کورنا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کے باعث جہاں بہت سارے معاملات کھل کر سامنے آئے ہیں وہاں کریانہ کی دکانوں سے لے کر سپر اسٹورز تک مضر صحت اور زائد المعیادخوردنی اشیاء کی فروخت کی ایک الگ کہانی ہے۔انتظامی چھان بین اور چھاپوں کے دوران جس قدر دکانوں میں ایک سال سے دو سال قبل تک کی زائد المعیاد چیزیں پائی گئی ہیں ۔اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ منافع خور تاجر کس طرح تھوڑے سے نقصان سے بچنے کے لیے انسانی صحت سے کھیل رہے ہیں ۔
لاک ڈائون کے دوران اسلام کوٹ میں تعینات نئے اسسٹنٹ کمشنر نہید میرانی نے روزانہ کی بنیاد پر کریانہ کی دکانوں سے لے کر جنرل اور سپر اسٹورز اور میڈیکل اسٹورز کی چیکنگ کی تو بڑ ی مقدار میںمضر صحت مصالحہ جات،بسکٹس،خشک دودھ ،مشروبات ،کوکنگ آئل، ادویات، چھالیہ پائی گئیں جن میں اکثر چھ ماہ یا ایک سال قبل ایکسپائر ہو چکی تھیں۔اسسٹنٹ کمشنر نے ایک دکان پر چھاپے کے دوران ایک درجن کے قریب چھالیہ کے کارٹن پکڑ کر پولیس کی نگرانی میں شہر سے باہر نذر آتش کردئیے۔
عوامی شکایات پرشہر بھر میں کارروائیوں کے دوران ہر دوسری دکان سے بھاری مقدار میں ایسی اشیاء برآمد ہوئیں جو کہ زائد المیعاد ہوکرانسانی صحت کے لیے ضرر رساں ہو چکی تھیں مگر دکاندار گاہکوںکے ہاتھ فروخت کررہے تھے۔
اس ضمن میں اسسٹنٹ کمشنر نہید میرانی نے نمائندہ جنگ کو بتایا کہ گزشتہ دو ہفتوں میں چھاپوںکے دوران بڑی مقدار میں زائدالمعیاد اشیاء پکڑ کر تلف کردی گئیں اور اس کاروبار میں ملوث دکانداروں پر جرمانہ بھی عائد کیا گیا ہے۔انہوں نے شہریوں کوہدایت کی کہ وہ خریداری کرتے ہوئے خاص طور سے ادویات اور اشیائے خورونوش کی اختتامی مدت لازمی طور پر چیک کیا کریں اور زائد المیعاد یا مضر صحت ہونے کی صورت میں اپنی شکایات نوٹ کروائیں تاکہ ایسے دکانداروں کے خلاف کارروائی کی جاسکے۔
دریں اثناء انتظامی چھاپوں اور کاروائی کے بعد دکانداروں نے اپنے دکانوں کے سیٹ اپ کو تو درست کیا مگر ذرائع نے انکشاف کیا ہے کہ ہولسیلرز ابھی تک بڑی مقدارمیں ایکسپائر اشیاء کو اپنے گوداموں میں اسٹاک کیئے ہوئے ہیں جوکہ بعد میں کم ریٹ میں دکاندانداروں کو دیتے ہیں اور یوں دیہی علاقوں میں اکثر لوگ ایکسپائری تاریخ کو چیک نہیں کرتے ہیں۔ اس سلسلے میں کئی کمپنیاں بھی اپنی ایسی اشیاء دور دراز علاقوں کے دکانداروں سے ملی بھگت کر کے فروخت کرتی رہتی ہیں۔باخبر ذرائع کے مطابق تھرپارکر کےزیادہ ترشہروں خاص کر دیہاتوں میں مضر صحت اشیاءآزادانہ طور پر فروخت کی جاتی ہیں۔اس صورت حال کے خاتمے کے لیے حکومتی سطح پر سخت اقدامات کی ضرورت ہے۔