کورونا کی تباہ کاریاں جاری ہیں، روزانہ کسی نہ کسی کے اس موذی مرض میں مبتلا ہونے کی خبر ملتی ہے اور طبیعت پریشان ہوجاتی ہے۔ نامور صحافی اور ’’ایک دن جیو کے ساتھ‘‘ کے میزبان سہیل وڑائچ بہت سینئر صحافی ہیں اور بہت سی کتابیں تحریر کرچکے ہیں، ہم نے ان کی مزاج پرسی کی۔ معلوم ہوا کہ حالت بہتر ہے۔ دوسری جانب قرنطینہ میں تو ہماری ہردل عزیز فن کارہ روبینہ اشرف بھی ہیں۔ روبینہ ٹیلی ویژن کی بہت باصلاحیت اور خُوب صورت فن کارہ ہیں، جنہوں نے اپنی بے مثال اداکاری سے لوگوں کے ذہن و دل پر انمٹ نقوش چھوڑے ہیں۔ روبینہ کو سب سے پہلے ہم نے لاہور مرکز پی ٹی وی کے ڈراما سیریل ’’ہزاروں راستے‘‘ میں دیکھا تھا۔
عمدہ کردار نگاری اور معصوم چہرے کی دِل کش مسکراہٹ نے سبھی کو روبینہ اشرف کا گرویدہ بنا لیا۔ لاہور سے اس زمانے میں صبا پرویز اور ان کی بہن ہما حمید کے ڈراموں کی بھی خُوب دُھوم تھی۔ منجھی ہوئی اداکارہ عظمیٰ گیلانی اور روحی بانو کا طوطی بولتا بھی تھا۔ اس وقت ایسے میں روبینہ نے اپنے آپ کو منوایا پھر ان کی شادی ہوگئی تو لاہور سے کراچی شفٹ ہوگئیں۔ کراچی آکر روبینہ نے بہت شان دار ڈراما سیریلز میں کام کیا۔ کاظم پاشا کا ڈراما سیریل ’’سیڑھیاں‘‘ میں روبینہ اشرف نے ایک غریب اور مظلوم لڑکی کا کردار عمدگی سے نبھایا اور اپنے فن کی دھاک بٹھا دی۔ پھر انہیں حسینہ معین کی سیریل ’’کسک‘‘ میں کام کرنے کا موقع ملا۔ ’’کسک‘‘ اس دور کا ڈراما تھا، جب خواتین کے لیے سر پر دوپٹہ رکھنا لازمی ہوتا تھا۔
سُنا ہے ’’کسک‘‘ کے مرکزی کردار ’’سبرینا‘‘ کے لیے پہلے ساحرہ کاظمی سے بات ہوئی تھی اور چوں کہ اس وقت وہ خود پروڈیوسر تھیں، اس لیے پی ٹی وی ہیڈ کوارٹر سے خصوصی اجازت بھی لی گئی۔ تاہم بعد میں ساحرہ کاظمی نے معذرت کرلی اور پھر محسن علی جو ’’کسک‘‘ کے ہدایت کار تھے، انہوں نے روبینہ اشرف کو اس کردار کے لیے کاسٹ کرلیا۔ یہاں یہ بات بھی اہم ہے کہ اس سے قبل ساحرہ کاظمی اور حسینہ معین کا معرکہ الآرا سیریل ’’دھوپ کنارے‘‘ میں مرینہ خان کی دوست ’’انجی‘‘ کا کردار پہلے روبینہ کو آفر ہوا تھا، جو انہوں نے قبول نہیں کیا پھر یہ کردار کہکشاں اعوان نے نبھایا تھا۔
’’کسک‘‘ ڈرامے میں روبینہ اشرف نے جَم کے اداکاری کی اور ان کا شمار صف اول کی اداکارائوں میں ہونے لگا۔ ’’کسک‘‘ میں جہانزیب گورچانی، فضیلہ قاضی اور خالد انعم نے بھی عمدہ کام کیا تھا۔ ’’کسک‘‘ کے بعد روبینہ نے بہت سے ڈرامے کیے۔ ’’شی جی‘‘ بھی ان کا ایک بہت شان دار ڈراما تھا۔ روبینہ اشرف کے ساتھ پہلی بار ہم نے جس ڈرامے میں کام کیا، وہ ’’پس آئینہ‘‘ تھا۔ ’’پسِ آئینۂ‘‘ ایک دل چسپ ڈراما سیریز تھی، جس میں روبینہ اشرف نے ایک پولیس افسر کا کردار بہت خوبی سے ادا کیا۔
’’پس آئینہ‘‘ میں روبینہ کے ساتھ اس کی ماتحت پولیس افسر کا کردار فریدہ شبیر نے ادا کیا تھا، جو بہت اچھا میک اپ کرتی تھیں اور ڈرامے میں فن کاروں بالخصوص روبینہ کا میک اپ تو وہی کرتی تھیں۔ ’’پس آئینہ‘‘ کے بعد روبینہ اور ہم ایک لانگ پلے میں اکٹھے ہوئے۔ اس ڈرامے میں راحت کاظمی بھی تھے۔ ڈرامے کی ریکارڈنگ رمضان المبارک میں ہوئی۔ یہ ہارون لغاری اور لیلیٰ لغاری کا ڈراما تھا، جس میں روبینہ نے ہمیشہ کی طرح بہت عمدہ کام کیا۔ اداکاری کے ساتھ ساتھ روبینہ کو ڈائریکشن کا بھی شوق ہے اور انہوں نے بہت سے ڈراموں کی ہدایات بھی دی ہیں۔
