اس وقت پوری دنیا COVID-19نامی عالمی وبا کی لپیٹ میں ہے، اس وبا کی شکل میں جو تباہی دنیا پر نازل ہوئی ہے اس نے عالمی معیشتوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ امریکہ، چین، جرمنی، برطانیہ، جاپان، فرانس اور اٹلی سمیت متعدد ترقی یافتہ ممالک اس سے نمٹنے کے لئے جدوجہد کر رہے ہیں۔
سب سے زیادہ متاثر ہونے والے شعبوں میں سیاحت اور سفر سے متعلقہ صنعتیں، نقل و حمل، آٹوموبائل صنعت، ہوٹل، ریستوران، کھیل، برقیات کے صارفین اور مالی بازار شامل ہیں۔
دنیا بھر کی اسٹاک مارکیٹوں کو بھی بری طرح نقصان پہنچا ہے جبکہ تیل کی قیمتیں مندی کا شکار ہیں۔ سرمایہ کار ابھرتی ہوئی منڈیوں (Emerging Technologies)سے پیسہ ہٹارہے ہیں، اب تک 100ارب ڈالر ان منڈیوں سے واپس لئے جا چکے ہیں، جو ان معیشتوں کو بری طرح نقصان پہنچا رہے ہیں جبکہ بحالی میں برسوں لگ سکتے ہیں، اس خطرناک صورتحال میں پاکستان کو کیا کرنا چاہئے؟ اس کا فوری حل یہ ہے کہ ہمیں چین کے ساتھ زیادہ سے زیادہ مضبوط صنعتی تعلقات استوار کرنے چاہئیں۔
ہمارے وزیر منصوبہ بندی، وزیر خزانہ اور جب ضرورت ہو تو ہمارے وزیراعظم کو چین میں اپنے وقت کا ایک خاص حصہ چینی حکومت اور ان کی بڑی کمپنیوں سے ملاقات میں گزارنا چاہئے تاکہ سی پیک (CPEC)کے تحت اعلیٰ ٹیکنالوجی کے زیادہ مالیت والے سامان کی پاکستان میں تیاری اور برآمد کے لئے مشترکہ صنعتی منصوبے قائم کئے جا سکیں۔ ہمیں چینی صنعتی گروپوں کو اپنی کچھ صنعتیں پاکستان منتقل کرنے کے لئے جو بھی مراعات درکار ہوں یا ان کی ہر پیش کش کو قبول کرنے کے لئے تیار رہنا چاہئے۔
بھارت پہلے ہی چین میں موجود متعدد امریکی، یورپی اور کورین صنعتوں کو راغب کرنےکی پوری کوشش کر رہا ہے حتیٰ کہ اس عمل کو فروغ دینے کے لئے ہندوستانی وزیراعظم نریندر مودی نے گزشتہ دسمبر ایپل، سیمسنگ اور گھریلو فون بنانے والی کمپنی لاوا کے اعلیٰ عہدیداروں سے بھی ملاقات کی ہے۔
اگلے چند برسوں میں معاشی اور سیاسی دنیا کے منظرنامے میں ایک بڑی تبدیلی دیکھنے کو ملے گی جب چین امریکہ کو ایک بڑی عالمی طاقت کے طور پر پیچھے چھوڑ دے گا اور روس اس کے بعد قریب ترین ہوگا۔ ساتھ ہی افریقہ کا عروج ہوگا جہاں نوجوانوں کی بڑی آبادی ہے جبکہ مشرق وسطی کا زوال ہوگا جو تیل کی اہمیت ختم ہونے کی وجہ سے ہوگا کیونکہ توانائی کے متبادل ذرائع (شمسی، ہوائی وغیرہ) کو اہمیت حاصل ہو جائیگی۔
مشرق وسطی کے ممالک پچھلے 40سال میں تیل کی طلب اور اعلیٰ قیمتوں کی وجہ سے ہاتھ لگے عمدہ موقع سے مستفید ہونے میں بری طرح ناکام ہوچکے ہیں۔ انہیں تیل کی آمدنی سے موصول کنندہ سرمایہ مضبوط علمی معیشتوں کی تعمیر میں لگانا چاہئے تھا لیکن ایسا کرنے میں وہ ناکام رہے۔
مغربی اور اسلامی دنیا کے مابین سائنسی اور تکنیکی مہارت میں فرق بہت زیادہ ہے۔ اس کی عکاسی اس حقیقت سے ہوتی ہے کہ صرف کیمبرج یونیورسٹی کے 120اساتذہ کو نوبل انعامات دیے گئے ہیں جبکہ اب تک ایک بھی نوبل انعام اسلامی دنیا میں کسی بھی سائنس دان نے کسی اسلامی ملک میں ہونے والی تحقیقات کے بل بوتے پر نہیں حاصل کیا ہے۔
ہمارے وزیراعظم جناب عمران خان نے ایک مضبوط علمی معیشت کی تعمیر میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کرنے کا عزم کیا ہے۔ ان ارادوں پرفوری طور پر عمل درآمد کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک مضبوط علمی معیشت کی تعمیر کے لئے، پاکستان کو ایک ایسی کابینہ کی ضرورت ہے جس میں اس بات کا ادراک ہو کہ علمی معیشت کی تشکیل کس طرح کی جاتی ہے۔
