن‘‘  ’’وطن کے رکھوالے‘‘  ’’نادرہ‘‘  ’’میری جنگ‘‘  ’’محمد خان‘‘  ’’محبوبہ‘‘  کا شمار نادرہ کی بہترین اور کام یاب فلموں میں ہوتاہے۔ 6؍اگست 1995ء کو گلبرگ کے نزدیک وہ ایک قاتلانہ حملے میں ہلاک ہوگئیں۔

ٹی وی اداکارہ سپنا اور ماروی بھی قتل کی گئیں۔ سپنا نے ٹی وی پلے ’’دشت‘‘ میں کام کرکے شہرت پائی تھی۔ پشتو فلموں کی معروف کریکٹر ایکٹر نگینہ خانم کا قتل بھی 24؍ستمبر 2003ء کو اس کے گھر میں ہوا۔ انہوں نے 1962ء میں اپنے فلمی کیریئر کا آغاز کیا۔ ’’دوشیزہ‘‘ اور ’’اولاد‘‘ ان کی ابتدائی اردو فلمیں تھیں۔ لاہور میں واقع ان کا گھر فلمی دنیا کے لوگوں کا اہم مرکز تھا۔ 90ء کی دہائی میں نئی لڑکیوں کو انہوں نے فلمی دنیا میں متعارف کرایا۔ ان کا بیٹا نواز خان بھی فلموں میں بطور اداکار کام کرچکا ہے۔

سلطان راہی، پنجابی باکس آفس کا وہ نام ،جو جب تک زندہ رہا، پنجابی سنیما زندہ رہا۔ یہ نام نہیں، بلکہ عزم و ہمت کی ایک داستان ہے، جہدمسلسل کی ایک کہانی ہے ۔ ایک گبرو جو پنج دریائوں کا نہیں پورے پاکستان کا فخر تھا، جس کا ادا کیا ہوا فلم ’’مولا جٹ‘‘ کا ایک ڈائیلاگ ’’مولے نوں مولا نہ مارے تو مولا نئیں مر سکدا‘‘ یہ تاریخی جملے 9؍جنوری 1996ء کو اپنی حقیقت کا اقرار کرتے ہوئے اس مرد آہن کی زندگی کا آخری دن ثابت ہوا۔ اس جملے کی حقیقت نے اسے مر کر بھی شہید کی صورت میں زندہ و جاوید کردیا۔ اس نابغہ روزگار اداکار کی اصل کام یابی کا آغاز ہدایت کار اقبال کاشمیری کی پنجابی فلم ’’بابل‘‘ سے ہوا، جس میں انہوں نے ’’جبرو اور بدمعاش‘‘ کا یادگار ناقابل فراموش کردار کیا۔ یہ فلم 1971ء میں ریلیز ہوئی۔

1972ء میں ریلیز ہونے والے ہدایت کار اسلم ڈار کی بلاک بسٹر پنجابی فلم ’’بشیرا‘‘ ان کے کیریئر کی وہ فلم ثابت ہوئی، جس میں انہیں عروج بام پر پہنچا دیا۔یہ شہرہ آفاق بلاک بسٹر فلم 1979ء میں ریلیز ہوئی ۔ آسیہ کے بعد اداکارہ انجمن کی جوڑی میں سلطان راہی کی لاتعداد سپرہٹ فلمیں ریلیز ہوئیں ، جن میں ’’چن وریام‘‘  ’’سالا صاحب‘‘  ’’دو بیگھہ زمین‘‘  ’’شعلے‘‘ ’’لال طوفان‘‘ ’’خود دار‘‘ ’’ملنگا‘‘ ’’اکبر خان‘‘ ’’اللہ رکھا‘‘  ’’فقیریا‘‘ ’’اچھو 302‘‘ ’’میلہ‘‘ ’’بالے خان‘‘  ’’چراغ بالی‘‘  کے نام خاص طور پر شامل ہیں۔ 152؍فلموں میں ٹائٹل رول کرنے والے یہ اداکار اپنے اندر ایک ایسی تاریخ رکھتا ہے، جسے بیان کرنےکے لیےکئی صفحات درکار ہوں گے، جب تک سلطان راہی زندہ رہا، لاہور کے نگار خانے آباد رہے۔ ان کی اچانک موت نے ان کے سیکڑوں مداحوں کو غمگین کردیا تھا۔ 

جس وقت ان کے جسد خاکی کو جنازے کی صورت میں لے جایا جارہا تھا، تو ایک بہت بڑی خلقت ان کے آخری سفر میں شامل تھی۔ یہ اعزاز آج تک کسی پاکستانی اداکار کو نہیں ملا۔ ان کا جنازہ لاہور کی تاریخ کا ایک بہت بڑا جنازہ تھا۔ اللہ تعالیٰ اس مرد مجاہد کے درجات کو بلند فرمائے۔ آمین

تازہ ترین
تازہ ترین