پنجاب کے وزیرِ اطلاعات فیاض الحسن چوہان نے کہا ہے کہ شہباز شریف کی سیاست خط بازی اور بیان بازی تک محدود ہو گئی ہے۔
ایک بیان میں وزیرِ اطلاعات پنجاب فیاض الحسن چوہان نے مسلم لیگ نون کے صدر اور قومی اسمبلی میں قائدِ حزبِ اختلاف میاں محمد شہباز شریف کی جانب سے اسپیکر قومی اسمبلی کو خط لکھنے پر اپنے ردِعمل کا اظہار کرتے ہوئے انہیں تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
فیاض الحسن چوہان کا یہ بھی کہنا ہے کہ شہباز شریف عملی سیاست میں حصہ لیں تو زیادہ بہتر رہے گا۔
واضح رہے کہ قومی اسمبلی میں قائدِ حزب اختلاف میاں محمد شہباز شریف نے اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کے نام خط لکھا ہے جس میں کہا ہے کہ موجودہ حکومت میں دیگرشعبوں کی طرح میڈیا بھی انتہائی تباہ کن حالات سے دوچار ہے، حکومت انتہا پسندی کے اس درجے پر پہنچ چکی ہے کہ تنقید سے باز نہ آنے والے اداروں کے مالکان پر مقدمات کا سلسلہ شروع کر دیا گیا ہے، میر شکیل الرحمٰن کی گرفتاری اس کی واضح ترین مثال ہے۔
مسلم لیگ نون کے صدر محمد شہباز شریف کے اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کے نام لکھے گئے خط میں کہا ہے کہ آپ کی توجہ قانون، دستور اور جمہوریت کی صریحاً خلاف ورزی کی جانب مبذول کرانا چاہتا ہوں۔
شہباز شریف نے کہا ہے کہ حکومت نےمیڈیا کی آواز دبانے کے لیے پہلے اشتہارات کی بندش جیسے آمرانہ اقدامات کا سہارا لیا، پھرمیڈیا پر دباؤ بڑھانے کے لیے مختلف اینکرز کے پروگرامز اور کالمز کی اشاعت پر پابندی لگا دی، حکومتی نظر میں ’ناپسندیدہ‘ قرار پانے والے صحافیوں کو بے روزگار کرنے کی منظم حکمتِ عملی اپنائی گئی ہے۔
شہباز شریف نے مزید لکھا ہے کہ میر شکیل الرحمٰن کی گرفتاری کو وکلاء برادری اور صحافتی تنظیمیں بھی انتقامی کارروائی قرار دے چکی ہیں، یہ معاملہ میڈیا کی آزادی کے حوالےسے موجودہ حکومت کی عدم برداشت کا ثبوت ہے۔
یہ بھی پڑھیئے:۔
متحدہ اپوزیشن اپنی آنکھوں اور کانوں کا علاج کروائے، فیاض چوہان
انہوں نے کہا ہے کہ حکومتی اختیار ہر اس آواز کو خاموش کرانے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے جو ’حکومتی سچ‘ کو ماننے سے انکاری ہے، دستور پاکستان میں آزادیٔ اظہارِ رائے اور اطلاعات تک رسائی ایک بنیادی حق تسلیم کیاگیا ہے، جمہوریت اور دستور کی حکمرانی میں میڈیا ریاست کا چوتھا اور باوقار ستون تصور ہوتا ہے۔
شہباز شریف نے مطالبہ کیا کہ میر شکیل الرحمٰن کو فوری رہا اور چینل 24 کی بندش فی الفور ختم کرائی جائے، قاعدے قانون سے متعلق امور حل کرنے کے لیے پارلیمانی کمیٹی تشکیل دی جائے، امید ہے کہ آپ پارٹی وابستگی یا وزیرِ اعظم عمران خان کے دباؤکی بجائے آئین، جمہوریت اور ریاست کے چوتھے ستون کو مدِنظر رکھ کر فیصلہ کریں گے۔