اس تیز رفتار دور میں جتنی تیزی سے وقت گز ر رہا ہے ،اتنی ہی تیزی سے بیماریوں میں بھی اضافہ ہو رہا ہے ،اسی لیے ماہرین متعدد بیماریوں کے لیے جدت سے بھر پور علاج اور آپریشن متعارف کروارہے ہیں ۔ اس ضمن میں کافی زیادہ پیش رفت ہوچکی ہے اور یہ سلسلہ ابھی بھی جاری ہے ۔ماہرین کو اُمید ہے کہ مستقبل میں ان میں مزید جدت لائے جائے گی۔
بیکٹیریا کی مدد سے دمہ کے خلاف جنگ
پوری دنیا بالخصوص صنعتی ممالک میں دمہ کے مرض میں تیز رفتار اضافے کی وجہ سے اس مرض کے اسباب کی تحقیق کی رفتار میں بھی اضافہ کردیا ہے۔ اس حوالے سے ایک توجیح یہ پیش کی جاتی ہے کہ بچپن میں یہ انفیکشن جسم کے قدرتی مدافعتی نظام کو کمزور کردیتا ہے، جس سے بعد میں دمہ (Asthma) کے حملے کا امکان بڑھ جاتا ہے۔
یونیورسٹی آف زیورخ اور یونیورسٹی میڈیکل سینٹر، جوہانس گوٹن برگ یونیورسٹی مینز کے سائنس دانوں کی تحقیق کے مطابق یہ بالکل درست ہے، اس کے علاوہ وہ مغربی معاشروں میںدمہ کا مرض ایک گیسٹرک بیکٹیریم ہیلی کوبیکٹریم پائی لوری((Fl. pylori کی موجودگی کی وجہ سے ہوتا ہے۔یہ بیکٹیریم دنیا کی نصف آبادی کو متاثر کرتا ہے اور معدے اور چھوٹی آنت کے پہلے حصے کے السر، ورم معدہ اور بعض صورت حال میں معدے کے السر کا سبب بنتا ہے۔
اس بیکٹیریم کا شکار 80 فی صد مریض کسی بھی علامات کا اظہار نہیں کرتے۔سوئس اور جرمن سائنسدانوں نے چوہوں پر تجربات کرکے یہ ثابت کیا ہے کہ اگر چند دن کی عمر کے حامل چوہے کو اس بیکٹیریم سے زخمی کیا جائے تو ان میں طاقتور مدافعتی نظام تشکیل پاتا ہے۔ اس سے بڑی عمرمیں پہنچ کر وہ دمہ پیداکرنے والے Allergensکے حملوں سے محفوظ رہتے ہیں۔ وہ چوہے جن کو چھوٹی عمر میں اس طریقے سے زخمی نہ کیا گیا ہو وہ دمہ پیدا کرنے والےallergensکے حملے کا آسانی سے ہدف بن جاتے ہیں۔
یہ دمہ کے حوالے سے اہم انکشافات ہیں جو کہ اس بیماری کے حملے سے بچائو میں اہم ثابت ہوسکتے ہیں۔وزن میں کمی کی کلید ہمارے جسم میں موجود Brown Fatہے۔ یہ رنگ میں بھوری ہوتی ہے اور جسم میں موجود کیلوریز کو تیزی سے جلاتی ہے۔ یہ قدرتی بھٹیاں ہیں جو ہمارے جسم کے اندر موجود ہوتی ہیں۔ پہلے یہ سمجھا جاتا تھا کہ بھوری چکنائی یا Brown Fat صرف کترنے والے جانوروں میں ہوتی ہے اور یہ ان کی کیلوریز کو جلا کر ان کو گرم رکھتی ہے، کیوں کہ ان میں کانپنے کی صلاحیت نہیں ہوتی۔ بعدازاں یہ معلوم ہوا کہ یہ بھوری چکنائی بالغ انسانوں کے جسم کے بعض حصوں میں پائی جاتی ہے۔
کینیڈین سائنس دانوں نے ڈاکٹر Andre Carpertier کی سربراہی میں ایک مطالعہ کیا ،جس کا انعقاد Quebee کی یونیورسٹی آف Sherbrooke نے کیا تھا، اس میں بتایا کہ جب جسم سرد ہوتا ہے تو جسم میں موجود بھوری چکنائی، سفید چکنائی کو چوستی اور جلاتی ہے۔ اس طرح جسم گرم ہوجاتا ہے۔ اوسطاً Brown Fat 250 کیلوریز کو 3 گھنٹے میں جلا دیتی ہے۔ یہ خیال کیا جاتا ہے کہ سفید چکنائی کو بھوری چکنائی میں تبدیل کرنے کا عمل ایک خا ص پروٹین (PRDM 16) کا مرہون منت ہے ۔