سنگاپور، کوریا اور تائیوان کی طرح اعلیٰ ٹیکنالوجی سامان کی تیاری اور برآمد کے لئے قومی صلاحیتوں کو تیار کرنے پر یک طرفہ توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں پانچ ضروری اقدامات کرنے کی ضرورت ہے جویہ ہیں:
(1)اسکول، کالج اور جامعات کی سطح پر معیاری تعلیم کے ساتھ صنعتی اور زرعی تحقیق میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری۔
(2)عمدہ کارکردگی کے مراکزکے ذریعے سائنس اور انجینئرنگ کو مستحکم کرنا اور صنعتی ترقی سے منسلک کرنے پر زور دینا۔
(3)جدت طرازی کے فروغ کے لئے وینچر کیپیٹل فنڈز، صنعتی مصنوعات کی ترقی کے لئے سائنس وٹیکنالوجی پارکس کا قیام، ٹیکس کی تعطیلات کے ساتھ اعلیٰ تکنیکی سامان سازی زونز کا قیام اور دفاعی مصنوعات کی تیاری اور برآمد میں پاکستان کی مہارت کو بڑھانا۔
(4)نئی اور ابھرتی ہوئی ٹیکنالوجی پر توجہ مرکوز کرنا جو توقع کی جاتی ہے کہ اگلے 5برس میں 100کھرب ڈالر سے زائد کا کاروبار کریں گی۔ ان میں مصنوعی ذہانت، صنعتی بائیو ٹیکنالوجی، نیکسٹ جنریشن جینومکس، توانائی تحفظ نظام، تھری ڈی پرنٹنگ، وغیرہ شامل ہیں۔
(5)بلا سود قرضوں اور رسک کیپٹل کے ذریعہ نجی شعبے کی مدد کی جائے تاکہ اعلیٰ ٹیکنالوجی مصنوعات کی تیاری اور برآمد کو فروغ دیا جا سکے۔ اس سلسلے میں، حکومت کو ٹیکس چھوٹ جیسی مناسب مراعات کے ذریعے نجی شعبے میں جارحانہ طور پر تحقیق و ترقی کو فروغ دینا ہوگا۔
تاہم تعلیم یا سائنس میں سرمایہ کاری اس وقت تک ذود اثر نہیں ہو سکتی جب تک ہم بیک وقت حکومت میں اہم اصلاحات متعارف نہ کروائیں۔ ان میں سب سے اہم ضرورت ایک موثر اور منصفانہ نظام انصاف کو متعارف کروانا ہے تاکہ بدعنوان افراد کو فوری اور مثالی سزا دی جائے۔
ہماری پارلیمنٹ زبانی کلامی جھگڑوں تک محدود ہو کر رہ گئی ہے، سنگین قومی معاملات یا مناسب قانون سازی پر کوئی بحث و مباحثہ ہی نہیں ہوتا ہے۔ بلدیاتی انتخابات کے بعد اقتدار اور رقوم کو نچلی سطح پر منتقل کرنے میں ہماری ناکامی نے پارلیمانی نظام جمہوریت کا مذاق بنا کر رکھ دیا ہے۔
یہ سمجھنا ضروری ہے کہ پچھلی چند دہائیوں میں عالمی سطح پر سامان سازی اور برآمدات کی قیمتوں میں نمایاں تبدیلی آئی ہے۔ اعلیٰ تکنیکی مصنوعات اب عالمی تجارت پر حاوی ہیں لیکن کل برآمدات میں پاکستان کی اعلیٰ تکنیکی مصنوعات کا حصہ انتہائی کم ہے۔
ہماری برآمدات کا 60فیصد حصہ کم قیمت والی کپڑا سازی کی صنعت پر مشتمل ہے۔ مصنوعی ذہانت، معدنی پروسیسنگ، اعلی تکنیکی زراعت اور مائیکرو برقیات جیسے شعبوں میں پاکستان کے ترقی کرنے کے کافی مواقع موجود ہیں۔ لہٰذا ہمیں جلد ہی ’’کپڑا سازی کی بیماری‘‘ سے دور ہونا چاہئے، جو ہمیں آگے بڑھنے سے روکے ہوئے ہے اور کل کی دنیا میں قائدانہ حیثیت حاصل کرنے کے لئے نئی اور ابھرتی ہوئی ٹیکنالوجی پر مشتمل بڑی صنعتیں تیار کرنی چاہئیں۔
آج ہمیں یہ سمجھنا چاہئے کہ ہمارےسب سے قیمتی وسائل ہماری نو جوان نسل ہے۔ صرف ان کی تخلیقی صلاحیتوں کو اجاگر کر کےہی ہم کووڈ 19کے بعد کے دور میں آگے بڑھ سکتے ہیں اور نئے عالمی چیلنجوں کا مقابلہ کرسکتے ہیں۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)