یہ 1759ء کا ذکر ہے۔ دریائے سندھ کے کنارے چھوٹی، بڑی بستیوںمیں زندگی معمول پر تھی۔ ہاری اپنی فصلوں کی دیکھ بھال میں مصروف تھے۔ پرندے درختوں کی شاخوں پر اٹھکیلیاں کررہے تھے، پہاڑوں و صحرائوں کی مختلف سمتوںمیں قافلے رواں دواں تھے۔ محبت کے گیتوں سے فضا گونج رہی تھی کہ اچانک زمین میں گڑگڑاہٹ ہوئی اور ایک زبردست زلزلہ آگیا جس کےنتیجے میں ہمالیہ کی کوکھ سے جنم لینے والا شیردریا یا دریائے سندھ نے اپنا رخ موڑ لیا۔ تیار فصلیں سیلاب میں ڈوب گئیں۔
قافلے اپنا راستہ بھول گئے، آبادیاں متاثر ہوئیں۔ اس زلزلے سے قبل کلہوڑا حکمراں اپنی حکومت کا محفوظ پایہ تخت تلاش کرنے کی جستجو میں شاہ پور، اللہ باد، خدا آباد سمیت دیگر علاقے آباد کرچکے تھے۔ انہیں اس زلزلے کے بعددوبارہ محفوظ مقام کی تلاش کی ضرورت محسوس ہوئی۔ اسی تلاش نے انہیں کیرتھر پہاڑی سلسلے کی ایک ٹیکری پرواقع نیرون کوٹ پہنچادیا۔ یہ وہ وقت تھا جب برصغیر میں مغلیہ سلطنت دم توڑ رہی تھی۔ چنانچہ قلعہ کی ازسرنو تزئین و آرائش کرائی گئی اور اس شہرکانام ’’حیدرآباد‘‘ رکھا۔ حیدرآباد کو تالپوردور حکومت میں وسعت ملی، پڑ، پاڑے، محلے بسائے گئے مگراسی دوران تالپوروں اور انگریزوں کے مابین میانی کے مقام پر معرکہ ہوا جس کی بنا پر حیدرآباد، یونین جیک پرچم کے زیرنگیں آگیا۔
یہ سن 1808ء ہے۔ شہر کی آبادی محض 15؍ ہزار نفوس پر مشتمل ہے۔ دھول اڑاتے راستے ،بے ترتیب گھاس پھوس سے بنی جھونپڑیاں، کہیں کچی مٹی سے لپے مکانات، زمین پر رکھی اشیائے خورونوش کی خرید و فروخت ہونے والے اس شہر کی اصل شناخت یہاں کی ٹھنڈی ہوائیں اور سرمئی شامیں تھیں۔ انگریزوں کی سندھ میں آمد اور حیدرآباد میں ان کی خصوصی دل چسپی کے سبب اس شہر نے رہن سہن کا نیا روپ دھارا لیکن اس کے روپ سروپ کو بڑھانے میں انگریزوں نے مقامی ہندوئوں کو خصوصی مراعات، خطابات، القابات، جائیدادوں یا اثاثوں سے نوازا۔
چنانچہ ان کچے مکانات کی جگہ راجستھانی پتھروں سے خوب صورت پرشکوہ محل تعمیر ہونے لگے تو کہیں سرمائے یا مواقع کی کمی کے سبب سرخ اینٹوں کی مدد سے حویلی نما مکانات بنائے جانے لگے۔ بازاروں کی رونق میں اضافے اور لوگوں میں وقت کا احساس اجاگر کرنے کے لئے کہیں بڑے شہروں کے بازاروں کے آغاز، وسط اور اختتام پر جا بجا کلاک ٹاورز تعمیر کرائے گئے۔ ان میں گوتھک طرز تعمیر اورتتلی کی شکل کا حامل حیدرآباد میونسپلٹی کے پہلے صدر نول رائے کے نام سے منسوب نول رائے مارکیٹ کلاک ٹاور بھی شامل ہے۔ سرخ اینٹوں اور راجستھانی پتھروں سے یہ عمارت تالپور دور حکومت میں جیسلمیر سے حیدرآباد آنے و الے سنگ تراشوں نے اس کی تعمیرکا آغاز 1911ء میں کیا اور 6؍ سال میں ایک لاکھ 38؍ ہزار روپے کی لاگت سے اس کی تعمیر مکمل ہوئی۔
