آج اتوار ہے۔ اب تو لاک ڈائون ختم ہوگیا ہے۔ بچوں بڑوں میں پھر فاصلے ہونے لگے ہیں۔ ایک دوسرے کے بہت قریب رہنے کے چھ ماہ آپس میں گہرا انس تو پیدا کرگئے ہوں گے۔ اب پھر آپ کو کوشش کرنا ہوگی کہ اتوار بچوں کے ساتھ گزاریں۔ آن لائن کلاسز پر گفتگو کریں۔ اللہ نے بڑا کرم کیا ہے کہ پاکستان کی اکثریت کوکورونا سے محفوظ رکھا ہے۔ ہمارے اتحادی امریکہ پر تو قیامت گزر چکی ہے۔
آج چھ ستمبر بھی ہے۔ 55سال پہلے کی بھارت کی جارحیت کے زخم ہرے ہوجاتے ہیں۔ 14اگست 1947 کو ملک ملا تھا۔ 6ستمبر 1965 کو ہمیں قوم ملی۔ لیکن بعد میں ہمارے فوجی جنرلوں نے ایسی ایسی کتابیں لکھیں انکشافات کیے کہ ہماراجذبہ ستمبر چھین لیا۔ ہمیں یہ جنگ جیتنے پر فخر تھا۔ ہم نے اپنے سے پانچ گنا بڑے دشمن کے حملوں کو پسپا کیا۔ دالبندین سے واہگہ تک۔ ادھر سلہٹ سے ڈھاکہ تک قوم ایک ہوگئی تھی۔ وہ بھول گئی تھی کہ جنرل ایوب نے ملک پر قبضہ کیا ہے۔ اپوزیشن کے لیڈروں نے بھی ایوب خان سے یکجہتی کا مظاہرہ کیا تھا۔میں تو شہر ستمبر لاہور میں تھا۔بہت سہانی اور بے قرار یادیں ان دنوں سے وابستہ ہیں۔
جذبۂ ستمبر اور جذبۂ اگست کو زندہ رکھنے کی ضرورت تھی۔ قومیں انہی جذبات سے آگے بڑھتی ہیں۔ میں نے اسی لیے 2022 میں پاکستان کے 75سال ہونے پر ڈائمنڈ جوبلی منانے کی تیاریاں ابھی سے شروع کرنے پر زور دیا ہے۔ اپنے تمام المیوں پر بھی نظر ڈالیں۔ تمام طربیوں کا جشن منائیں۔ ایسا نہیں ہے کہ ہم ہر شعبے میں ہی پیچھے رہ گئے ہیں۔ بہت سے فرزندان وطن نے اپنے کام سے کام رکھا ہے۔ اور اعلیٰ معیار کی خدمات انجام دی ہیں۔
نظریۂ پاکستان ٹرسٹ کے جناب شاہد رشید نے 75واں سال آزادی منانے کا اپنا پروگرام مرتب کرلیا ہے۔ 19صفحات پر مشتمل ’پاکستان ڈائمنڈ جوبلی تقریبات‘ تمام شعبوں کا احاطہ کررہی ہیں۔اللہ تعالیٰ انہیں ہمت دے۔ توفیق دے۔ ہمدرد پاکستان کی محترمہ سعدیہ راشد سے بھی گزارش ہے کہ وہ بھی ایسی تقریبات کا سلسلہ طے کرکے شہیدِ پاکستان حکیم محمد سعید کی روح کو خوش کریں۔ بینکوں۔ یونیورسٹیوں۔ انشورنس کمپنیوں سب کو ایسے پروگرام تشکیل دینے چاہئیں۔ جن میں تحقیق بھی ہو۔ اور تخلیق بھی ہو۔ ایک قوم کو بیدار اور پائندہ رکھنے کے لیے ایسی تقریبات ناگزیر ہوتی ہیں۔ ادیبوں دانشوروں کو اس حوالے سے ناول ۔کہانیاں۔ مثنویاں لکھنی چاہئیں۔ پہلے سے شائع شدہ متعلقہ غیر متنازع کتابوں کو اُردو سمیت تمام پاکستانی قومی زبانوں میں ترجمہ کرکے چھاپا جائے ۔1998- 1971- 1965 کے بعد پیدا ہونے والی نسلوں کے ذہنوں میں بہت سے سوالات ہیں۔ ہمارے معزز اساتذہ کی یہ قومی ذمہ داری ہے کہ ان کے تسلی بخش جواب دیں۔ غیر جانبدارانہ تحقیق پر مبنی واقعات اور دلائل کے ساتھ۔ ملک میں لسانی۔ نسلی اور فرقہ وارانہ افکار کے تحت اتنی گرد اڑادی گئی ہے کہ گلگت سے گوادر تک ایک سی بے چینی ہے۔ فکری انتشار برپا ہے۔ کہیں کسی ادارے میں ایسی قیادت نظر نہیں آتی۔ جس پر اکثریت کو اعتماد ہو اور تو اور اب مقبول علاقائی قیادتیں بھی نظر نہیں آرہی ہیں۔ سرائیکی صوبے کی بات زوروں پر ہے۔ لیکن اس تحریک کا مسلمہ قائد کوئی نہیں ہے۔ کراچی صوبے کا مطالبہ پھر زور پکڑ رہا ہے۔ لیکن اس کا کوئی مقبول قائد نہیں ہے۔ اسی طرح بلوچستان میں بھی کوئی ہر دلعزیز قیادت سامنے نہیں ہے۔ قومی سطح پر بھی کسی کو ایسا لیڈر نہیں کہا جاسکتا جو چاروں صوبوں اور دونوں اکائیوں آزاد جموں کشمیر۔ گلگت بلتستان میں محترم اور مکرّم ہو۔
