اس مرتبہ عید قرباں پر پاکستانی باکس آفس پر کوئی نئی فلم ریلیز نہیں ہوگی۔ ریلیز بھی کیسے ہو، پُوری دنیا اس وقت جس وَبا کی لپیٹ میں ہے، اس سے سبھی واقف ہیں۔ تفریح، شوبز کے تمام مقامات اس کورونا وائرس نے بند کروا دیے ہیں۔ ایک زمانہ وہ بھی تھا، جب بڑی عید پر فلموں کی ریلیز کے وقت سنیما ہائوسز پر عوام کا ایک ہُجوم ہوا کرتا تھا۔ پاکستان بننے کے بعد 60ء کی دھائی میں پاکستان کی فلمی صنعت نے عید کے موقع پر عوام الناس کے لیے کئی سپرہٹ یادگار فلمیں پیش کیں، جب اس حوالے سے بات کرنے لگتے ہیں، تو لاتعداد ایسی شاہ کار فلمیں عیدالاضحیٰ پر ریلیز ہوئیں۔ آج ہم عیدالاضحیٰ کے موقع پر نمائش ہونے والی چند فلموں کا ذکر کریں گے۔ 1963ء کا ذکر ہے، یہی عید کے دن تھے۔
لوگ بڑے اہتمام سے قربانی کی تیاری کررہے تھے، تو اس سال باکس آفس پر ہدایت کار حسن طارق کی فلم ’’شکوہ‘‘ ہدایت کار ایس سلیمان کی ’’باجی‘‘ ہدایت کار مستفیض کی ’’تلاش‘‘ جیسی تین بلاک بسٹر فلمیں ریلیز ہوئیں۔ یہ عیدالاضحیٰ اتوار 5؍مئی کو منائی گئی۔ فلم ’’شکوہ‘‘ میں صبیحہ خانم نے اپنی زندگی کا یادگار کردار ادا کیا تھا، جو ایک ایسی مجبور ماں کا تھا، جس کا ماضی ایک بدنام طوائف کا تھا۔ اس فلم میں انہوں نےاس قدر عمدہ اور فطری پرفارمنس کا مظاہرہ کیا کہ انہیں سال کی بہترین اداکارہ کا نگار ایوارڈ دیا گیا۔
ان کے حقیقی دیور ’’درپن‘‘ نے اس فلم میں ان کے بیٹے کا کردار کیا تھا، جب کہ سنتوش کمار بہ طور مہمان اداکار اس فلم میں صبیحہ کے شوہر بنے تھے۔ دیگر اداکاروں میں نیلو، اسلم پرویز، علاؤالدین اور نذر نے بھی اہم کردار ادا کیے تھے۔ یہ فلم کراچی کے سابقہ سنیما ریگل پر ریلیز ہوئی تھی، جہاں مسلسل 25؍ہفتے چل کر اس نے سولو سلور جوبلی منائی۔ ملکہ ترنم نورجہاں کی آواز میں صبیحہ خانم پر فلمایا ہوا گیت’’آج محفل سجانے کو آئی‘‘جو اس فلم کا ایک مقبول ترین گیت تھا،جس کے شاعر تنویر نقوی، موسیقار حسن لطیف تھے۔ ایک طرف فلم ’’شکوہ‘‘ میں صبیحہ خانم اپنی اعلیٰ کردارنگاری سے فلم بینوں کی عید کی خوشیوں کو دوبالا کررہی تھیں، تو دوسری جانب کراچی کے نشاط سنیما پر اس عید پر نیر سلطانہ کے فنی کیئر کی ایک یادگار کلاسیک نغماتی فلم ’’باجی‘‘ پیش کی گئی۔ صبیحہ اور نیر سلطانہ کا یہ فنی مقابلہ دیکھنے کے قابل تھا۔
دونوں اداکارائیں، جٹھانی اور دیورانی کے رشتے سے بھی اس عید پر خاصی زیر بحث رہیں۔ فلم بین بڑے اہتمام سے جٹھانی بمقابلہ دیورانی کے اس فلم شو مقابلے میں شریک رہے۔ ’’باجی‘‘ ہدایت کار ایس سلیمان کے کیریئر کی ایک ایسی فلم تھی، جس میں ان کی ڈائریکشن بے حد عمدہ رہی اور اس فلم سے وہ سوشل فلموں کے مایہ ناز ہدایت کار کہلائے۔ اس یادگار نغماتی فلم کو سال کی بہترین فلم کا نگار ایوارڈ بھی ملا۔ نشاط سنیما کراچی میں 6؍ہفتے چلنے کے ساتھ مجموعی طور پر اس فلم نے سلور جوبلی کا اعزاز حاصل کیا۔ اس فلم کے تمام گانے بے حد مقبول ہوئے، جِن کی دھنیں موسیقار سلیم اقبال نے ترتیب دی تھیں خاص طور پر یہ گیت
’’ چندا توری چاندنی میں دیا جلا جائے رے