کلاک ٹاورکی اونچائی 83؍ فٹ اور چوڑائی 492 گز اراضی پر محیط ہے۔ بازار کی گزرگاہ کے عین اوپر ٹاور میں 3؍ بڑے کمرے ہیں جن میں داخل ہونے کے لئے مشرق اور مغرب کی سمت سیڑھیاں ہیں جب کہ کمروں کی کھڑکیاں شمال اور جنوب کی سمت کھلتی ہیں۔ درمیانی کمرے سے ہی غلام گردش بالائی کمرے میں جاتی ، جہاں عمارت کے چاروں سمت 4؍ گھڑیال لگے ہوئے تھے اور انتہائی وزنی کانسی کابنا گھنٹہ از خود ہر ایک گھنٹے بعد اتنے زور سے بجتا تھا کہ اس کی آواز میلوں دورسنائی دیتی تھی۔ اس گھنٹے کی آواز سے نہ صرف شہریوں کو اپنے قیمتی وقت کے گزرنے کا احساس رہتا تھا بلکہ ان کے روزمرہ کے معمولات زندگی بھی اسی گھنٹہ گھر سے جڑے ہوئے تھے۔ اس گھنٹہ گھر کی مشینیں برطانیہ سے منگوا کر نصب کی گئی تھیں جس کے لئے برطانوی انجینئرز کی خدمات حاصل کی گئی تھیں۔
گھنٹہ کی گھڑیوں کا پورا نظام چین نما چابی سے مشروط تھا اور اسے چابی دینے کے لئےحیدرآباد میونسپلٹی نے ایک ملازم رکھا تھا جسے50 روپے ماہانہ تنخواہ دی جاتی تھی۔ یہ آسامی اب بھی ریکارڈ پر موجود ہے، مگر 80ء کی دھائی میں نہ تو ملازم رہا اور نہ ہی اس گھنٹہ گھر کاشاندار حسن برقرار رہا۔ رہی بات بالائی کمروں تک جانے والی لکڑی کی سیڑھی، یا وہ کمرے ،جن میں مکڑی نے اپنے جالے بنالئے تھے۔کبوتروں نے اس قدر بیٹ کی تھی کہ پورا اندرونی ماحول تعفن زدہ ہوگیا۔ وہی ٹوٹی پھوٹی ساگوان کی لکڑی کی کھڑکیاں اور دیواروں پر پڑنے والی دراڑیں جو متعلقہ اداروں کی نا اہلی پر نوحہ کناں تھے۔ طرفہ تماشایہ کہ جو عمارت ہمیشہ حیدرآباد کی شناخت رہی، اس کی دم توڑتی سانسوں کی بحالی کے بجائے اسے ایک کونسلر کے دفتر میں تبدیل کردیا گیا۔
بعد ازاں حیدرآباد کے مختلف علاقوں میں قائم بلدیہ حیدرآباد کے چنگی ناکوں سےوصول کی جانے والی رقم اور دفتری امور کی انجام دہی کے لئے یہاں محکمہ آکٹرائے کا مرکزی دفتر قائم کردیا گیا لیکن بعد ازاں بلدیہ اعلیٰ حیدرآباد کی انتظامیہ نے بعض وجوہ کی بنا پر اسے ختم کردیا اور دفتر بھی خالی کرالیا… پھر ہوا یوں کہ اس گھنٹہ گھر کی مشینری وقت پر چابی نہ دیئے جانے اور مناسب دیکھ بھال نہ ہونے کی بنا پر کارآمد نہیں ر ہی ،قیمتی و نایاب گھڑی کو درست کرانے کی آڑ میں نکال کر نہ جانے کہاں گم کردی گئی جس کا سراغ آج تک نہیں لگایا جاسکا۔ ابھی شہریوں، خصوصاً نوادرات سے محبت رکھنے والے افراد کا یہ دکھ کم نہیں ہوا تھا کہ اس کے کانسی کا بھاری بھرکم گھنٹہ بھی رات کی تاریکی میں اتار کر غائب کردیا گیا۔