محققین بھوری چکنائی کی پیداوار کو منظم کرنے والی محفوظ دوا کی تیاری پر کام کررہے ہیں ،تاکہ کیلوری جلانے والی اچھی بھوری چکنائی کی مدد سے انسان کے جسم میں زیادہ کیلوریز کو جلایا جاسکے۔
کینسر کے خلاف جنگ… سونے کے نینو اسٹار
کسی بھی مادّے کا سائز جب نینومیٹر کی حد تک کم کردیا جاتا ہے تو ان کی خاص خصوصیات سامنے آتی ہیں۔ ان مواد کی غیرمعمولی خصوصیات کے نتیجے میں نینو ٹیکنالوجی تخلیقی مواد ہے جو کہ موجودہ دور کی سائنس و ٹیکنالوجی کا اہم ترین حصہ ہے۔ ایک نینومیٹر ایک میٹر کا ایک ارب واں حصہ ہے (یا ملی میٹر کا دس لاکھواں)ا ور نینوٹیکنالوجی میں ایک ایسا مواد شامل ہے ،جس کا سائز100 نینو میٹر (nm) کے برابر ہوتا ہے۔ اس میں شامل اسکیل کا اندازہ اس طرح لگایا جاسکتا ہے کہ DNA کے ڈبل ہیلکس کا قطر2nmہوتا ہے۔
کینسر کے مریضوں کا کیموتھراپی سے علاج میں سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ دوا عام صحت مند خلیات پر بھی حملہ آور ہوجاتی ہے۔ جس کے نتیجے میں اس کے شدید مضراثرات ( (Side Effects سامنے آتے ہیں۔ سائنس دان ایسے طریقے تلاش کررہے ہیں جن کے ذریعے کینسر کے خلیات کو منتخب طور پر ہدف بنایا جائے، تاکہ "Shotgun" کا طریقہ کار اختیار کیا جاسکے ،جس میں یہ کینسر کے خلیات کے ساتھ نارمل صحت مند خلیات کو بھی تیار کرتی ہے۔ اگر صرف ہدف کا نشانہ بنایا جائے تو استعمال کی جانے والی دوا کی مقدار میں بھی خاطر خواہ کمی واقع ہوگی، کیوں کہ دوا کی معمولی سی مقدار کینسر کے خلیات کو نشانہ بنائے گی۔
نارتھ ویسٹرن یونیورسٹی کے سائنس دانوں نے سونے کے نینو اسٹارز تیار کیے ہیں جو کہ صرف کینسر کے خلیات کے نیوکلیس کو ہدف بنائیں گے۔ یہ دوا کینسر کے خلیات کے خلاف استعمال ہوگی جو کہ ستارے کی شکل کے سونے کے نینو اسٹارز سے منسلک ہوں گے۔ ان نینو اسٹارز کے اندر صرف کینسر کی دوا بھری ہوگی جو کینسر کے خلیات کی سطح پر موجود پروٹین پرلگادی جائے گی۔ یہ پروٹین ایک چھوٹی شٹل سروس کی طرح کام کرتے ہوئے نینو اسٹار کو خلیے کے نیوکلیئس تک پہنچادے گا اور پھر صرف کینسر کے خلیات ہلاک ہو جائیں گے۔
مائیکرو راکٹ… آپ کے معدے میں
یونیورسٹی آف کیلی فور نیا سان تیا گو کے سائنس دانوں نے ہائیڈروجن کے بلبلوں سے قوت حاصل کرنے والے مائیکرو راکٹ تیار کیے ہیں ،ان مائیکرو راکٹ کو ہائیڈروجن سے قوت فراہم کی جاتی ہے اور یہ آپ کے معدے سے 100میل فی سیکنڈ کی رفتار سےگھستے ہیں، ان میں فوری طور پر ضروری دوا بھرنی ہوتی ہے ،جس کو وہ متاثرہ جگہ پر خارج کر دیتے ہیں ۔یہ براہ راست ہدف پر پہنچ جاتے ہیں۔
