• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

زمانہ قدیم میں لو گ بنکاری کی سہولت نہ ہونے کے باعث اپنی امانتیں معتبر افراد کے پاس رکھواتے تھےاور واپس مانگنے پر ان کی امانت انہیں واپس بھی مل جاتی تھی ۔اس خدمت کے عوض امانت دار کوئی محنتانہ وصول نہیں کرتے تھے۔ تاہم ماہرین معاشیات نےبینکنگ کا نظام روشناس کروایا ۔ آج کے جدید دور میں وقت کے تقاضےکے مطابق بنکاری کے نظام میں بھی جدت آئی ہے اور آن لائین بنکاری کا نظام شروع ہوا۔ آج آن لائن بینکنگ کے ذریعے دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک رقومات کی ترسیل منٹوں میں ممکن ہوگئی ہے۔ یہی نہیں اکثر بینکوں نے اب چیک کے بجائے صارف کی انگلیوں اور انگوٹھے کی بائیومیٹرک کے ذریعے بھی اس کو اپنے اکائونٹ میں لین دین کی سہولت فراہم کردی ہے۔ 

تاہم ان ساری سہولتوں کے باوجود انسان دوسر ے کی جمع کونجی کو ہتھیانے کے لئے اپنے شیطانی دماغ کو استعمال کرکے ایسے واردات کر لیتے ہیں کہ کسی کو اس پر شک تک نہیں ہوتا۔۔بینکوں میں فراڈ اور ہیراپھیری تو اکثر ہوہی جاتی ہے اور اس کے ذمہ دار سزا بھی پاتے ہیں ۔ تاہم نواب شاہ کے ایک نجی بینک کا برانچ منیجر اکاؤنٹس ہولڈرز سے اپنی شاطرانہ چالوں سے کروڑں روپیہ بٹورکر وہاں سے غائب ہوگیا۔

اس کیس کے سلسلے میں ایف آئی اے کی جانب سے دو ایف آئی آر درج کی گئی ہیں۔ ایف آئی آرز کے مطابق مسجد روڑ پر نجی بینک کے برانچ مینجر اسماعیل منگریو نے اپنی برانچ کے صارفین کو جھانسا دیا کہ وہ اُن کی رقم پر بینک کمیشن کے ذریعے25%تک منافع دلا سکتا ہے۔اس نے بینک کے اندر اپنی حیثیت کاناجائزفائدہ اٹھاتے ہوئے متوازی بینکنگ شروع کردی ۔سادہ لوح صارفین سے کروڑوں روپیہ لینے کے بعد ڈیپازٹ سلپ پر بینک کی مہر لگا کر صارفین کے حوالےکردی جب کہ مذکورہ رقم بینک میں جمع کرنے کی بجائے اپنے پاس رکھ لی۔ 

جب صارفین مذکورہ بینک منیجر سے اپنے موجودہ بیلنس کے بارے میں استفسار کرتے تو وہ انہیںمختلف طریقوں سے مطمئن کردیتا۔ تاہم اس کا فراڈ اس وقت سامنے آیا جب ایک صارف نے اپنے اکائونٹ کا بیلنس، بینک کے کائونٹر سے معلوم کیا تو اسے پتہ چلاکہ ایسی کوئی رقم اس کے اکائونٹ میں جمع ہی نہیں ہوئی ہے ۔اس پر شور برپا ہوا تو بینک انتظامیہ حرکت میں آگئی ۔معاملہ ہیڈ آفس تک پہنچ گیا، تاہم اس وقت تک برانچ منیجر ہاتھ کی صفائی دکھا چکا تھااورصرف دو صارفین سے جن میں شاہد ظفر عباسی سے ایک کروڑ بیس لاکھ اور عابد شاہ سے ساٹھ لاکھ روپے لوٹ چکا تھا۔

ایف آئی اے کے ڈپٹی ڈائریکٹر بشیر احمد سومرو نے جنگ کو بتایا کہ ایف آئی اے نے شاہد ظفر عباسی اور عابد شاہ کی درخواست پر ایف آئی آر نمبر 4/2020زیرے دفعہ 420 ،409،468، 471 ،109، پی پی سی کے تحت مقدمہ درج کر کے ملزم کی تلاش شروع کردی ہے۔ ڈپٹی ڈائریکٹر کا کہنا تھا کہ ملزم اسماعیل منگریو کی گرفتاری کے لئے چھاپے مارے جارہے ہیںاور اسے جلد گرفتار کرلیا جائے گا۔ بینک کےعملے کا اس سلسلے میں کہنا ہے کہ برانچ منیجر اسماعیل منگریو کے فراڈ کا اسکینڈل سامنے آنے کے بعد کئی اور صارفین بھی بنک آئے ۔ ان کا بیلنس جب چیک کیا گیا تو ان کی رقومات بھی بنک میں جمع نہیں کرائی گئی تھیں۔ عملے کے مطابق وہ بھی ایف آئی اے حکام سے رجوع کررہے ہیں جب کہ منیجر کے ہاتھوںلٹنے والے صارفین کی تعداد بڑھتی جارہی ہے ۔ ایک اندازے کے مطابق بینک منیجر مذکورہ صارفین سے دس سے پندرہ کروڑ روپے کی رقم لوٹ کر فرار ہوا ہے۔

تازہ ترین
تازہ ترین