سابق صدر آصف زرداری ایک بار پھر کڑے احتساب کی زد میں ہیں۔ان پر کئی نئے اور پرانے مقدمات چل رہے ہیں ۔توشہ خانہ ریفرنس میں آصف زرداری کو اشتہاری قرار دیا جا چکا ہے ،پارک لین ریفرنس میںچند روز قبل فرد جرم عائد ہوتے ہوتے رہ گئی۔
شنید ہے کہ ایک اور کوشش یہ کی جارہی ہے کہ عزیر بلوچ جے آئی ٹی رپورٹ کا پھندا کسی نہ کسی طرح ان کے گلے میں فٹ کیا جائے۔ ماضی میں کئی بار یوں محسوس ہوا جیسے ان کے گرد گھیرا تنگ ہو چکا اور اب انہیں کوئی نہیں بچا سکتا۔
مثال کے طور پر جب جعلی اکائونٹس کیس کانقارہ بجائے جانے کے بعد ان کے قریبی ساتھیوں کو اُٹھایا گیا تو یوں لگا جیسے اب زرداری کی باری آچکی ہے۔اس کیس سے بھی کئی برس قبل جب ڈاکٹر عاصم حسین کو گرفتار کیا گیا تو خبروں کے نام پر پروپیگنڈا ’’فیڈ‘‘ کرنے والے نام نہاد ذرائع نے دعویٰ کیا کہ ناقابل تردید شواہد جمع کئے جا چکے ہیں اور اب قومی خزانہ لوٹنے والے بچ نہیں پائیں گے۔
اس سے ملتے جلتے دعوے 22سال پہلے احتساب سیل کے سربراہ سیف الرحمان کیا کرتے تھے۔بینظیر بھٹو بھی زندگی بھر کرپشن کے الزامات کا سامنا کرتی رہیں مگر تمام ریاستی ادارے اس کرپشن کو ثابت کرنے میں ناکام رہے۔آصف زرداری کی کردار کشی کے لئے ان پر مسٹر ٹین پرسنٹ کی پھبتی کسی گئی ۔وہ بچے جو نوے کی دہائی میںلڑکپن یا جوانی کی دہلیز پر قدم رکھ رہے تھے ،ان میں سے بیشتر اب بھی اس روایت پر ایمان رکھتے ہیں کہ ہر سرکاری ٹھیکے میں سے دس فیصد حصہ آصف زرداری کو جاتا ہے۔
سوال اُٹھایا گیا کہ بمبینو سینما کی ٹکٹیں بلیک کرنے والا آصف زرداری ارب پتی کیسے بن گیا؟2008ء میںپیپلز پارٹی برسراقتدار آئی تو ایک بار پھر الزامات کی بوچھاڑ ہونے لگی ۔کالنگ کارڈز اور موبائل ریچارج پر جو ٹیکس لیا جاتا تھا ،اسے زرداری ٹیکس کہا جانے لگا۔آصف زرداری صدر منتخب ہوئے تو یوں شرمندگی اور خجالت کا اظہار کیا گیاجیسے کوئی وارداتیہ ایوان صدر پر قابض ہو گیا ہو۔
2010ء میں اے پی این ایس کی طرف سے بہترین کالم نگار کا ایوارڈ دیا جانا تھا اور ایوان صدر میں ہورہی تقریب کے مہمان خصوصی صدر مملکت آصف زرداری تھے۔ کئی دوستوں نے نصیحت کی کہ آپ اسٹیج پر جا کر یہ کہتے ہوئے ایوارڈ لینے سے انکار کردیں کہ میں کسی کرپٹ شخص سے ایوارڈ نہیںلینا چاہتا ۔میں نے گزارش کی کہ آصف زرداری منتخب اور آئینی صدر ہیں کوئی گھس بیٹھئے نہیں۔
اگر وہ بندوق کے زور پر مسلط ہوئے ہوتے تو میں ضرور انکار کرتا ۔بتانے کا مقصد یہ ہے کہ اس وقت کرپشن کے بیانیےکا جادو کیسے سر چڑھ کر بول رہا تھا۔سچ تو یہ ہے کہ مجھے بھی کرپشن کے الزامات خاصے معقول دکھائی دیا کرتے تھے اور اب بھی میں آصف زرداری یا پیپلز پارٹی کو صادق وامین ہونے کا سرٹیفکیٹ جاری کرنے کی پوزیشن میں نہیں مگر صحافت اور تاریخ کے طالب علم کی حیثیت سے بعض حقائق کی روشنی میں چند سوالات اُٹھانے کی جسارت کروں گا۔
