انتخابات میں کامیابی کے بعد تحریک انصاف نے موج مستی سے میدان سنبھالا۔ پاکستانیوں کو امید تھی کہ گورننس اور اُن کے معیار ِ زندگی میں بہتری آئے گی ۔ لیکن دوسال بعد ہی جانثار حامیوں پر مایوسی کی اوس گرنے لگی۔ تحریک ِانصاف کی ناکامی کی ایک وجہ وہ جھوٹا وعدہ ہے جس کی بنیاد پر اس نے ووٹ حاصل کیے تھے ۔ عمران خان کا مرکزی بیانیہ یہ تھاکہ اُن کی پارٹی کے سوا تمام سیاست دان بدعنوان ہیںاور بدعنوانی ہی وہ واحد خرابی ہے جس نے پاکستان کی ترقی کاراستہ روک رکھا ہے۔ ترقی اور خوشحالی کے لیے تمام پاکستانیوں کو فقط یہ کرناہے کہ اُنہیں اقتدار میں پہنچائیں اور پھر دیکھیں کہ کس طرح ڈالروں کی بارش ہوتی ہے ۔
تحریک ِانصاف کی نالائقی کے زرد پتوں اورٹوٹے ہوئے وعدوں کی کرچیوں کے سنگ یوٹرن بگولوں کی مانند رقص کناں ہیں۔ عوام کو اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آرہا۔ عوام کی خدمت میں پہلی پیش کش ادویہ کی قیمت میں ہوش ربا اضافہ تھاجسے مہنگائی یا کرنسی کی گراوٹ سے کوئی مناسبت نہ تھی ۔قہر میں آکر وزیر ِصحت کو تبدیل کردیااور قیمتیں کم کرنے کا وعدہ کیاگیا۔ قوم کو تاحال انتظار ہے ۔ اس کے بعد پولیو کیسز کی گنتی بڑھنے لگی۔ پاکستان مسلم لیگ نون نے اس مرض پرکم وبیش قابو پالیا تھا۔ 2017 میں آٹھ ، جبکہ جولائی 2018 تک صرف تین کیسز سامنے آئے تھے ۔ عالمی ادارے پاکستان سے پولیو کے خاتمے کا اعلان کرنے جارہے تھے ۔ لیکن کارکردگی کا جادو سر چڑھ کر بولا۔ 2019 میں 153 کیسز نے خطرے کی گھنٹی بجا دی۔ 2010میں پنجاب میں ڈینگی تیزی سے پھیلاتھا۔ اس موذی مرض سے لڑنے کے لیے شہبازشریف نے پنجاب بیوروکریسی سے جنگی بنیادوں پر کام لیا۔ وزیر ِاعلیٰ پنجاب روزانہ صبح چھ بجے ڈینگی میٹنگ شروع کردیتے۔ کسی افسر کے تاخیر سے پہنچنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ اُنھوںنے نجی لیبارٹریوں کو ہدایت کی کہ 90روپے میں ڈینگی ٹیسٹ کیا جائے۔ ڈینگی پر قابوپالیا گیا اور پھر دوبارہ اُن کے دور میں اس مرض نے سر نہ اُٹھایا۔ عثمان بزدار کی وزارت ِاعلیٰ کے پہلے برس ہی ڈینگی لوٹ آیااور اُس وقت ختم ہوا جب سردیوں میں مچھروں کی افزائش رک جاتی ہے ۔
پشاور میٹرو کارکردگی کا منہ بولتا پیمانہ ہے ۔ تحریک انصاف کی حکومتوں کادوسال سے زیادہ عرصہ، لاگت کے تخمینے سے 100 گنا زیادہ رقم خرچ کرنے کے باوجود اس کے افتتاح کا انتظارہے۔ جب تحریک ِانصا ف اقتدار میں آئی تو لاہور کی اُورنج لائن اور کراچی کی گرین لائن تکمیل سے چند ماہ کی دوری پر تھیں ۔ یہ ہنو زفعال نہیں ہوسکیں۔دسمبر 2018 میں ایل این جی درآمد نہ کرنے کا فیصلہ کیا تھا، چنانچہ لوڈ شیڈنگ کرنی پڑی۔ شاید اسی ’’کارکردگی‘‘ نے وزیر ِپٹرولیم کو ہوابازی کی وزارت سے بہرہ مند کیا تھا۔ ایک مرتبہ اُسی تجربے کو دہراتے ہوئے رواں سال اپریل میں پٹرولیم کی مصنوعات درآمد نہ کی گئیںحالانکہ وارننگ تھی کہ ملک میں ایندھن کی قلت واقع ہورہی ہے ۔ جون میں پی ٹی آئی نے پٹرول کی قیمتیں کم کردیںلیکن سپلائی کو برقرار نہ رکھا۔ اس کے بعد مہینہ ختم ہونے سے چار دن پہلے قیمت میں 33 فیصد اضافہ کرتے ہوئے پچیس روپے فی لٹر قیمت بڑھا دی۔ آج صارفین کے پٹرول پر خرچ کردہ ہر سو روپے میں سے پینتالیس حکومت کے پاس جاتے ہیں۔ غالباً اب یہ کسی کی ذاتی جیب میں تو نہیں جاتے ہوں گے؟ مجھے یقین ہے کہ نہیں جاتے ہوں گے۔ لیکن پھر پی ٹی آئی میں یہ تسلیم کرنے کی اخلاقی جرات ہونی چاہیے کہ جب وہ الزام لگاتی تھی کہ ٹیکس کی رقم حکمرانوں کی جیب میں جارہی ہے تو وہ غلط تھی ۔ وہ الزام جھوٹ تھا۔ حال ہی میں وزیر ِہوابازی نے کسی تحقیقات اور پیش بندی کے بغیر اعلان کردیا کہ ہمارے سینکڑوں پائلٹوں کے لائسنس جعلی ہیں۔ نتیجہ ظاہر تھا۔ اس وقت تک یورپی یونین اور برطانیہ نے پی آئی اے پر پابندی لگادی ہے ۔ ویت نام میں پاکستانی پائلٹوں کی خدمات معطل کردی گئی ہیں۔ حکومت ابھی حماقتوں سے دست کش ہونے کے لیے تیار نہیں۔ جب دنیا بھر کی مارکیٹوں میں مندی ہے ، حکومت روز ویلٹ ہوٹل فروخت کرنے پر تل گئی ہے ۔ یہ نیویارک میں پی آئی اے کا سب سے بڑا اور منافع بخش اثاثہ ہے ۔ درست ہے کہ کھلی حماقت دشمنی نہیں ہوتی، لیکن تحریک انصاف کی کچھ حماقتیں دیکھ کرانسانی عقل واقعی ورطہ ٔ حیرت میں پڑ جاتی ہے۔میر اخیال ہے کہ تحریک انصاف کی سب سے خطرناک ناکامی مالیاتی شعبے میں ہے ۔ حکومت کے لیے محصولات کا حجم بڑھانے کا آسان طریقہ کرنسی کی قدر گرانا اور مہنگائی میں اضافہ کرنا تھا۔ پاکستان جیسے ملک میں جہاں نصف کے قریب ٹیکسز بندرگاہ سے آتے ہیں، روپے میں درآمدات کی قیمت میں اضافے کا مطلب محصولات میں اضافہ تھا۔ مزید یہ کہ ہمارے زیادہ تر ٹیکسز براہ ِراست ہیںجو اشیا پر وصول کیے جاتے ہیں۔ گویا مہنگائی کی صورت میں وود ہولڈنگ، سیلز اور ایکسائز کے حجم میں اضافہ ہونا چاہیے تھا۔ اس کے باوجود دو سال میں حکومت محصولات بڑھانے میں ناکا م رہی ہے حالانکہ اس نے 1000 ارب روپے کے نئے ٹیکسز لگائے ہیں۔
اس کے بعد اسٹیٹ بینک ہے جس کے سود کے نرخوں کی پالیسی غیر ملکی سرمایہ کاروں کے لئےنفع بخش ہے لیکن اس نے حکومت کے فنانس کے شعبے اور صنعت کے پائوں اکھاڑدیے ہیں۔ حال ہی میں اسٹیٹ بنک نے ڈسکائونٹ ریٹ ایک فیصد کم کردیے ۔ لیکن اس سے ایک دن پہلے حکومت نے 121 ارب روپے مالیت کے طویل المدت بانڈبلند شرح سود پر فروخت کیے تھے ۔ اس طرح ہم اگلے تین سے بیس سال تک ان بانڈز پر فالتو سود ادا کرتے رہیں گے ۔تحریک ِانصاف کے بہت سے حامی حکومت کی بدانتظامی سے سخت مایوس ہیں۔ وہ دیکھ رہے ہیں کہ اس کے رہنما بیان بازی کی دنیا سے نکل کر قومی رہنما نہیں بن سکے۔ ان کے رویے سے نہیں لگتا کہ وہ کچھ سیکھنے کے لیے تیار ہیں۔