نامور ہدایت کار نذرالسلام نے اقبال کاشمیری کے بارے میں بڑے تاریخی الفاظ کہے۔ انہوں نے کہا ’’اتنے چھوٹے قد کے آدمی نے اتنی بڑی فلم بنائی، میں حیران ہوں، واہ اقبال کاشمیری واہ‘‘ یہ الفاظ سن کر اقبال کاشمیری آبدیدہ ہوگئے تھے۔
اقبال کا شمیری فلمی صنعت کے ایک ایسے ہدایت کار ہیں، جنہوں نے محنت اور مسلسل جدوجہد اور ہر طرح کے نشیب و فراز کے ساتھ اپنے فنی کیریئر کا آغاز کیا۔ اپنے طویل سفر میں انہیں دُکھ بھی ملے اور سکھ بھی دیکھے۔ 1942ء میں لاہور شہر میں پیدا ہونے والے اقبال کے والد کریم بخش لاہور کے دہلی دروازے کے پاس کھانے پینے کا ایک چھوٹا سا ہوٹل چلاتے تھے۔ اقبال کے والدین انہیں پڑھانا چاہتے تھے، لیکن ان کی طبیعت کھیل کودکی طرف مائل تھی، وہ لکھنے پڑھنے سے بھاگتے تھے۔
بچپن ہی سے فلم بینی کا شوق تھا، نہ صرف فلم دیکھتے بلکہ محلے کے بچوں کی ایک ٹیم بنا کر ان کے ساتھ شوٹنگ شوٹنگ کھیلتے تھے۔ ان بچوں کو مختلف گیٹ اپ کروا کر خود ہدایت کار بن کر ان سے مختلف فلموں کی نقلیں کرواتے تھے۔ فلم کا یہ شوق انہیں ایک روز شاہ نور اسٹوڈیو لے گیا۔ یہ 1954ء کا ذکر ہے، ہدایت کار امین ملک کی فلم ’’دیوار‘‘ کی شوٹنگ ہورہی تھی۔ اس فلم میں کچھ ایکسٹرا کی ضرورت تھی، اس فلم میں وہ بہ طور ایکسٹرا شامل ہوگئے۔ ہدایت کار امین ملک نے ان کے چھوٹے قد کی وجہ سے ’’نِکو‘‘ کا نام دیا اور اس طرح و ہ ’’نِکو‘‘ کے نام سے فلمی صنعت میں متعارف ہوگئے۔
جب ان کے والد صاحب کو معلوم ہوا کہ ان کا بیٹا ایکٹر بننے کے خواب دیکھ رہا ہے، تو وہ سخت برہم ہوئے، یہاں تک کہہ دیا کہ’’ اقبال کی ماں اپنے بیٹے کو سمجھادو اگر وہ نہیں مانا تو میں تمہیں طلاق دے دوں گا۔‘‘ 14؍ سال کے نوجوان اقبال پر والدکے یہ الفاظ بجلی بن کر گرے، ان کی والدہ نے اپنے بیٹے کے لیے خُوب دعائیں کیں، ان کے محلے میں معروف اداکار الیاس کاشمیری کے بھائی رہتے تھے، جو ان کی والدہ کو خالہ کہتے تھے، ایک روز ان کے توسط سے اقبال، الیاس کاشمیری سے ملا، جو مال روڈ کے کیسیلز ہوٹل کے پیچھے رہتے تھے، اقبال ان کے پاس رہنے لگا، تایا الیاس کاشمیری کے تمام کام کرتا رہا، یہاں تک کہ کپڑے استری کرنا، جوتوں کو پالش کرنا، تایا الیاس نے انہیں رائل پارک میں ملک فلمز کے دفتر میں چھ آنے روز پر ملازم کروادیا۔ انہی دنوں اس ادارے کی پنجابی فلم ’’یکے والی‘‘ زیر تکمیل تھی۔ ایک روز فلم کے ہدایت کار ایم جے رانا اور دیگر لوگ دفتر میں بیٹھے میٹنگ کررہے تھے، اقبال ان کے لیے چائے لےکر آیا اور کہا رانا صاحب مجھے اداکاری کا شوق ہے، کچھ مکالمے سنائے اور اداکاری بھی کرکے دکھائی، جسے دیکھ کر ایم جے ر انا نے انہیں فلم ’’یکے والی‘‘ میں اداکارہ مسرت نذیر کے چھوٹے بھائی کا کردار سونپا۔