وقت خاموشی سے گزرتا رہا اور نول رائے مارکیٹ کلاک ٹاور سمیت حیدرآباد کی قدیم تاریخی عمارتوں سے قیمتی نوادرات چوری ہوتے رہے۔ واضح رہے کہ حیدرآباد میں اب تک اس بااثر اور منظم گروہ کا انکشاف نہیںہوا ،نہ ہی وہ اب تک قانون کی گرفت میں آسکے ہیں جنہوںنے حیدرآباد میں تھیوسوفیکل سوسائٹی کےتحت تعمیر ہونے والی عمارت بسنت ہال کے احاطے کانادر فوارہ نکال کر فروخت کردیا لیکن ان افراد کوبھی نہ پکڑا جاسکا کہ جنہوں نے پکا قلعہ کے عجائب گھر سے تالپوروں اور انگریز دور حکومت کی قیمتی تلواریں، بندوقیں، خنجر و دیگر سامان لوٹا۔نہ ہی متعلقہ اداروں نے ان افرادکو ناقابل گرفت تصور کیا جنہوں نے حیدرآباد کی مختلف گلیوں، محلوں، سرکاری عمارتوں میں انگریز دور کی یادگار ساگوان کی لکڑی کے منقش دروازوں اور الماریوں کو نکالا۔ نوادرات کی لوٹ کھسوٹ کا بازار اب بھی گرم ہے اورغالباً اس وقت تک جاری رہےگاجب تک حیدرآباد میں باقی ماندہ عمارتیں ان قیمتی اثاثوں اور ورثے سے خالی نہ ہوجائیں۔
مقامی حکومتوں کے نظام کے تحت حیدرآباد ضلعی حکومت کے ناظم اعلی کنور نوید جمیل نے مارکیٹ کلاک ٹاور کی تزئین و آرائش کرائی جس پر مجموعی طور پر 5؍ لاکھ روپے کے اخراجات آئے۔ دروازوں ر روغنی رنگ و روغن اور دراڑوں کو درکار تعمیراتی مرکب یعنی چونا، شنگر، ٹاٹ، کتھا، دالیں و دیگر اشیاء کے بجائے سیمنٹ کے استعمال کو ضروری سمجھا گیا۔ بیرونی دیواروں پر رنگ کرنے کے لئے خاص رنگ کی بجائے مقامی طور پر تیار کردہ اخروٹ پائوڈر سے بنا رنگ کرایا گیا۔ قدیم گھڑی کو شہریوں کے ذہنوں سے محو کرنے کے لئے جدید الیکٹرونک گھڑیاں مختلف سمتوں میں لگائی گئی تھیں ۔
دل چسپ بات یہ تھی کہ ہر سمت کی گھڑی کا وقت دوسری گھڑی سے مختلف رہا۔ اس گھڑی کا بھی و ہی حشر ہوا جو ماضی میں ہوتاآیا ہے۔ گھڑی کا اچانک ’’الیکٹرونک نظام‘‘ خراب ہوگیا جسے تاحال درست نہیں کرایا جاسکا ، حتی کہ حیدرآباد کی شناخت اور ثقافتی ورثے کی حامل اس عمارت کے نیچے دونوں سمتوں میں بیٹھے جوتے پالش کرنے والوں نے اس کی دیواروں میں کیلیں ٹھونکی ہوئی ہیں، گویا اس عمارت کے تابوت میں کیلیںہیں جس کا وجود بے حسی، نا اہلی اور لوٹ مار کے سبب لاش کی مانندہے۔جب یہ گھنٹہ گھرنیا نیا بنا تھا تو اس کے گرد و نواح میں گوشت سبزی کی مارکیٹیں بھی تعمیر ہوئیں، حسین طرز کے مکانات اور محل بھی بنائے گئے۔
