آٹا چینی، پیٹرول سیکنڈل نے جہاں عوام کی چیخیں نکال دیں وہاں حکومت کو بھی ہلا کر رکھ دیا ہے۔ دیکھا جائے تو یہ چھوٹا مسئلہ نہیں ہے۔ آٹا ، چینی اور پیٹرول سرمایہ دار، شرفا اور امیر طبقہ کا مسئلہ نہیں ہے خالصتاً عوام کا مسئلہ ہے روٹی نان کی قیمت میں اضافے سے براہ راست عام آدمی متاثر ہواہے۔ پی ٹی آئی والے سمیت معصوم لوگ ہیں انہیں ابھی تک یہ پتہ نہیں چل سکا کہ آخر خرابی کہاں پر ہے کہ آئے روز ایک نیا سیکنڈل سامنے آ جاتاہے جیسے کہ پہلے بھی لکھ چکاہوںکہ حال ہی میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ بھی مافیا کی مہربانی ہے جو کہ ایک ماہ سے پٹرول کی قلت رہی اور پھر اچانک ایک رات پٹرول کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ کر دیا گیا اور اگلی صبح سے پٹرول، ڈیزل ، مٹی کا تیل وافرمقدار میں موجود تھا۔
بس یہ معصوم حکومت سمجھ نہیں پا رہی کہ یہ سب ہو کیا رہا ہے وزیراعظم عمران خان، وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار سمیت ملک بھر میں پی ٹی آئی حکومت کو فیل ظاہر کرنے میں ایک طبقہ نہایت مہارت سے مصروف عمل ہے۔ پنجاب میں آٹا سیکنڈل کو ہی لے لیںکہ وزیراعلیٰ سردار عثمان بزدار نے کابینہ کے اجلاس میں آٹا کے 20کلو تھیلے کی قیمت 850روپے مقرر کی تھی جس کیلئے فلور ملز کو 1475روپے فی من کے حساب سے گندم فراہم کرنے کی منظوری دی تھی لیکن پھر بھی فلور ملز مالکان مطمئن نہیں ہوئے۔ نان روٹی ایسوسی ایشنیں از خود نان روٹی کی قیمتوںمیں اضافے کرنے لگے تھے کیا یہ سب بیوروکریسی کی ناقص حکمت عملی کی وجہ سے ہو رہا ہے۔ پی ٹی آئی حکومت کو یہ سمجھ میں نہیں آ رہا ہے کہ مہنگائی، کرپشن میں اضافہ کیوںہو رہا ہے چھوٹی چھوٹی باتوں کے سکینڈل کیوںبن رہے ہیں ۔
پی ٹی آئی حکومت کے آغاز میں وزیراعظم عمران خان سے ان کے خطاب میں مرغیوںکو پالنے اور انڈے فروخت کرنے والی بات کس نے کہلوائی تھی۔ کس کی بریفنگ کے بعد وزیراعظم نے اپنے خطاب میں غریبوں کو پالنے کیلئے مرغیاں دینے اور انڈے حاصل کرنے کی سکیم پی ٹی آئی سکیم بنانے کامشورہ دیا تھا وہ بھی ایک بیوروکریٹ ہیں ہمارے اچھے دوست ہیں جو شہباز شریف کی حکومت میں سیکرٹری لائیو سٹاک رہے تھے اور مرغیاںدینے کی سکیم کے تحت اس وقت بھی غریبوںمیں مرغیاں تقسیم کی گئی تھیں۔ سوچنے والی بات ہے کہ اس طرح کے بلنڈر آخر پی ٹی آئی حکومت سے کیوںہو رہے ہیں ایسا ہی کچھ سینئر وزیر عبد العلیم خان کے محکمہ خوراک میں آٹے کے ساتھ ہوا مناسب پالیسی نہیںبنائی گئی۔