اس فلم میں کام کرنے کے بعد اقبال ’’نِکو‘‘ کے نام سے ملک اسٹوڈیو سے وابستہ ہوگیا۔ ’’نِکو‘‘ اپنے قد کاٹھ اور آواز کی وجہ سے ہیرو تو بن نہ پائے، لیکن اس نے فیصلہ کیا کہ فلم کے اس شعبے میں قسمت آزمائی کی جائے، جو تمام شعبوں پر بھاری ہوتا ہے۔ وہ شعبہ ہدایت کاری کا تھا اور پھر اقبال نے اس شعبے میں اپنی دل چسپی لینا شروع کردی۔ اس دوران انہوں نے ایم جے رانا، امین ملک کے علاوہ ہدایت کار خلیل قیصر کی ’’ناگن‘‘ میں بھی ان کی معاونت کی۔ اس فلم میں وہ رتن کمار کے ڈپلی کیٹ بھی بنے۔ ناگن کے بعد وہ کلرک میں بھی خلیل قیصر کے شاگرد تھے۔
ہدایت کار اسلم ایرانی کی فلم ’’بہروپیا‘‘ میں وہ ان کے اسسٹنٹ ہوگئے۔ اقبال کاشمیری نگار خانوں میں معاون ہدیات کار کے طور پر اپنے آپ کو منوا چکے تھے۔ اقبال کاشمیری کو صحیح معنوں میں تراشنے کا کام مصنف و ہدایت کار عزیز میرٹھی نے کیا۔ انہوں نے اقبال کو لکھنے پڑھنے میں معاونت کی اسی محبت میں وہ کہانی لکھنے کے اسرار و رموز سے بھی واقف ہوگئے۔ بہ طور کہانی نویس اقبال کاشمیری نے ’’عشق نہ پچھے ذات‘‘، ’’ویر پیارا‘‘ اور ’’کونج وچھڑ گئی‘‘ نامی فلموں کی کہانیاں لکھیں۔
ہدایت کار عزیز میرٹھی کے وہ ہونہار شاگرد ثابت ہوئے، ان کی بنائی ہوئی اکثر فلموں میں وہ معاون ہدایت کار اور چیف اسسٹنٹ کے طور پر کام کرتے رہے۔ ڈائریکشن سے وابستہ رہنے کے باوجود وہ اداکاری بھی کرتے رہے۔ حُسن و عشق، ہزار داستان، لالہ رخ، پرستان، عالیہ، ستمگر نامی فلموں میں انہوں نے بہت خُوب صورت اداکاری کے جوہر پیش کیے۔ ہدایت کار آغا حسین کی کاسٹیوم فلم ’’کوہ نور‘‘ میں وہ چیف اسسٹنٹ کے طور پر شامل تھے۔ اس فلم کے پروڈیوسر راجا غضنفر علی فلم کی تکمیل کے دوران اقبال کاشمیری کی ذہانت اور کام سے بہت متاثر ہوئے۔
یہ وہ دور تھا، جب اقبال کی والدہ نے ان کی شادی ماضی کے اداکار حامد حسین کی بیٹی سے طے کردی تھی۔ حامد حسین، معروف ٹیسٹ کرکٹر محمود حسین کے بھائی تھے۔ چیف اسسٹنٹ اور کہانی نویس کے بعد 1970ء میں بہ طور ہدایت کر اقبال کاشمیری کا نام پہلی بار پنجابی فلم ’’ٹیکسی ڈرائیور‘‘ میں آیا۔ پہلی فلم ہی ان کی سپر ہٹ ہوگئی۔ اس فلم کی کام یابی نے ان کی معاشی حالت کو بھی تبدیل کردیا، وہ اپنی والدہ کو لےکر نئے مکان جو سمن آباد میں تھا، وہاں شفٹ ہوگئے۔