سجن لاگی توری لگن من
دل کے افسانے نگاہوں کی زبان تک پہنچے
اب یہاں کوئی نہیں کوئی نہیں آئے گا‘‘
آج بھی کلاسیک مقبول ترین گیتوں میں شمار ہوتے ہیں۔ یہ خُوب صورت نغمات احمد راہی کے لکھے ہوئے تھے۔ اس فلم میں ’’باجی‘‘ کے کردار میں نیر سلطانہ نے کردار نگاری کے جو عمدہ نقش قائم کیا۔ اس فلم میں زیبا، درپن، طالش، نعیمہ گرج اور لہری نے بھی اہم کردار ادا کیے، جب کہ پنا اور ایمنی منیوالا کا کلاسیکل رقص اس فلم کی ہائی لائٹ تھے۔ ’’شکوہ‘‘ اور ’’باجی‘‘ کے ساتھ سابقہ مشرقی پاکستان کی سپرہٹ نغماتی، معاشرتی فلم ’’تلاش‘‘ کراچی کے جوبلی سنیما پر عیدالاضحیٰ پر ریلیز ہوئی، جس میں شبنم اور رحمٰن نے مرکزی کردار ادا کیے، جب کہ سبھاش دتہ نے رکشے والے کا یادگار عوامی کردار ادا کرکے عوام سے خوب داد پائی۔ باکس آفس پر عید کی فلموں میں ’’تلاش‘‘ کا بزنس سب سے زیادہ تھا۔ اس فلم نے شان دار گولڈن جوبلی منائی تھی۔ روبن گھوش اس فلم کے موسیقار تھے ،جنہیں فلم کی سپرہٹ موسیقی کی وجہ سے سال کے بہترین موسیقار کا نگار ایوارڈ دیا گیا۔ اس فلم کا ایک گانا؎ ’’میں رکشہ والا متوالا‘‘
جو کراچی سے ڈھاکا تک بے حد مقبول ہوا تھا۔ان تینوں فلموں نے عیدالاضحیٰ کی خوشیوں میں ایسے رنگ بھر دیے تھے کہ لوگوں کا ہجوم سنیما ہائوسز میں عید گزرنے کے بعد کئی ہفتوں تک موجود رہا۔
ایسی ہی ایک اور یادگار فلم عیدالاضحیٰ جمعرات 27؍فروری 1969ء کو باکس آفس پر ’’نئی لیلیٰ نیا مجنوں‘‘ جیسی بلاک بسٹر پلاٹینم جوبلی فلم لے کر آئی۔ تفریح سے بھرپور کامیڈی سپرہٹ نغمات سے آراستہ فلم کراچی کے جوبلی سنیما میں ریلیز ہوئی تھی۔ یہ ایک ایسی فلم تھی، جو نہ صرف اس وقت کام یاب رہی، بلکہ جب تک سنیما ہائوسز قائم رہے، اس فلم نے اپنا بزنس قائم رکھا۔ اس فلم میں نسیمہ خان، کمال، عالیہ اور لہری نے مرکزی کردار کیے۔ ماڈرن ازم کے فروغ پر یہ ایک دل کش، خُوبصورت فلم ثابت ہوئی، جس میں اداکارہ عالیہ اور اداکار لہری کی شان دار کارکردگی کی بنیاد پر انہیں نگار ایوارڈ ملے۔ فلم کے تمام نغمے بے حد سپرہٹ ہوئے جن میں؎
’’او میری محبوبہ بتلا تو کیا ہوا
ندیا کے بیچ گوری کا
دل دل سے ملے پھول کھلے
دیکھیے بے بی یوں
جانے مجھے کیا ہوگیا ہے‘‘
نے اپنے دور میں مقبولیت کے ریکارڈ قائم کیے تھے۔ اسی فلم کے ساتھ اس بڑی عید پر ہدایت کار ظفر شباب کی نغماتی، رومانی فلم ’’درد‘‘ کراچی کے اور لاہور کے صنوبر سنیما میں پیش کی گئی۔ ہدایت کار رضا میر کی خُوب صورت فلم ’’آسرا‘‘ کراچی کے اوڈین اور لاہور کے خیام سنیما کے پردے کی زینت بنی۔ فلم ’’درد‘‘ میں اعجاز، دیبا، مسعود اختر نے اہم کردار ادا کیے۔ مہدی حسن کے گائے ہوئے یہ دو گیت’’؎
شمع جلتی رہے گی پروانہ چلا جائے گا
سامنے آکے تجھ کو پکارا نہیں‘‘
بے حد مقبول ہوئے۔ یہ فلم باکس آفس پر کوئی رنگ نہ جما سکی، جب کہ محمد علی اور شبنم کی نغماتی، رومانی فلم ’’آسرا‘‘ اپنے بہترین سبجیکٹ اور مسحورکن موسیقی کی وجہ سے سلور جوبلی منانے میں کام یاب رہی۔ موسیقار نثار بزمی کی کمپوزیشن میں رونا لیلیٰ کی گائیکی میں؎
’’پیا آئے نہ ساری رات