انگریزوں نے حیدرآباد کو جدید خطوط پر استوار کرنے میں معاون ثابت ہونے پر سلاوٹ خاندانوں کو اسی گھنٹہ گھر کے قریب پرانے لندن کی طرز پر اراضی الاٹ کی جس کی بنا پر حیدرآباد کی اہم شاہراہوں، گزرگاہوں، گلیوں میں جا بجا محل تیزی سے سلاوٹ خاندان کے ہاتھوں تعمیر ہونے لگے۔ ان محلات میں پرتاب محل، مکھی محل، مظفر محل، مول چند محل، اعزاز محل، کانگریس محل، راحت محل،موتی محل، روپ محل، جیٹھا مل تیجو مل محل اور کاک محل شامل ہیں۔ لیکن ان محلات میں کانگریسی رہنما دیوان گنگا دھرتک کے نام سے منسوب حیدرآباد کی اہم شہ رگ تلک چاڑی کے مشرق اور لب سڑک کھیانی مینشن کی دیدہ زیب عمارت دکھائی دیتی ہے، جسے 1918ء میں تعمیر کرایا گیا تھا۔ مقامی لوگ اس عمارت کی طرز تعمیر، حسن و قدامت کو دیکھ کرمحل ہی قرار دیتے ہیں ویسے اسے کھیانی چند محل بھی کہا جاتا ہے۔
کھیانی مینشن میں خدا آباد کے بڑھئی، لوہاروں، ہالا کے کاشی گروں و دیگر ہنرمندوں کی مہارت دکھائی دیتی ہے۔ اس محل نما عمارت میں شفاف پانی سے لبریز سوئمنگ پول، گھوڑوں کو کھڑا کرنے کے لئے اصطبل، ہوا دار کمرے، کمروں میں ساگوان کی لکڑی سے بنا فرنیچر، بیلجیئم سے خصوصی طور پر منگوائے گئے شیشے نصب تھے۔ داخلی دروازہ بے جوڑ آہنی جالیوں سے بنا تھا جب کہ عمارت کے مرکزی دروازے کے دونوں جانب یونانی طرز کے بلند اور گول ستون تھے۔ اس محل میں فرانس میں سفیر کے عہدے پر تعینات رہنے والی اہم شخصیت اور قائد اعظم محمد علی جناح کی زندگی پر فلم بنانے والے اکبر ایس دہلوی کے و الد بیرسٹر محمود دہلوی جو بمبئی پریذیڈنٹ کونسل کے رکن بھی تھے، انہوں نے اپنا نجی دفتر اسی محل میں قائم کیاتھا۔ قیام پاکستان کے بعدیہ محل ایک مقامی ڈاکٹر کی ملکیت میں آگیا ۔
خرید و فروخت کا نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہوا ۔ محل میں جہاں وقتاً فوقتاً مختلف نوعیت کی تعمیرات کی گئیں، وہاں یہ کبھی اسپتال میں تبدیل ہوا تو کبھی بچوں کے بنیادی ٹیکوں کا مرکز بنادیا گیا۔بلڈرز کی نگاہیں اس اہم محل پر جمی ہوئی تھیں اور ہر بلڈر کی دیرینہ خواہش تھی کہ دلوں کو موہ لینے والے اس محل کی جگہ بلند و بالا پلازہ اور کاروباری مارکیٹ تعمیر کردی جائے اور بھاری منافع سمیٹ کر کسی دوسری تاریخی و ثقافتی ورثے کی حامل عمارت کو خریدنے کی کوششوںمیں مصروف ہوجائے۔ اس محل کو محکمہ ثقافت سندھ اور ضلعی حکومت حیدرآباد نے ثقافتی ورثہ قراردیا لیکن اس کے باوجود اس خوب صورت محل کو خاموشی سے توڑا جانے لگا تو ادارہ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی حیدرآباد کے افسران و عملہ حرکت میں آگئے اور جب اونٹ کسی کروٹ نہ بیٹھا تو اس محل کو سربمہر کردیا گیا، اس کے باوجود محل کا آدھا وجود صفحہ ہستی سے مٹا دیا۔
