روسی اور جرمنی ماہرین نے کائنات کی پہلی ایکسرے تصویر حاصل کی ہے، انہوں نے یہ تصویر ’’ای روسیٹا ‘‘(eRosita)نامی ایکسرے دور بین سے حاصل کی ہے ۔eRosita ’’ایکسٹینڈڈروئنتجن سروے وداین امیچنگ ٹیلی اسکوپ ایرے ‘‘ کا مخفف ہے ،یہ ٹیلی اسکوپ 2019 ء میں خلا ء میں بھیجی جانے والی رصد گاہ ’’ اسپیکٹرم رو ئنتجن گیما ‘‘(ایس آر جی ) کا اہم ترین حصہ ہے۔ اس رصد گاہ کا مقصد ’’تاریک توانائی ‘‘ پر تحقیق کرنا ہے ،تا ہم اس مقصد کے لیے ماہرین اجرام فلکی سے خارج ہونے والی ایکسر یز بھی دراصل بر قی مقناطیسی (الیکٹرومیگنیٹک ) شعاعیں ہی ہوتی ہیں، مگر پہلی بات یہ کہ ان کی توانائی بہت زیادہ ہوتی ہےاور دوسری یہ کہ انسانی آنکھ نہیں دیکھ سکتی۔
سورج سے بھی کئی اقسام کی شعاعوں کے ساتھ ساتھ ایکسریز بھی خارج ہوتی ہیں ،جنہیں زمینی فضا کا حفاظتی غلاف ہم تک پہنچنے سے روک لیتا ہے ۔ستاروں کے علاوہ جب بلیک ہولز اپنے ارد گرد بکھرے ہوئے مادّے کو ’’ہڑپ‘‘ کرتے ہیں تو اس سے بھی زبردست ایکسریز خارج ہوتی ہیں جنہیں بلیک ہول میں گرتے ہوئے مادّے کی ’’آخری چیخ‘‘ کہا جاتا ہے۔ ای روسیٹا( آر ایس جی) منصوبہ چار سال پر محیط ہے جو 2023 میں مکمل ہوگا۔ اس کا مقصد نہ صرف کہکشاؤں کے مرکزوں میں موجود عظیم و جسیم (سپر میسیو) بلیک ہولز کی نشاندہی کرنا ہے بلکہ ساتھ ہی ساتھ ایسے ہزاروں کہکشانی جھرمٹوں کا باریک بینی سے جائزہ بھی لینا ہے جنہیں کائنات کی سب سے کمزور قوت ’’کششِ ثقل‘‘ نے بڑی مضبوطی سے آپس میں باندھ رکھا ہے۔
کہکشانی جھرمٹوں کی ساخت اور ان میں حرکت سے متعلق جان کر ہم اس قابل ہوسکیں گے کہ ’’تاریک توانائی‘‘ کے بارے میں بھی کچھ بتا سکیں، جسے ایک ایسی ’’پراسرار‘‘ توانائی بھی قرار دیا جاتا ہے جو کائناتی پھیلاؤ کی رفتار میں اضافے کی وجہ بن رہی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ای روسیٹا نے صرف چند ماہ میں ایکسریز کی مدد سے کائنات کا جتنا مشاہدہ کیا ہے، وہ گزشتہ 60 سال کے دوران ایکسرے فلکیات میں کیے گئے تمام مشاہدات سے کم از کم دوگنا زیادہ ہے۔البتہ، ای روسیٹا کا کام تو ابھی شروع ہوا ہے اور توقع ہے کہ جلد ہی ہمیں کائنات کی اس سے بھی زیادہ خوبصورت اور مفصل ایکسرے تصویریں دیکھنے کو ملیں گی۔