حاکم علی زرداری کا شمار سندھ کے بڑے جاگیرداروں میں ہوتا تھا۔ انہوں نے ذوالفقار علی بھٹو کے دور ِ حکومت میں کراچی میں ایک بہت بڑا پلازہ بنوایا جس میں سینما بھی تھا ۔دلچسپ بات یہ ہے کہ اس پلازے کا افتتاح قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو نے کیامگر کرپشن کا منجن بیچنے والوں نے زرداری کو بمبینو سینما کی ٹکٹیں بلیک کرنے والا کھلنڈرا نوجوان قرار دیدیا۔
چند روز قبل بختاور بھٹو زرداری نے ایک ٹویٹ کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ان کے والد سے متعلق مسٹر ٹین پرسنٹ کی اصطلاح حسین حقا نی نے متعارف کروائی مگر حسین حقانی نے وضاحت کی کہ یہ اصطلاح ’’نامعلوم افراد‘‘ نے متعارف کروائی۔
مسٹر ٹین پرسنٹ کی یہ اصطلاح اس قدر تواتر کیساتھ استعمال کی گئی کہ لوگ اسے سچ سمجھنے لگے۔میں اس ’’سچ‘‘ کو قبول کرنے پر تیار نہیں کیونکہ آصف زرداری سیاسی کیرئیر کے دوران کئی بار گرفتار ہوئے اور ایک بار تو انہیں مسلسل 11سال تک قید رکھا گیا لیکن کوئی جے آئی ٹی ان پر کرپشن کے الزامات ثابت نہ کرسکی۔
اینٹی کرپشن ،احتساب سیل ،قومی احتساب بیورو،ایف آئی اے سمیت کوئی ادارہ انہیں کسی عدالت سے سزا نہ دلوا سکا ۔زندگی بھر کسی شخص کو الزامات کے کٹہرے میں کھڑا رکھنا کہاں کا انصاف ہے؟
میڈیا ٹرائل کا یہ معاملہ محض آصف زرداری تک محدود نہیں بلکہ پیپلز پارٹی کے دیگر رہنمائوں کو بھی اسی قسم کی صورتحال کا سامنا رہا۔آپ یوسف رضا گیلانی کی مثال لے لیں ،انہیں پرویز مشرف کے دور میں گرفتار کیا گیا ،بطور اسپیکر قومی اسمبلی اختیارات کے ناجائز استعمال اور ملازمتیں دینے کا الزام لگایا گیا ،احتساب عدالت سے سزا ہوئی لیکن اعلیٰ عدلیہ نے باعزت بری کردیا۔اب ایک بار پھر کرپشن کے الزامات پر عدالتوں کا طواف کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
پیپلز پارٹی کے گزشتہ دورِ حکومت میں حج کرپشن پر وفاقی وزیر برائے مذہبی امور حامد سعید کاظمی حراست میںلئے گئے نہ صرف میڈیا ٹرائل ہوا بلکہ ماتحت عدالت نے 16سال قید کی سزا سنادی مگر ایک سال بعد اسلام آباد ہائیکورٹ نے باعزت بری کردیا۔
راجہ پرویز اشرف جو یوسف رضا گیلانی کے بعد وزیراعظم بنے ،جب پانی و بجلی کے وفاقی وزیر تھے تو کرائے کے بجلی گھروں اور ساہیوال پاور پلانٹ پر کمیشن کھانے کے الزامات لگے ۔بیانیہ فروشوں نے راجہ پرویز اشرف کے خلاف یہ مہم اس قدر کامیابی سے چلائی کہ حقیقت کا گمان ہونے لگا اور راجہ پرویز اشرف ’’راجہ رینٹل ‘‘کے نام سے مشہور ہو گئے۔
مگر اب احتساب عدالت نے انہیں باعزت بری کردیا ہے۔میں پیپلز پارٹی کے رہنمائوں کی صفائی یا گواہی دینے کی پوزیشن میں نہیں لیکن سوال یہ ہے کہ زندگی بھر کسی شخص کو کٹہرے میں کھڑے رکھنا کہاں کا انصا ف ہے؟ہر بار آصف زرداری کی طنابیں ہی کیوں کس دی جاتی ہیں؟ایک زرداری واقعی سب پہ بھاری ہے کیا؟