مقامی سماجی تنظیمیں اس کے وجود کو مٹانے کے خلاف سراپا احتجاج بن گئیں مگر جہاں متعلقہ ادارے نوٹوں کی چادر اوڑھے سہانے خوابوںمیں ڈوبے ہوں وہاں نقار خا نے میں طوطی کی آواز کون سنتا ہے،کیونکہ انہیں اس امر کا قطعی ادراک نہیں ہے کہ قدیم عمارتیں شہروں کا حسن، اظہار طرز معاشرت اور قوموں کی پہچان ہوتی ہیں تا کہ آنے والی نسلیں ان شخصیات اور ہنرمندوں کو یاد رکھیں،جنہوں نے اس شہر کی محبت میں اپنے وجود اور سرمائے کو فراموش کردیا تھا ،حالانکہ ایسی شخصیات سے کبھی حیدرآباد خالی نہیں رہا۔
ان میں 1882ء کے دوران پرانا ہالا میں جنم لینے والے خان بہادر عظیم خان بھی تھے جو حصول علم کے بعد محکمہ مالیات سمیت بمبئی پریذیڈنسی میں مختلف عہدوں پر فائز رہے۔
1930ء کے دوران جب وہ ضلع تھرپارکر کے کلکٹر و ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ تھے تو انہوں نے سندھ کے چھوٹے کاشت کاروں، زمین داروں اور کسانوں کو زرعی قرضے فراہم کرنے کے لئے ایک منصوبہ تشکیل دیا جس کے نتیجے میں حکومت برطانیہ نے انہیں 1934ء کے دوران ’’خان بہادر‘‘ کے لقب سے نوازا۔ انہوں نے منصوبے کےتحت ’’سندھ پراونشل کوآپریٹو بینک لمیٹڈ‘‘ کے نام سے بینک کی بنیاد رکھی جو 1925ء کے رجسٹریشن کوآپریٹو سوسائٹی ایکٹ VII کے تحت تھی ۔ چونکہ اس سے قبل اس نوعیت کے بینک کا تصور سندھ میں نہیں تھا اس سے قبل عام طور پر لوگ سونا، زمین گروی رکھ کر مطلوبہ رقم ادھار لیا کرتے تھے۔
اس بینک کے لئے حیدرآباد کی مشہور شاہراہ میراں محمد شاہ پر اراضی خریدکر اس پر 1934ء میں ایک عمارت تعمیر کرائی۔ یہ عمارت اب بھی قدیم تاریخی وثقافتی سماجی و تعلیمی حوالوں سے معروف عمارتوں کے درمیان واقع ہے۔ کے بی عظیم خان بلڈنگ کے گردونواح میں بسنت ہال، مٹھا رام ہوسٹل، دیال داس کلب،پوسٹ آفس، نوودیالہ اسکول، ریڈیو پاکستان حیدرآباد، پریس کلب، سٹی کورٹ (کرائون کورٹ) جیسی قدیم عمارتیں شامل ہیں۔ اس عمارت کا افتتاح ایک رنگا رنگ تقریب میں بمبئی کے گورنر لارڈ برابورن نے 7؍ فروری 1935ء کو کیا تھا۔
بینک کی عمارت کی تعمیر اور قرضے کی زرعی مقاصد کے لئے تھے لیکن اس بینک کے اثاثوں کو سیاسی مقاصد کے حصول کے لئے استعمال کیا گیا جس کے نتیجے میں آہستہ آہستہ قرضے واپس نہ ملنے سے بینک کی کمر ٹوٹتی رہی جس کا اندازہ اس امر سے بہ خوبی لگایا جاسکتا ہےکہ 2010ء کے دوران تعینات عملے کو واجب الادا قرض 560 ملین ر وپے اور سود کی مد میں 850ملین روپے کی وصولی کا ہدف ملا تھا لیکن محض 4؍ ملین روپے ہی با اثر شخصیات کے بجائے عام ہاریوں، کسانوں اور زمین داروں سے وصول کرسکا۔
