• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بات ذرا عجیب لگے گی کہ سندھ گورنمنٹ نے جو کمالات اسپتالوں، ہائر ایجوکیشن اور انسدادِ کورونا میں کئے ہیں ان میں عمران خان کو بہت زیادہ کریڈٹ جاتا ہے۔ سوچا تو یہ بھی جا سکتا ہے کہ سابق وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف یا نون لیگ کو کریڈٹ کیوں نہیں؟ جواب بڑا سادہ سا ہے، نون لیگ کے ہاتھوں سے سندھ ایسے ہی رفتہ رفتہ سرکتا گیا جس طرح پیپلز پارٹی کے ہاتھوں سے صوبہ پنجاب نکلا۔

لیکن 2011ء سے الیکشن 2018ء تک نثار علی خان یا خورشید شاہ اسمبلیوں کی حد تک پارلیمانی اپوزیشن لیڈر ضرور رہے تاہم کوچہ و بازار اور دلوں کی اپوزیشن لیڈری عمران خان کے ہاتھوں میں تھی۔ اسی عمرانی لیڈری کے سبب نون لیگ نے اپنی دھاک جمانے کے لئے برقیات و ترقیات میں خوب کام کئے۔ گر خان کو روحانی مدد حاصل نہ ہوتی تو جو کام ڈرتے ڈرتے نون لیگ اور پیپلز پارٹی نے کئے تھے پہلی اور دوسری پوزیشن میں کے پی کے سوا ہر کہیں یہی ہوتے۔

اللہ بھلا کرے نیک لوگوں کا ایک جتھہ تھا جنوبی پنجاب میں وہ عمرانی ترقی و کامیابی میں اہم کردار ادا کر گیا، اور وہ محاذ صوبہ کی رحمتوں کی بارش کے برعکس جنوبی پنجاب کیلئے ایڈیشنل چیف سیکرٹری ہی کی ایک بوند پر قناعت کر گیا۔

بات روایتی مگر سچ ہے کہ پی ٹی آئی کا حالیہ بجٹ 2020-21کورونا کنڈیشن کے باوجود قابل قبول اور دلکش ہو سکتا تھا اور مجموعی کارکردگی بھی بہتر ہوتی اگر پی ٹی آئی اپوزیشن کو سیاسی و پارلیمانی و مباحثی اسپیس دیتی، علاوہ ازیں حکومتی معاونین اور مبصرین اپوزیشن پر الزامات دھرنے کے بجائے اپنی کارکردگی کے بیانیے بولتے۔

حکومت کی اپوزیشن کے حوالے سے غیر سیاسی اور جذباتی پالیسی سے اس کا مسلسل گراف گر رہا ہے اور صحت مندانہ مقابلہ وقت کے ساتھ ساتھ پیوند خاک ہی ہوتا دیکھا۔ پارلیمانی طرزِ حکومت کا حسن ہی یہ ہوتا ہے کہ ایوانوں سے گلستانوں و شبستانوں تک اور ریگستانوں سے پہاڑوں تک اپوزیشن کو کھلا ایکو سسٹم دیا جاتا ہے اور انہی حوالوں سے اپنی کارکردگی کو کسوٹی پر پرکھا جاتا ہے۔ ایک زاویہ یہ بھی ہے۔

اپوزیشن بولتی اور عوام کو ورغلاتی رہتی ہے جیسا کہ خان صاحب نے کیا ورنہ میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری کے کھاتے میں بڑے بڑے جمہوری و ترقیاتی و سیاسی کام تو تھے۔ کے پی میں حکومت آنے اور مرکز میں تھمائے جانے کے پیچھے نواز و زرداری مخالف ایجنڈے کے علاوہ تھا کیا؟

سو اپوزیشن گر بولے بھی تو حکومت کے کام بولتے ہیں جو ہنوز نہیں بولے اور حکومت اپنے تجربے کی بنیاد پر معمول کے برعکس اپوزیشن کی طرح بولے جا رہی ہے۔ اہل نظر جانتے ہیں کہ اپوزیشن کے پاس کہنے اور اپنی کارکردگی بتانے کیلئے بہت کچھ ہے۔

یہاں حکومت کے پاس کووڈ 19کے پیچھے چھپنے کے سوا کچھ نہیں بچا۔ دو دن قبل کے وفاقی بجٹ میں ملازمین نے تنخواہوں میں اضافہ نہ ہونے کی تشویش میں آصف علی زرداری کو بہت یاد کیا۔

