سکھر ریجن سمیت سندھ کے مختلف اضلاع میں ان دنوں امن و امان کی صورتحال ابتر ہے، جس کی بنیادی وجہ سیاسی دباؤ کی وجہ سے پولیس کی ڈاکوؤں و جرائم پیشہ عناصر پر گرفت کمزور ہونا ہے۔ اسی کمزوری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے دریائے سندھ کے کچے کے جنگلات میں ڈاکوؤں کے گروہ منظم ہورہے ہیں، گھوٹکی سے شکارپور تک کچے کے علاقے میںڈکیت گروہوں نے اپنی آماجگاہیں بنا رکھی ہیں۔گھوٹکی، کشمور، سکھر اور شکارپور کے کچے کے علاقے پولیس کے لئے نوگو ایریا بنتے جارہے ہیں۔پولیس کی جانب سے ڈاکوؤں کے خلاف کئے جانے والے متعدد آپریشن غیر موثر ثابت ہوئے اور پولیس کو ہی جانی نقصان کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ نیشنل ہائی وے، انڈس ہائی وے پر رات کے وقت سفر کرنا خطرے سے خالی نہیں ہے۔
شہری علاقوں میں بھی چوری، ڈکیتی، لوٹ مار اور اسٹریٹ کرائم کے واقعات بھی بڑھتے جارہے ہیں۔ پولیس کی جانب سے ڈاکوؤں کے خلاف کیا جانے والاآپریشن بغیر کوئی کامیابی حاصل کئے ختم کردیا گیا ہے اور کسی ڈاکو کی گرفتاری تو بہت دور کی بات ہے مذکورہ آپریشن میں پولیس کو جانی نقصانات کا سامنا بھی کرنا پڑا۔
ماضی پر نظر ڈالی جائے تو دریائے سندھ کے کچے کے علاقے ڈاکوؤں کی آماجگاہ بنے ہوئے تھے اور کچے کے جنگلات میں ڈاکوؤں کی محفوظ پناہ گاہیں تھیں۔ اس وقت کے آئی جی سندھ غلام حیدر جمالی نے ڈاکوؤں کا قلع قمع اور ان کے گرد گھیرا تنگ کرنے کے لئے کچے کے جنگلات میں متعدد آپریشن کئے اور بڑی حد تک ڈاکوؤں کا خاتمہ کیا گیا۔ ان کے بعد اے ڈی خواجہ نے ڈاکوؤں کی سرکوبی کو یقینی بنایا۔ اے ڈی خواجہ کے تبادلے کے بعد سید کلیم امام نے پولیس میں بہتری کے لئے اقدامات کئے۔ ان کا بڑا اقدام پولیس کو تین ریجن میں تقسیم کرنا تھا۔
اس اقدام کے کوئی خاطر خواہ نتائج برآمد نہیں ہوئے۔ آئی جی سندھ مشتاق مہر کی تعیناتی کے بعد یہ امید کی جارہی تھی کہ وہ سندھ میں اغوا برائے تاوان سمیت دیگر جرائم کی بڑھتی ہوئی شرح کو کم کرنے اور ڈاکوؤں کی محفوظ پناہ گاہوں کے خاتمے کے لئے موثر اقدامات کریں گے مگر افسوس کہ ان کی جانب سے اس ضمن میں کوئی خاطر خواہ توجہ نہیں دی گئی، جس کا خمیازہ امن و امان کی بگڑتی صورتحال میں سامنے آرہا ہے۔ ڈاکوؤں کے خلاف پولیس نے اب تک متعدد آپریشن تو کئےمگر ان میں پولیس کو کوئی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں ہوئی بلکہ اسے جانی نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔ ڈاکوؤں کے حوالے سے سکھر ریجن سندھ کا سب سے خطرناک ریجن ہے، جس میں شاہ بیلو کا کچے کا علاقہ بھی شامل ہے۔
ضلع شکارپور کے کچے کے جنگلات میں ڈاکوؤں کے ساتھ مقابلے میں پولیس کو جانی نقصان کا سامنا کرنا پڑا اور ایک ڈی ایس پی سمیت متعدد پولیس افسران و اہلکار جام شہادت نوش کرچکے ہیں۔ حال ہی میں گھوٹکی کے کچے کے علاقے رونتی میں پولیس نے ڈاکوؤںکے خلاف جو آپریشن شروع کیا تھا چند ہی روز میں اس آپریشن کو بند کردینے کی اطلاعات بھی سامنے آئی ہیں۔ اس آپریشن میں بھی پولیس کو کوئی کامیابی حاصل نہیں ہوئی بلکہ اس آپریشن میں ایک پولیس اہلکار شہید جبکہ 10 اہلکار زخمی ہوئے ہیں۔