جس کا ثبوت چند روز قبل سیکرٹری خوراک کا تبادلہ ہے۔ عبد العلیم خان سیاستدان سے پہلے کامیاب بزنس مین ہیں ان کو معلوم ہے کہ کس طرح منافع حاصل کرنا ہے کب اور کس وقت انویسٹمنٹ کرنی ہے یہ سب فارمولوں سے عبد العلیم خان بخوبی واقف ہیں لیکن کچھ عرصہ کیلئے عبد العلیم خان بھی چند افسران کے چکر میںآ گئے اور آٹا بحران کا سامناکرنا پڑا اور جب تمام معاملات خود سنبھالے تو بحران پر قابو بھی پا لیا۔ عبد العلیم خان بے پناہ سیاسی بسیرت کے مالک ہونے کے ساتھ ساتھ خدا داد صلاحیتوںکے مالک بھی ہیں وزیر اعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار کی ٹیم میں ایک شاندار اضافہ ہیں۔
لیکن یہاں یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ گندم کا بحران بظاہر حل ہوا ہے چونکہ اس وجہ ہے کہ اوپن مارکیٹ میں گندم کی قلت ہے اور سرکار کے پاس گندم ہے اس برس 40لاکھ ٹن کے قریب گندم خریدی گئی ہے پرائیویٹ سیکٹر کو گندم خریدنے نہیںدی گئی تھی جبکہ 2019ء میں پرائیویٹ سیکٹر کے پاس 16لاکھ ٹن گندم تھی اور اوپن مارکیٹ میں ان دنوں گندم 11سو روپے سے 12سو روپے میں گندم اٹھانے والا کوئی نہیں تھا۔ پھر غلط فیصلے کئے گئے گندم ایکسپورٹ کرنے کے علاوہ پولٹری فیڈ انڈسٹری کو گندم فروخت کرنے سے آٹے کے بحران شروع ہو گیا۔ 2019ء میں 20کلو آٹے کا تھیلا 785روپے میں تھا۔
آج 20کلو آٹے کا تھیلا سرکاری ریٹ میں 860روپے کلو ہے جو چند روز قبل گیارہ سو روپے میں فروخت ہوتا رہا ہے۔ 2020ء میں گندم تاریخ کی بلند ترین سطح 1952روپے میں فروخت ہوئی ہے۔ یہ سب پالیسی نہ ہونے کی وجہ سے ہوا ہے۔ پہلے وزیر خوراک سمیت حکومت آنکھیں بند کرکے بیٹھی رہی اور گندم کا بحران پیدا ہو گیا جس کا علاج سیکرٹری خوراک کو بدل کر کرنے کی کوشش کی گئی۔ یہاں بزدار حکومت کو یہ دیکھنا ہو گا کہ نیا نظام چلانے کیلئے پالیسی کی ضرورت ہوتی ہے جس کا بزدار حکومت سمیت پی ٹی آئی حکومت شدید بحران ہے۔
خیر بات کہیں اور چلی جائے گی واپس آ جائیں آٹا بحران پر تو یہ سمجھ لیں کہ مافیاز کنٹرول کرنے کیلئے سوچ چاہئے ، حکمت عملی چاہئے اور پالیسی چاہئے جو ابھی تک نہیں بنائی گئی جو کہ بیورو کریسی کی ذمہ داری ہے کہ پالیسی بنا کر کابینہ سے منظور کروائے جو کہ نہیں ہو رہا ہے جس وجہ سے مافیاز اپنا کام دکھا جاتے ہیں ۔
وزیراعظیم عمران خان کا ویژن ہے عوام کو ریلیف دینا اب سوچنا یہ ہے کہ عوام کو ریلیف کیسے ملے گا ۔ امید ہے وزیراعلیٰ عثمان بزدار اب کاسمیٹک کارکردگی کے بجائے کچھ عملی کام بھی کریں گے۔ پی ٹی آئی کو اس وقت عوام دوست پالیسیوں کی ضرورت ہے جو کہ پی ٹی آئی کا منشور بھی ہے۔