بات چلی تھی اپوزیشن کی قیادت سے تو اس ضمن میں دیکھا یہ گیا ہے کہ جیسے حکومتی عمران خان کے قصیدے محض چند حلقوں تک محدود رہے ایسے ہی شہباز شریف کی اپوزیشن لیڈری بھی محدود رہی تاہم شاہد خاقان عباسی کا دبنگ انداز، کھلی باتیں، نیب پر دو ٹوک تنقید بلکہ نیب کو ختم کرکے ایف آئی اے وغیرہ میں ضم کرنے کا مطالبہ اور اپنا ٹرائل لائیو چلانے کا کہنا، چینی و پٹرول پر حکومت کو للکارنا اور اپنی جیل حوصلے سے کاٹنے کی پاداش میں عوامی و سیاسی حلقوں سے داد وصول کرنا سیاسی افق پر ایک نئی تابناکی کے مترادف ہے حالانکہ ان کا کوئی ذاتی میڈیا بھی نہیں۔

محض کھرا پن ہی ہے۔ ورنہ میڈیا کے ذکر اور ناقدین کے قلم کیلئے اپوزیشن میں بلاول بھٹو زرداری اور سندھ حکومت کے علاوہ بچتا کیا؟ اپوزیشن کی پولی پولی ڈھولکی احسن اقبال بھی بجا رہے ہیں مگر نون لیگ کی توانا اور بے خوف و خطر آواز محض شاہد خاقان عباسی ہی کی بازگشت ہے۔

جہاں تک بلاول بھٹو زرداری کی بات ہے اس نے بطور اپوزیشن رہنما یقیناً بالغ نظری کا مظاہرہ کیا ہے، اور خوب کیا ہے۔ بڑی دیر بعد یہ دیکھنے میں آیا کہ پیپلز پارٹی نے کسی سطح پر اپنا میڈیا منظم کیا۔ بلاول کا میڈیا سیل قابل ستائش ہے لیکن بلاول سے پنجاب بہت دور ہے، بلاول کو گر کوئی یہ بتائے کہ وہ لاہور کے کوچہ و بازار میں نکلے اور کارکنان سے خود ملے تو یہ گولڈن ٹائم ہے۔ پنجاب میں کائرہ صاحب نے یہ فیشن بنا دیا ہے کہ دانشور بھی خود، سیاستدان بھی آپ، اینکر بھی بننا ہے اور دوستیاں بھی ذاتی۔

اسی ڈگر پر چلنے کے سبب پنجاب کے سبھی جیالے میڈیا پرسن حقیقی میڈیا سے دور ہو چکے، نہ کوئی رابطہ نہ ضابطہ۔ لیڈر ضرور بولے مگر اس کیلئے غیر جانبدار میڈیا جب تک نہ بولے اثرات مرتب نہیں ہوتے! پنجاب پر بھی بلاول ہی کو غور کرنا ہوگا۔ ذہن نشین رہے کہ آج عمران خان جو بھی کہیں یا جو بھی کریں لیکن انہیں وزیراعظم ہاؤس میں پہنچانے میں پچاس فیصد سے زیادہ کردار میڈیا ہی کا ہے۔

امریکہ ہو یا افریقہ، یورپ ہو یا ایشیا میڈیا کے کردار کو فراموش کرنا ممکن نہیں۔ اور ہر کوئی شاہد خاقان عباسی نہیں کہ ذاتی میڈیا کے بغیر بھی ایک گونج اور بازگشت رکھے جس سے اداروں اور حکومت کے دل دہل جائیں۔

بڑی دیر بعد کوئی ایسا شخص دیکھا ہے جس کی اپنی کریڈیبلٹی ہی اس کی آواز بنی اور میڈیا ہم آواز بن گیا اور عوام انہیں اپوزیشن کا وہ استعارہ سمجھنے لگے جس میں سیاق و سباق ہے اور قافیہ و ردیف بھی۔

لگتا ہے عہد حاضر کی سیاسی وبا کے علاوہ کورونا بجٹ پوسٹ حکمت عملی اور زبان و بیان بلاول بھٹو زرداری اور شاہد خاقان عباسی کے قائدانہ نکھار میں مزید رنگ بھریں گے!

تازہ ترین