اس قیادت کے ظہور میں سوشل میڈیا حائل ہے یا ففتھ جنریشن وار۔ یا ہر ادارے ہر شعبے کی خود غرضی۔ مگر ایک قدر مشترک گلگت سے گوادر تک آپ کو نظر آئے گی۔ اگر چہ یہ منفی ہے لیکن یہ احساس ہر جگہ ایک سا ہے۔ اپنے حالات پر عدم اطمینان۔ ماضی تو تلخیوں نفرتوں سے بھرا ہوا ہے۔ حال میں انارکی ہے۔ مستقبل میں بھی کوئی ایسی پارٹی۔ یا قیادت نظر نہیں آتی جسے نجات دہندہ سمجھا جائے۔ ماضی میں کوئی نہ کوئی پارٹی یا قیادت ایسی ہوتی تھی جس سے اکثریت امید باندھ لیتی تھی۔ آپ سوشل میڈیا دیکھ لیں۔ پرنٹ یا الیکٹرانک یا اپنے احباب سے ملنے ملانے میں۔ ایک احساس مشترک ملتا ہے کہ خلق خدا موجودہ وفاقی۔ صوبائی حکمرانوں سے بیزار ہے۔ اپوزیشن سے بھی۔ غیر سیاسی قوتوں سے بھی۔ فوجی حکومتیں بھی آئی ہیں لیکن کوئی منزل تک نہیں لے جاسکی۔ اسی لیے اب بہت کم پاکستانی مارشل لا سے بہتری کی آرزو رکھتے ہیں۔
فکر مندی یہ ہے کہ وہ قیادت جو قوم کو ایک ولولۂ تازہ دیتی ہے جس کے پاس ملک کے انتظام انصرام۔ معیشت۔ زراعت۔ انفرا اسٹرکچر ۔ سیکورٹی۔ ماحولیات۔ بلدیات۔ برآمدات کے بارے میں کوئی متبادل حکمت عملی ہوتی ہے۔ جو اپنی تقریروں۔ تحریروں سے مستقبل کے تحفظ کے خواب دکھاتی ہو۔ آپ دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں ۔ کہیں ارد گرد کوئی ایسا ہے۔ عمران خان۔ شہباز شریف۔ بلاول۔ مولانا فضل الرحمن۔ اسفند یار ولی نے ایسا کوئی مبسوط پروگرام دیا ہے۔ یہ سب ایک دوسرے کے ردّ عمل میں بولتے ہیں۔ کوئی بھی اپنے آپ پر اعتماد نہیں رکھتا۔ ہر ایک کسی سہارے کسی بیساکھی کی تلاش میں ہے۔ عمران خان بھی ایک سہارے پر کھڑے ہیں۔ شہباز شریف بلاول ہائوس کے محتاج ہیں۔ بلاول ہائوس جاتی امرا کا مولانا فضل الرحمن ان سب کے در پر حاضری دے رہے ہیں۔ کوئی پارٹی بھی اپنے طور پر منزل کا تعین کررہی ہے نہ راستے کا۔ حالیہ طوفانی بارشوں نے سیاسی اور غیر سیاسی قوتوں کی انتظامی صلاحیت کو بے نقاب کردیا ہے۔ اس کے بعد تو ملک میں بے چینی اور بڑھ گئی ہے۔ اگرچہ یہ احساس منفی ہے۔ لیکن چاروں صوبے اور دونوں اکائیاں اس عدم اطمینان میں ہم خیال ہیں۔ ایسی صورت حال ایک متفقہ قیادت کی آرزو مند ہوتی ہے ۔ کوئی بھی پارٹی نئی یا پرانی چاروں صوبوں اور دونوں اکائیوں کے آئندہ دس یا پندرہ سال کیلئے پروگرام لے کر آئےکہ ملک کو کس سمت میں لے کر جانا ہے۔ امریکہ پالیسی کیا ہوگی ۔افغان اور بھارت پالیسی کیا ہوگی۔ معیشت کیسے بحال ہوگی۔ عوام اپنے آپ کو اس کے سپرد کردیں گے۔
بلاول اورمریم نئے چہرے ہیں۔ مگر وہ بھی صرف ردّ عمل کی سیاست کررہے ہیں۔ عمل کی نہیں۔ میدان خالی ہے۔ یہ دَور اپنے براہیم کی تلاش میں ہے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)