چنانچہ 100؍ ملین روپے میں اس عمارت کی قیمت کا تخمینہ لگا کر اس کی فروخت کا مبہم سا اشتہار مقامی اخبارات میں شائع کرایا گیا لیکن ایک مقامی صحافی کی مداخلت کے نتیجے میں یہ ثقافتی و کاروباری ورثے کی حامل عمارت فروخت ہونےسے بچ گئی۔ 3؍ ہزار 4؍ سو ا اسکوائر فٹ رقبے پر محیط عمارت کا مرکزی دروازہ ساگوان کی بیش قیمت لکڑی سے بنوایا گیا تھا مگر اسے آہنی فولڈنگ گرل لگا کر بدنما بنادیا گیا ،اسی دروازے کے عین سامنے و سیع ہال ہے جہاں قرضوں کے لین دین، چیک پاس بکس، شیئرز کا اجرا و دیگر امور و مسائل کے حل کے لئے علیحدہ علیحدہ کائونٹر تھے، اسی ہال سے منسلک ایک کمرے میں رجسٹرار بینک کا دفتر قائم تھا۔
چھت کے لئے آہنی ٹیئرز گاڈرز برطانیہ سے منگوائے گئے تھے جس پر بڑے پہاڑی پتھروں کو نصب کرکے چونا، بجری و دیگر اشیا کے مرکب سے لیپا گیاتھا۔ یہ عمارت بھی حسب روایت بے حسی کا شکارکے باعث فروخت سے بچ جانے اور متعلقہ افسران اپنے ذاتی مفادات کے حصول میں ناکامی کے بعد اتنے مشتعل ہوئے کہ انہوں نے اس کے دروبام کو آہستہ آہستہ ملیامیٹ کرانا شروع کردیا۔ اب عمارت میں ہر طرف ملبے کے ڈھیر، ٹوٹتی، بکھرتی چھت، بااثر شخصیات کو دیئے جانے والے قرضوں کے حسابات کے کھاتوں کی پوٹلیاں، بجلی سے چلنے و الے پنکھے و فرنیچر تو ملازمین پہلے ہی نکال کر لے گئے تھے، جن ٹائپ رائٹر مشینوں پر کھاتے داروں کو قرضوں کی ادائیگی کے خطوط لکھے جاتے تھے وہ بھی فروخت کردیئے گئے یاافسران و عملے کے گھروں میں ہیں۔
جہاں ٹوٹی بوتلیں جہاں چیخ، چیخ کر بہت سی باتیں بتارہی ہیں، وہیں یہ عمارت خود کو ٹوٹتی، بکھرتی دیکھ رہی ہے اور کہہ رہی ہے کہ بے حس سماج میں جہاں انسان، انسان کی بات سننے کو تیار نہیں، وہاں اس کی بقاکا ذمے دار کون ہے؟ اس کے وجود کو فروخت کرکے دام وصول کرنے والے بدعنوانی کے بازار میں کب تک معتبر ٹھہریں گے۔ ہم تاریخی ورثے کی حامل عمارتیں محض پتھروں، اینٹوں کا بند نہیں ہیں، لیکن ہمارا وجود ہر سماج کے لئےزندہ جاوید ہوتا ہے، مگر فرق صرف اتنا ہے کہ ہماری چیخیں، ہماری صدائیں زندہ قومیں اور ایمان دار افسر ہی سنتے ہیں۔
حیدرآباد ہمیشہ سےسیاسی جدوجہد، احتجاجی تحریکوں، سیاسی جماعتوں کی سرگرمیوں کا محور رہا ہے۔ حیدرآباد کے قلب اوراسٹیشن روڈ پر واقع خوب چند تولا رام محل کی شناخت کا ایک حوالہ یہ بھی ہےکہ اس عمارت میں نہ صرف کانگریس کا دفتر قائم ہوا، بلکہ اس کا افتتاح مہاتما گاندھی نے خود کیا تھا۔ اسی عمارت میں انڈیا کے سابق وزیراعظم ایل کے ایڈوانی نے اس وقت روپوشی اختیار کی تھی کہ جب حیدرآباد کے پہلے پولیس اسٹیشن سٹی میں ان کے خلاف ایک مقامی ہندو خاتون نے پرس چھننے اور اس میں موجود 35؍ روپے لوٹنے پر مقدمہ درج کرایا تھا، حالانکہ ایڈوانی نے اپنی سوانح حیات میں اپنی جائے پیدائش کراچی کو بتایا ہے لیکن یہ بات قطعی طور پر درست نہیں ہے۔ ان کا آبائی گھر اب بھی چھوٹکی گھٹی کے قریب واقع ہےاور یہ گلی ایڈوانی گلی کہلاتی ہے۔
خوب چند تولارام خود بھی ایک سیاسی رہنما تھے اور وہ کانگریس کی سرگرمیوں میں خاصے سرگرم تھے۔ حیدرآباد میں جب جواہر لال نہرو اور ان کی اہلیہ مکھی محل آئے تو یہ ہی وہ شخص تھا کہ جس نے ان کا پرتپاک استقبال کیا تھا۔ 1923ء میں تعمیر ہونے والے اس کانگریسی محل کے بیرونی شمال کی جانب دیوار میں وہ تاج برطانیہ پتھر کو تراش کر نصب کیا گیا ہے کہ جس کے خلاف برصغیر میں کانگریس برسرپیکار تھی۔ کانگریس کا یہ وتیرہ رہاہے کہ وہ دونوں ہاتھوں میں لڈو رکھتی ہے چنانچہ قیام پاکستان کے بعد اس محل کو مقامی لوگوںنے نفرت آمیز نگاہوں سے دیکھا۔ اس محل کو جماعت اسلامی پاسبان، بیمہ کمپنی نے کرائے پر لے لیا جب کہ متروکہ املاک وقف نے بعض خاندان کو مغرب کی سمت کے کمرے بھی کرائے پر دے دیئے۔ محل کے وہ گودام جو اجناس، دفتری کھاتے، کاغذات کے لئے وقف تھے وہاں دکانیں بنادی گئیں۔ان میں ہوٹلیں اور پکوان سینٹر ہی قائم نہیں ہوئے بلکہ ان دکانوں میں گارمنٹس کی بھی خرید و فروخت ہوتی ہے۔
رشوت کے مہیب سائے اس عمارت پر اس وقت منڈلانے لگے کہ جب مقامی لوگوں کو رہائش کے لئے کمرے دیئے گئے جنہوں نے اس محل کے ایک حصے کو توڑ کر پختہ مکانات بنالئے۔ عمارت میں توڑ پھوڑ کے سبب یہ عمارت مخدوش ہوگئی جس کی بنا پر ادارہ ترقیات حیدرآباد کے شعبہ بلڈنگ کنٹرول نے اس محل کو حیدرآباد کی مخدوش عمارت کی فہرست میں شامل کرلیا۔ شاید اس کی بنیادی وجہ یہ بھی ہو کہ کسی بھی تاریخی و ثقافتی ورثے کی حامل عمارت تو توڑنا قانوناً جرم ہے، اور اس کی جگہ دوسری عمارت تعمیر نہیں ہوسکتی۔
چنانچہ شہر کے وسط میں عمارت کی جگہ نئی عمارت کی تعمیر کے لئے بالآخر یہ ہی ایک حربہ استعمال ہوتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہےکہ قدیم عمارتوں کو توڑنے اور محکمے رقم بٹورنے کے بجائے ورثے کے تحفظ کو یقینی اور تزئین و آرائش پر خصوصی توجہ دی جائے تاکہ حیدرآباد میں سیاحت کو فروغ اور سماجی و معاشی سرگرمیوں میں نمایاں تبدیلی آسکے۔ بصورت دیگر محکمہ ثقافت و سیاحت سندھ محض مختلف شخصیات کے ناموں پر میلے منعقد کرکے فنڈز کو ضائع کرنے میں فخر محسوس کرتا رہےگا۔