1951ء میں پاکستانی سنیما میں فلم ساز و ہدایت کار امین ملک نے پہلی بار ایک فلم ’’پنجرہ‘‘ میں ڈبل رول کی اصطلاح کو متعارف کرایا۔ یہ ڈبل رول انہوں نے خود کرکے فلم بینوں کو محوحیرت میں مبتلا کردیا تھا۔ امین ملک جنہوں نے نہ صرف فلم سازی و ہدایت کاری کے میدان میں جوہر کھائے، بلکہ بہ طور اداکار بھی وہ چند فلموں میں آئے۔
تقسیم ہند سے قبل وہ فلموں میں میک اپ آرٹسٹ اور بہ طور اداکار وہ کام کرتے رہے۔ پاکستان میں انہوں نے مصنف نذیر اجمیری کی کہانی پر ایک ڈرامائی ایکشن فلم ’’پنجرہ‘‘ بنائی۔ اس سے قبل 1950ء میں بہ طور ہدایت کار ان کی پہلی فلم ’’جدائی‘‘ ریلیز ہوچکی تھی۔ ’’پنجرہ‘‘ کو پہلی اردو ایکشن فلم کا اعزاز بھی حاصل ہوا، جب کہ اداکارہ صبیحہ خانم بہ طور سولو ہیروئن پہلی بار اسی فلم میں آئیں۔ کہانی کا پس منظر ہندو سماج سے تعلق رکھتا ہے۔ اس لیے تمام کرداروں کے نام اور لباس کا بھی تعلق ہندو مذہب سے تھا۔
صبیحہ نے سنیتا کا کردار ادا کیا، جب کہ فلم کے ہیرو مسعود کا نام دلیپ رکھا گیا۔ امین ملک نے ماسٹر اور نندو کے دہرے کرداروں میں منفی اور مثبت کردار کیے۔ کہانی کا مختصر پس منظر کچھ یُوں ہے کہ ماسٹر جو دولت کمانے کے لیے بے بس اور مجبور لڑکیوں کو اپنے جال میں پھنسا کر اسٹیج پر ناچ گانا کرواتا تھا۔ ایک مظلوم لڑکی سنیتا بھی اس کے جال میں پھنس کر اس کے دولت کمانے کا ذریعہ بنی ہوئی تھی۔
دلیپ ایک روز سنیتا کا اسٹیج شو دیکھ کر اسے چاہنے لگتا ہے۔ دلیپ کا مسخرہ دوست نندو جو اسٹیج کے مالک ماسٹر کا ہم شکل تھا، وہ سنیتا اور دلیپ کی ملاقات کروانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ سنیتا، دلیپ کو اپنی کہانی سناتی ہے کہ وہ ماسٹر کے ہتھے کیسے چڑھی۔ ماسٹر ایک بہت ہی مکار اور ظالم انسان ہے، جو صرف دولت کا پجاری ہے۔ دلیپ اپنے دوست نندو کی مدد سے ماسٹر کے اصل چہرے کو قانون کے سامنے بے نقاب کرکے اس کے پنجرے میں قید مظلوم اور بے بس لڑکیوں کو رہائی دلاتا ہے۔ ماسٹر جس کا نام دانش تھا، اسے آخرکار سلاخوں کے پیچھے جانا پڑتا ہے۔
اس کہانی کو ہدایت کار امین ملک نے دوبارہ پنجابی فلم ’’پیداگیر‘‘ میں بھی فلمایا تھا، جس میں اداکار اکمل نے ڈبل رول کیا تھا۔ فردوس نے ہیروئن کا کردار ادا کیا تھا۔
یہ ایک فارمولا کہانی کے طور پر کئی بار پاکستان اور بھارت میں فلمائی گئی۔ پاکستان میں اس کہانی پر دیگر چند فلمیں جو فلمائی گئیں، ان میں ’’مٹی دیاں مورتاں‘‘ ’’سادھو اور شیطان‘‘ ’’دو رنگیلے‘‘ ’’راجا جانی‘‘ کے نام شامل ہیں۔