• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گزشتہ برس انہی دنوں میں امریکہ میں تھا، اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ اور وہائٹ ہاؤس کے حکام سے ملاقات طے تھی۔ امریکی دانشوروں، جو فیصلہ سازی میں بنیادی اہمیت رکھتے ہیں، سے گفتگو ہو رہی تھی۔ ان تمام ملاقاتوں، مباحثوں میں ایک بات بالکل واضح طور پر محسوس ہو رہی تھی کہ امریکہ میں یہ تصور بہت مضبوطی سے موجود ہے کہ بھارت کشمیر میں ایسا کھیل کھیلنے جا رہا ہے کہ جس سے وہ اس بات کی دھاک دنیا میں بٹھا سکے کہ وہ جنوبی ایشیا میں جو چاہے کر سکتا ہے اورجنوبی ایشیا میں موجود اس کے مدِمقابل ملک پاکستان کے لیے یہ ممکن نہیں ہوگا کہ وہ کشمیر جیسے حساس انسانی اہمیت کے معاملے پر بھارت کو سے روک سکے۔ سوال یہ پیدا ہو رہا تھا کہ اب بھارت کے لئے کیوں کر ممکن ہو رہا ہے؟۔ اس سوال کے جواب دو ہی ہیں۔ اول یہ کہ جب کسی ملک کا سیاسی نظام کمزوری کا شکار ہو جائے، وہاں کے انتخابی عمل پر سوالیہ نشان لگ جائیں جس کے نتیجے میں سیاسی انتشار بڑھتا چلا جائے تو اِس مشق کی قیمتِ معیشت ادا کرتی ہے اور یہ قیمت معیشت سے ہوتی ہوئی خارجہ پالیسی تک چلی جاتی ہے۔ پاکستان کے لئے دوسرا معاملہ خوف کی پالیسی ہے، خوف کی پالیسی سے مراد یہ ہے کہ کسی معاملے میں احتیاط برتنا تحمل اختیار کرنا حکمتِ عملی کہلاتا ہے مگر اس بات کا واویلا مچاتے پھرنا کہ بھارت ہمیں دنیا میں تنہا کر نا چاہتا ہے اور یہ ہم ہی ہیں کہ جس کے سبب سے وہ ایسا نہیں کر پا رہا ۔ ایسا شور مچانے سے قوم کی اجتماعی نفسیات پر برا اثر پڑتا ہے۔ حالاںکہ دنیا میں کوئی بھی ملک کسی کو بھی اس وقت تک تنہا کر ہی نہیں سکتا جب تک وہ ملک صدام اور قذافی کی مانند خود کو تنہا نہ کر ے۔ پاکستان تو دنیا کے بڑے ممالک میں سے ہے۔ قطر ہی کی مثال لے لیجئے قطر کو اپنے دیگر ہمسایہ ممالک سے بار بار مسائل کا سامنا ہو جاتا ہے مگر قطر اپنی جگہ پر موثر ہے اور اس کو تنہا کرنے کے اقدامات ناکام ثابت ہو گئے۔ عالمی اداروں میں کامیابی کی بنیادی شرط موثر ہونا ہی ہوتا ہے۔ فٹ بال ورلڈ کپ کی تیاریاں بھی زور و شور سے جاری ہیں۔ شیڈول بھی جاری ہوچکا، مخالفین اس پر بہت تلملائےمگر قطر کو تنہا نہ کر سکے۔ ایران کی مثال سامنے ہے۔ امریکہ کی مخالفت کے سبب جہاں بھارت جیسے ممالک تعلقات میں پیچھے ہٹ رہے چابہار کو خیرباد کہہ رہے ہیں ۔ وہیں پر یورپی یونین ایران سے تعلقات کی کشیدگی سے خود کو دور رکھ رہی ہے۔ ایران کے لیے اگر امریکہ راستے بند کرنے کی کوشش کر رہا ہے تو چین سے وہ قربتیں بڑھا رہا ہے معاہدوں پر پہنچ رہا ہے حالانکہ ابھی معاہدوں میں ابہام موجود ہے۔ چین بھی اپنے تعلقات کو بس ایران کی حد تک محدود نہیں رکھ رہا ، اس کے انڈے صرف ایک ٹوکری میں موجود نہیں۔ سعودی عرب سے اس کی ایک مستقل کانفرنس ہوتی ہے ایران سے چینی معاہدے کے بعد سعودی عرب سے شیڈول کے مطابق چین کی کانفرنس ہوئی اور اس تصور کو چین نے رفع کروا دیا کہ ایران سے چین کے بڑھتے تعلقات کی وجہ سے سعودی عرب خفا ہو سکتا ہے۔ خفا ان سے ہوا جاتا ہے جو آپ پر تکیہ کرتے ہیں ورنہ صرف مفادات کا تحفظ ہوتا ہے کسی کو تنہا کرنا تو درکنار شدید اختلافات کی صورت میں بھی اس بات کا خیال رکھا جاتا ہے کہ یہ اختلافات، مفادات کو نقصان پہنچانے کا باعث نہ بن جائیں جو مفادات حاصل کئے جا رہے ہیں۔ چین اور امریکہ اس کی واضح مثال ہیں، امریکہ اور چین میں تجارت پر شدید اختلافات ہے ان اختلافات کے نتیجے کے طور پر امریکہ نے ہانگ کانگ کے حوالے سے ایک موقف اختیار کر لیا ہے کہ چین وہاں پر یہ کرے اور یہ نہ کرے۔ یہ بالکل واضح ہے کہ چین اپنی ہانگ کانگ پالیسی امریکی خواہشات پر ترتیب نہیں دے سکتا ہے ۔ دونوں ممالک اس حوالے سے ایک دوسرے پر شدید لفظی گولہ باری بھی کر رہے ہیں۔ تعلقات میں تناؤ موجود ہے مگر اس سب کے باوجود چین امریکا کا سب سے بڑا تجارتی پارٹنر ہے اوردونوں ممالک اس پارٹنرشپ سے زبردست فائدہ بھی حاصل کر رہےہیں۔ اس لئےیہ بالکل واضح ہوجانا چاہئے کہ بھارت پاکستان کو تنہا کر دے گا بالکل بےمعنی بات ہے۔ یہ درست ہے کہ گزشتہ کچھ عرصے میں بھارت نے پاکستانی عوام سے زبردست اعصابی جنگ لڑی ہے کشمیر میں وہ جو کچھ کر رہا ہے وہ درحقیقت پاکستانیوں کو اپنے مزید مسلز دکھانے کے مترادف ہے ۔ جواب بھی ممکن ہے جو بہت اہم ہوگا۔ عدالتی تصدیق شدہ دہشت گرد بھارتی فوجی افسر کلبھوشن یادیو کی پھانسی ایک ایسا جواب ہوگا کہ جس سے قومی مورال بھی بلند ہوگا اور نفسیاتی کیفیت بھی درست ہوگی مگر یہاں تو یہ حال ہے کہ نئے آرڈیننس جاری کیے جارہے ہیں تاکہ وہ واپس جا سکے اگر ایسا ہوا تو صرف قوم کا ہی مورال نہیں گرے گا بلکہ موجودہ سیاسی بندوبست کے خالقوں کے ماتحت بھی دل گرفتہ ہونگے کہ ہم صرف قومی سیاست دانوں کے خلاف ہیں فیصلے وٹس ایپ پر لے سکتے ہیں وہ بھی ان سے جو خود بعد میں برطرف ہو جاتے ہیں۔

تازہ ترین