اپنی کام یابی میں وہ اپنی والدہ کی دعائوں کو بڑی اہمیت دیتے ہیں۔ ٹیکسی ڈرائیور کی کام یابی کے بعد اس کے فلم ساز نے اقبال کاشمیری کو اپنی اگلی پنجابی فلم ’’بابل‘‘ کی ڈائریکشن سونپی، جو ریلیز ہونے کے بعد ٹیکسی ڈرائیور سے بھی زیادہ کام یاب رہی، اس فلم میں سلطان راہی نے جبرو بدمعاش کا یادگار کردار کیا، جو ان کے فنی کیریئر کا پہلا یادگار کردار تھا۔ یہ فلم 1971ء میں ریلیز ہوئی تھی۔
اقبال کاشمیری کی دو فلموں کی کام یابی کے بعد انہیں تیسری فلم ’’یاردیس پنجاب دے‘‘ ملی، جس کے پروڈیوسر علی عباس سید تھے۔ یہ فلم ریلیز ہونے کے بعد بے حد کام یاب رہی۔ 1973ء میں بلاک بسٹر پنجابی کلر فلم ’’ضدی‘‘ نے انہیں بہت بڑا ہدایت کار بنادیا۔ یہ ایسے سبجیکٹ اور ٹریٹمنٹ کے حوالے سے ایک ایسی پنجابی فلم تھی، جس کے نغمات، موسیقی، مکالمے، اسکرین پلے اور کامیڈی لوگ آج بھی یاد رکھے ہوئے ہیں۔
اداکار یوسف خان نے ضدی کے کردار کو اپنی اداکاری سے امر کردیا،جب کہ انصاف پسند چوہدرانی کے لازوال کردار کو اداکارہ نبیلہ نے اپنی عمدہ کردار نگاری سے یادگار بنایا۔ ضدی کے ایک گانے ’’چھڈ میری بیڑیں نہ مروڑ‘‘ نے ممتاز کو عروج بام تک پہنچایا۔ اسی سال اقبال کاشمیری کی ایک اور سپر بلاک بسٹر پنجابی فلم ’’بنارسی ٹھگ‘‘ نے پورے پاکستان میں ریکارڈ بزنس کیا۔ اداکار منور ظریف کو کامیڈی اداکار سے ہیرو بنانے والی اس فلم میں الیاس کاشمیری نے ان کے استاد کا یادگار کردار کیا۔ بنارسی ٹھگ کے بعد شہنشاہ ، پگ تیری ہتھ میرا، سستا خون مہنگا پانی ریلیز ہو کر ناکام رہیں۔ 1974ء میں سپر ہٹ موسیقی سے آراستہ پنجابی فلم ’’جادو‘‘ نے ایک بار پھر باکس آفس پر اقبال کاشمیری کی پوزیشن کو مضبوط بنالی۔
اس رومانی ایکشن فلم میں ممتاز اور شاہد نے مرکزی کردارا دا کیے۔ خاص طور پر اس فلم کا ایک گانا ’’جادوگرا او جادو گرا تیری بین دا ہوگیا جادو‘‘ پر ممتاز کا رقص دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ اس گانے کی بنا پر کراچی کے جوبلی سنیما پر مرد فلم بینوں کے علاوہ خواتین فلم بین بھی بڑی تعداد میں نظر آئی تھیں۔اقبال کاشمیری نے لاتعداد فلموں کی ڈائریکشن دی اور کئی فن کاروں کو متعارف کروایا۔ان دنوں وہ شدید علیل ہیں۔میرا رب انہیں جلد سحت عطا کرے۔ آمین