مائیکرو راکٹ چھوٹی 10 مائیکرو میٹر لمبی polyaniline کی ٹیوب ہوتی ہے جن کا قطر چند مائیکرو میٹر تک ہوتا ہے ۔ اس ٹیوب میں اندر کی طرف زنک کی تہہ ہوتی ہے جو معدے کے تیزاب کے ساتھ تعامل کرکے ہائیڈروجن کے بلبلے بناتی ہے۔ یہ بلبلے ٹیوب کو آگے کی جانب تقریباً 380 mphکی رفتار سے دھکا دیتے ہیں۔ رفتار کا انحصار معدے کی pHپر ہوتا ہے۔ ٹیوب کی بیرونی جانب سے مقناطیسی مواد کا غلاف چڑھایا جاتا ہے۔ ا س طرح وہ متعلقہ ہدف پر مقناطیسی کشش کے تحت پہنچ جاتی ہے ۔
ٹوٹے ہوئے دل کو جوڑنا
دل کو دورے کے بعد اکثر دل کے کئی عضلات ٹوٹ جاتے ہیں ۔ سائنسدان کافی عرصے سے اس کوشش میں ہیں کہ دل کے ٹوٹے ہوئے عضلات کی مرمت کی جاسکے۔ اس حوالے سے عمومی طور پر یہ طریقہ اختیار کیا جاتا ہےکہ نقصان زدہ حصوں پر ایک مائیکرو باڑھ( (Scaffoldinلگادی جاتی ہے یہ scafffolding نینو وائرسے تیار کی جاتی ہے ۔ اس کو جراحی کے عمل کے ذریعے دل پر لگا دیا جاتا ہے ۔
اب ایک اور نیا طریقہ اختیار کیا جارہا ہے اس طریقے میں انجیکشن کے ذریعے ایک ہائیڈرو جیل جسم میں داخل کردی جاتی ہے اس کے لییکسی قسم کی جراحی کی ضرورت نہیں پڑتی۔یہ یونیورسٹی آف کیلی فورنیا سان تیاگو کے محققین کی دریافت ہے جن کی سربراہی شعبہ بایئو انجینئرنگ کے پروفیسر کیرن کرسٹ مین کررہے تھے ۔
یہ جیل cardiac connective tissues سے تیارکیا گیا ہے ، اس کی جانوروں پر آزمائش کامیا ب رہی ہے ۔ ایک نئی کمپنی ventrixجلد ہی اس کی انسانوں پر آزمائش کرے گی۔Keyholeنیورو سرجری کے میدان میں ایک انتہائی نازک اور حساس معاملہ سمجھا جاتا ہے ۔اس میں انسانی کھوپڑی میں ایک باریک سا سوراخ کیا جاتا ہے اور اس چھوٹے سے سوراخ کی مدد سے پیچیدہ جراحی کا عمل انجام دیا جاتا ہے ۔دماغ کا آپریشن کرنے والے سرجن کی چھری سے ہونے والی معمولی سی غلطی یہاں تک کہ ملی میٹر سے بھی کم کی غلطی مریض کو مستقل طور پر مفلوج کر سکتی ہے ۔
یہ طریقہ کار بایئوپسی ، اینڈو اسکوپی، ٹشوز نکالنے ، دماغ کا Fluidیا مایع کا نمونہ حاصل کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، جس میں اندرونی دماغ تک Stimulationکی جاتی ہے۔اس طریقے کار کو مرگی (Epilepsy)، پارکنسنز، وغیرہ کے مریضوں کے علاج کے لیے اور ان کے دماغ سے ٹیومر نکالنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
اب یہ نازک اور حساس کام نیورو سرجن کے ساتھ کمپیوٹر بھی انجام دیں گے ۔ ROBOCASTسسٹم جس کو یورپی یونین کے پروجیکٹ کے طور پر تیار کیا گیا ہے ،اس میں دو کمپیوٹرز کا استعمال کیا جائے گا ۔ ایک بڑا اور دوسرا چھوٹا سسٹم ہوگا۔ سب سے پہلے کھوپڑی جس میں سوراخ کرنا مقصود ہے بڑا کمپیوٹرخود کو اس کے پاس لے کرآئے گا ، چھوٹا کمپیوٹر اس وقت حرکت میں آئے گا جب نیورو سرجن اس کو طے شدہ راستے پر جہاں سوراخ کرنا مقصود ہے نشتر Scapelکی مدد سے استعمال کرے گا۔ یہ خط حرکت کو طے کرنے ولا خود مختار آلہ ہے جو کہ چھوٹے نشتر کو استعمال کرنے میں روبوٹ کی رہ نمائی کرے گا، نیز کسی ہنگامی صور تِ حال میں اپنی جگہ کو تبدیل بھی کرلے گا۔