کورونا نے ہماری اس باصلاحیت فن کارہ کو علیل کردیا ہے۔ رب سے دعا ہے، وہ جلدی صحت یاب ہوں اور پھر سے اسکرین پر جلوہ گر ہوں۔صحت یابی کی دُعا تو ہماری سکینہ سموں کے لیے بھی ہے۔ خبر ملی کہ سکینہ سموں کو پچھلے دِنوں کورونا ہوگیا تھا، مگر الحمدللہ اب وہ بہتر ہیں۔ معروف ادیب اور ڈراما نگار زیب سندھی کے ذریعے ان کی خیریت کی اطلاع ملی۔ سکینہ سموں اور ہمارا بہت پُرانا ساتھ ہے۔ ہم نے جب ڈراموں میں کام کرنا شروع کیا تھا، سکینہ اس وقت عروج پر تھیں۔ ہم پہلی بار کوئٹہ سینٹر کےڈرامے ’’پالے شاہ‘‘ کی ریکارڈنگ کے لیےگئے تھے اور اس کے لیے ہم سکینہ کے مشکور ہیں کہ انہوں نے ہی ’’پالے شاہ‘‘ کے لیے ہمارا نام تجویز کیا تھا۔ ’’پالے شاہ‘‘ تاریخی ڈراما سیریل تھا، جس کی زیادہ تر ریکارڈنگ آئوٹ ڈور ہوئی۔ اتفاق ہے کہ وہ سردیوں کا زمانہ تھا اور کوئٹہ کی یخ بستہ ہوائوں میں ہم پہاڑوں میں شوٹنگ کیا کرتے تھے۔
برف باری اور سخت موسم میں بھی ہماری ریکارڈنگ جاری رہی۔ سکینہ سموں، جمال شاہ، آصف شاہ، اصل دین، محمد نواز اور ہمارے علاوہ ’’پالے شاہ‘‘ میں فریال گوہر نے بھی کام کیا۔ ’’پالے شاہ‘‘ کے بعد سکینہ برطانیہ چلی گئی تھیں، پھر کچھ عرصے بعد وطن لوٹیں اور دوبارہ ڈراموں میں مصروف ہوگئیں۔ سکینہ کے یادگار ڈراموں میں ’’دیواریں‘‘ ’’جنگل‘‘ ’’چھوٹی سی دُنیا‘‘ ’’حوا کی بیٹی‘‘ ’’ماروی‘‘ اور ’’پانی پر لکھا تھا‘‘ خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں۔ سکینہ کے تمام ہی ڈرامے اچھے ہیں، لیکن ہمیں ذاتی طور پر ’’حوا کی بیٹی‘‘ بہت پسند ہے۔ اس ڈرامے کی ہدایات ساحرہ کاظمی کی تھیں، جب کہ فن کاروں میں قاضی واجد، سکینہ سموں، نِدا کاظمی، آدرش ایاز، شہوار رحیم شامل تھے۔ سکینہ ہمیں عزیز ہیں اور ہم ان کی صحت کے لیے دعاگو ہیں۔ اللہ سب کو شفا دے۔ ہمارے کھلاڑی، سیاستدان، فن کار، صحافی سبھی اس کورونا کی لپیٹ میں آرہے ہیں۔ کسی اچھی خبر کو سُننے کے لیے کان ترس گئے ہیں، روزانہ کسی نہ کسی کی افسوس ناک خبر سننے کو ملتی ہے۔
پہلے صبیحہ خانم کی امریکا میں انتقال کی خبر آئی اور اس کے چند دن بعد ہی پاکستان کے نامور کمپیئر طارق عزیز کی وفات کی خبر ملی۔ بچپن سے لے کر آج تک جس چہرے کو ہم ٹیلی ویژن اسکرین پر دیکھتے رہے، جس کی آواز سُنتے رہے، وہ سچا فن کار، وہ کھرا انسان جو مُحب وطن پاکستانی تھا، جس کی علمیت، قابلیت اور صلاحیتوں کے سبھی معترف تھے، وہ طارق عزیز چل بسا۔ سوچ رہے ہیں طارق عزیز کا ذِکر کہاں سے شروع کریں، اپنے بچپن سے! ہاں یہی مناسب ہے۔ بہت عرصے قبل کی بات ہے، جب ٹیلی ویژن پر ’’نیلام گھر‘‘ شروع ہوا، ہمارے والد اس کوئز شو کے سوالات مرتب کیا کرتے تھے۔ کوئز شو میں سوالات کے صحیح جوابات دینے پر انعامات دییے جاتے تھے۔ بیت بازی اور گیم شو جسے آج کل بڑا فروغ مل رہا ہے، اس کی بنیاد ’’نیلام گھر‘‘ سے ہی پڑی ہے۔ بیت بازی کا مقابلہ ’’نیلام گھر‘‘ میں ضرور ہوتا تھا کہ خود طارق عزیز کو شاعری سے بے پناہ شغف تھا۔