اس وقت صورتحال یہ ہے کہ پولیس کی ڈاکوؤں و جرائم پیشہ عناصر پر گرفت کمزور ہونے کے باعث اغوا برائے تاوان سمیت ڈکیتی، چوری ودیگر اسٹریٹ کرائم کی وارداتوں میں اضافہ ہورہا ہے۔ نیشنل ہائی وے اور لنک روڈ پر بھی لوٹ مار اور رہزنی کی وارداتیں بھی بڑھ رہی ہیں۔ ان وارداتوں کا بھی پولیس کی جانب سے بڑی حد تک خاتمہ کردیا گیا تھا اور رات کے اوقات میں سفر انتہائی محفوظ سمجھا جاتا تھا مگر اب صورتحال دوبارہ سے بگڑنے لگی ہے، جو کہ سندھ پولیس کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے۔ سندھ کے مختلف اضلاع میں اس وقت بھی متعدد افراد ڈاکوؤں کے چنگل میں ہیں۔ملک کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو کچے کے علاقے میں بلاکر اغوا کرنیوالے گروہ سرگرم ہیں، متعدد افراد اس وقت بھی کچے کے جنگلات میں ڈاکوؤں کے چنگل میں پھنسے ہوئے ہیں۔
پولیس کی جانب سے اگر کوئی آپریشن کیا بھی جاتا ہے تو اس میں خاطر خواہ نتائج سامنے نہیں آتے، جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ایسے پولیس افسران جو کہ ڈاکوؤںکے خلاف آپریشن کے حوالے سے شہرت رکھتے ہیں وہ یا تو غیر فعال دکھائی دیتے ہیں یا متعدد پولیس افسران کو سائیڈ پوسٹوں پر اور ایسے اضلاع میں رکھا گیا ہے جن اضلاع میں سنگین نوعیت کے کرائم نہیں ہیں، جہاں سے وہ امن و امان کی بگڑتی صورتحال کو قابو کرنے کے لئے کوئی اقدامات نہیں کرسکتے۔
مبصرین کا یہ کہنا ہے ایک مرتبہ سندھ میں پھر اغواء برائے تاوان جیسی سنگین وارداتوں سمیت چوری، ڈکیتی، لوٹ مار اور اسٹریٹ کرائم کی وارداتوں میں اضافہ ہورہا ہے اس لئے ضروری ہے کہ حکومت توجہ دے اور پولیس کی جانب سے نت نئے تجربات کے بجائے ماضی قریب میں سابق آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ کی جانب سے پولیس کی کارکردگی کو بہتر بنانے، ڈاکوؤں و جرائم پیشہ عناصر کا قلع قمع کرنے کے لئے کئے جانیوالے اقدامات کا جائزہ لے کرپالیسیاں مرتب کی جائیں تو نہ صرف سندھ میں جرائم کی شرح کو کم کیا جاسکتا ہے بلکہ کچے کے علاقوں میں موجود ڈاکوؤں کا قلع قمع بھی کیا جاسکتا ہے۔ دوسری جانب سوشل میڈیا پر بھی انعام یافتہ ڈاکوؤں کے انٹرویو بھی سامنے آرہے ہیں جن میں ان ڈاکوؤں کی اکثریت کا یہ کہنا ہے کہ وہ قبائلی جھگڑوں کی وجہ سے جنگل میں روپوشی کی زندگی گزار رہے ہیں اگر حکومت، پولیس کے بالا افسران انہیں تحفظ کی ضمانت دیں تو وہ اپنے قبیلے کے سردار یا بااثر شخصیت کی موجودگی میں سرنڈر کرنے پر تیار ہیں وہ بھی چاہتے ہیں کہ ان کے بچے بھی تعلیم حاصل کریں اور جرائم کی دنیا کے بجائے اچھےشہری بن سکیں۔
ڈاکوؤں و جرائم پیشہ عناصر کے سر اٹھانے، اغوا برائے تاوان، چوری، ڈکیتی اور نیشنل ہائی وے سمیت لنک روڈز پر رہزنی کی وارداتوں سمیت شہروں میں اسٹریٹ کرائم کے واقعات بڑھنے سے لوگوں میں عدم تحفظ کا احساس پیدا ہورہا ہے۔ پولیس کی کارکردگی کو بہتر بنانے کے لئے ضروری ہے کہ آئی جی سندھ مشتاق مہر کی جانب سے اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کی جائے۔ایسے افسران جو کہ جرائم کی سرکوبی کے حوالے سے کافی تجربہ رکھتے ہیں انہیں ان علاقوں میں تعینات کیا جائے جہاں جرائم کی وارداتوں میں اضافہ ہورہا ہے۔
امن و امان کی فضاء کو بحال رکھنے، جرائم پیشہ عناصر کی سرکوبی کے لئے تجربہ یافتہ ماضی کے اچھی شہرت رکھنے والے پولیس افسران کی خدمات حاصل کی جائیں تاکہ پولیس کی جرائم پیشہ عناصر پر کمزور پڑتی گرفت کو مضبوط کرکے اغواء برائے تاوان سمیت سنگین جرائم اور اسٹریٹ کرائم کا خاتمہ کرکے مثالی امن قائم کیا جاسکے۔
شہری علاقوں میں اسٹریٹ کریمنلز اور ڈکیت پولیس اور دیگر اداروں کی رٹ نہ ہونے کی وجہ سے آزادانہ وارداتیں کرتے ہیں۔ انہوں نے دوران ڈکیتی مزاحمت کے لیے اپنا قانون بنایا ہوا ہے اور وہ مزاحمت کار کو فوراً قتل کردیتے ہیں۔کو صوبے میں امن امان کی بحالی کے لیے مؤثر اقدامات کی ضرورت ہے ورنہ لوگ اپنے طور سے اقدامات پر مجبور ہوسکتے ہیں۔