اسٹیم سیل کی بنی ہوئی بینڈی
اسٹیم سیل سے علاج گردوں، دل کے خلیات اور ذیابیطس کے مریضوں کے لیے انقلابی قدم ثابت ہورہا ہے ۔اسٹیم سیل انسانوں اور دوسرے جانوروں میں پائے جاتے ہیں جو مزید اسٹیم سیل بنانے کے لیے تقسیم ہوجاتے ہیں، تقسیم کے عمل کے بعد یہ مختلف اعضاء (دل، گردے اورلبلبہ )تشکیل دیتے ہیں۔اسٹیم سیل تھراپی کا طریقہ کار مغز ہڈیBone Marrowپیوند کاری اور خون کے کینسرکے لیے کافی عرصے سے کیا جارہا ہے ۔ اس سلسلے میں ان برسٹل یونیورسٹی برطانیہ کے سائنس دانوں نے ایک بینڈیج تیار کی ہے، جس میں اسٹیم سیل کو پیوست کیا گیا ہے ، یہ بینڈیج نرم ہڈیوںCartilageکی ٹوٹ پھوٹ کی مرمت میں کام آئے گی ۔جس کے زخم عام طور پر بہت مشکل سے بھرتے ہیں۔
ہڈی کا گودا مریض کی ہڈی سے حاصل کیا جائے گا ،اس سے اسٹیم سیل کو نکال کر اس کو مزید تقسیم کے عمل سے گذارا جائے گا ،اس کے بعد اس کو ایک خاص جھلی میں پیوسر کردیا جائے گا۔ اور یہ ہڈی پھٹی ہوئی Cartillage میں داخل کردی جائے گی ۔جھلی میں موجود اسٹیم سیل زخم کے بھرنے میں مددگار ثابت ہوں گے ۔برقی میدان(Electrical Field)کے ذریعے دماغ کی رسولی کا علاج دماغ میں بار بار ہوجانے والی رسولی(Recurrent Glionlastoma or GBM) کا علاج اب برقی میدان کے ذریعے کیا جارہا ہے ۔یہ نہ صرف رسولی کی نشونما کو روک دے گا بلکہ اس عمل کو الٹ دے گا۔اس نئے طریقہ علاج کو FDAکی منظوری مل گئی ہے ۔
ذیابیطس کا علاج .....ناک میں ویکسین کے اسپرے کے ذریعے
ذیابیطس قسم اول لبلبہ سے پیدا ہونے والے انسولین پیدا کرنے والے بیٹا خلیات کے ضیاع کی وجہ سے ہوتی ہے، یہ عمل جسم کے مدافعتی نظام پر حملے کی وجہ سے وقوع پذیر ہوتا ہے ۔اس عمل کے نتیجے میں خون میں گلوکوز کی مقدار بڑھ جاتی ہے ۔ اگر اس کا علاج نہ کیا جائے تو دل کے امراض ، گردوں کی خرابی ، فالج اور اندھا پن پیدا ہوسکتا ہے ۔اس میں جینیاتی اسباب کے علاوہ خوراک کا بھی عمل دخل ہے ، نیز اس کے ذمہ دار وائرس بھی ہوسکتے ہیں۔
اس حوالے سے Water Elizah Hall Institute and Royal Melbourne Hospital آسٹریلیا کے محققین نے اہم انکشافات کیے ہیں۔ ذیابیطس قسم اول کا شکار 52مریضوں ( اس مرحلے میں جب ان کو انسولین کی ضرورت نہ پڑی ہو)کی مطبی آزمائش کی گئی ۔ان مریضوں کو ناک سے دی جانے والی ویکسین دی گئی ،جس کے نتائج بہت اچھاآئے تھے ۔مریضوں کو بارہ ہفتے تک یہ ویکسین دی گئی ، نتائج سے یہ معلوم ہوا کہ اس نے جسم کے مدافعتی نظام کو اس طرح تحریک دی کہ خون کے سفید ذرات نے لبلبہ میں پائے جانے والے بیٹا خلیات پر حملہ نہیں کیا۔ محققین کو اُمید ہے کہ ناک سے دی جانے والی یہ ویکسین دو سال کے اندربازارمیں دستیاب ہوگی۔اور ذیا بطیس کے مریضوں کے لیے کار آمد ثابت ہوگی۔