موسم بہار کا ہے
تو جیسا بھی ہے سانوریا‘‘
بے حد مقبول ہوئے۔ اس فلم میں مصطفی ٰ قریشی، چھم چھم، رنگیلا، روزینہ، رتن کمار، ساقی، نبیلہ، احمد رشدی، ایم۔ ڈی شیخ، ارسلان، اشفاق رسول کے نام بھی بہ طور اداکار شامل ہیں۔ عیدالاضحیٰ کی بڑی فلموں کے ایسے کئی سال آج یادگار تاریخ بن کر باکس آفس کی کام یابی کو یاد کرتے ہیں۔ یکم نومبر 1979ء کی عیدالاضحیٰ پر ریلیز ہونے والی میگا سپرہٹ فلم ’’مس ہانگ کانگ‘‘ نے پورے ملک میں شان دار بزنس کے تمام سابقہ ریکارڈ توڑ دیے۔ کراچی کے پہلے 70؍ایم ایم اسکرین پر یہ فلم اپنی ریلیز سے قبل ہی ایڈوانس بکنگ کے نئے ریکارڈ قائم کرچکی تھی، دو ماہ کی ایڈوانس بکنگ ہوچکی تھی۔ ہر شو چھ ماہ تک ہائوس فل جاتا رہا۔ موج مستی، ہنگامے سے بھرپور اس فلم میں وراسٹائل ماڈل اور سپر اسٹار بابرہ شریف نے ’’مس ہانگ کانگ‘‘ کے ایکشن کردار میں ثابت کردیا کہ صرف فلمی ہیرو ہی ایکشن سپرہٹ فلم نہیں دے سکتے، اس معاملے میں ہیروئن بھی پیچھے نہیں۔
فلم میں ان کا کردار ڈبل رول کی صورت میں تھا۔ آصف رضا میر اور عثمان پیرزادہ ان کے ہیروز میں شامل تھے ،جب کہ اداکار ننھا نے بہترین کامیڈی سے فلم بینوں کو خُوب ہنسایا۔ فلم کی دیگر کاسٹ میں طارق عزیز، منور سعید، ناصر چن، نیر سلطانہ کے نام شامل تھے۔ عیدالاضحیٰ کی یہ پہلی سب سے زیادہ بزنس کرنے والی فلم تھی ،اس کے بعد ہدایت کار نذر شباب کی ایکشن اور نغماتی فلم ’’بوبی‘‘ نے عیدالاضحیٰ پر ریلیز ہوکر اس فلم کا ریکارڈ بریک کیا تھا۔ ’’بوبی‘‘ 1984ء میں ریلیز ہوئی تھی۔ اس عیدالاضحیٰ پر دوسری دھماکا خیز سپرہٹ فلم ’’گہرے زخم‘‘ تھی۔ ممتاز علی خان کی ڈائریکشن میں بننے والی اس سپرہٹ ایکشن فلم میں بدر منیر، نغمہ اور مصطفیٰ قریشی نے اپنے فنی کیریئر کے یادگار کردار کیے تھے۔ کراچی میں اس فلم کا مین تھیٹر نشیمن تھا، جب کہ لاہور میں صنوبر اس کا مرکزی تھیٹر تھا۔ کراچی میں شان دار گولڈن جوبلی کرنے والی اس فلم میں نجمہ، مسرت شاہین اور آصف خان نے بھی اہم رولز کیے تھے۔
اس یادگار بڑی عید پر لاہور سرکٹ میں ہدایت کار حیدر چوہدری کی مزاحیہ، اصلاحی پنجابی فلم ’’دبئی چلو‘‘ نے لاہور کے نغمہ سنیما میں کام یابی کے ساتھ شان دار بزنس کیا۔ مزاحیہ اداکار علی اعجاز کی ہیرو شپ اسی فلم سے شروع ہوئی تھی۔ اردو اور پنجابی فلموں کی سپر اسٹار ممتاز اس فلم میں علی اعجاز کی ہیروئن تھیں۔ اس عید پر جو دیگر فلمیں ریلیز ہوئیں، ان میں حسن طارق کی ’’نواب زادی‘‘ جو ناکام رہی۔ ’’دبئی چلو‘‘ کے علاوہ جو پنجابی فلمیں اس عید پر ریلیز ہوئیں، ان میں ’’دہشت‘‘ ’’گلو بادشاہ‘‘ ’’سوہنی دھرتی‘‘ ’’شیرا تے چیتا‘‘ کے نام بھی شامل ہیں۔ 1979ء کی عیدالاضحیٰ کے وہ خوش گوار لمحات آج بھی آنکھوں کے سامنے ہیں، جب کراچی کے اوپن ایئر ڈرائیون سنیما میں آخری شو میں لوگ اپنی کاروں کے ساتھ فلم کی تفریح سے لطف اندوز ہوتے تھے۔ ڈرائیون سنیما کی ہوادار فضا میں بڑی عید کے مختلف ذائقے ہر طرف اپنی خُوشبو بکھیرے ہوئے لوگوں کی فلم بینی کے دل چسپی کے مناظر پیش کررہے ہوتے تھے۔