حذیفہ ممتاز
اینٹی بایوٹک ادویات کے خلاف مزاحمت کرنے والے جراثیم کا بڑھتا ہوا خطرہ ایک بار پھردنیا بھر کے سائنس دانوں کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔ایسا چند برسوں میں سامنے آنے والے طبّی شواہد کی بنیاد پر ہوا ہے۔واضح رہے کہ دو برس قبل چین میں سائنس دانوں نے انسانوں اور مویشیوں میں تمام اقسام کے علاج کی ناکامی کے بعد آخری حربے کے طور پر استعمال کی جانے والی دواوں کے خلاف مدافعت کرنے والے بیکٹیریا دریافت کیے تھے ۔ اس دریافت کے بعد سائنس دانوں نے متنبہ کیاتھا کہ دنیا اینٹی بایوٹکس کے بعد والے دور میں داخل ہو رہی ہے۔
یہ انکشاف سائنسی جریدے ’’لینسٹ‘‘ میںنومبر 2015میں شایع ہو نے والی ایک رپورٹ میں کیا گیا تھا۔اس رپورٹ کے مطابق چین میں ایسے بیکٹیریا ملے ہیں جن پر’’ کولسٹین‘‘ (ایک اینٹی بایوٹک دوا) کا بھی کوئی اثر نہیں ہوتا۔واضح رہے کہ یہ ایسی اینٹی با یو ٹک ہے جو تمام دواوں کے بے اثر ہونے کے بعد استعمال کی جاتی ہے۔سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ بیکٹیریا کی یہ مدافعت دنیا بھر میں پھیل سکتی ہے، جس سے انفیکشنز کے لاعلاج ہونے کا خطرہ بڑھ جائے گا۔
ان حالات میں طبّی ماہرین کی جانب سے یہ خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ دواؤں کے خلاف بیکٹیریا میں مدافعت پیدا ہوجانے کے سبب جدید طب دورِ جہالت میں پہنچ سکتی ہے۔ان کا کہنا ہے کہ اگر دواؤں کے خلاف جراثیم کی مدافعت اسی طرح بڑھتی رہی تو ایک بار پھرزمانہ قدیم کی طرح عام انفیکشن جان لیوا بن جائے گا۔اگر ایسا ہوا تو جدید دور میں جرّاحی اور سرطان کا علاج،جن کا اینٹی بایوٹکس پرانحصارہے،انہیں شدید خطرات لاحق ہو جائیں گے۔
چینی سائنس دانوں نے بیکٹیریا میں آنے والی اس نئی تبدیلی کو’’ایم سی آر - 1‘‘ کا نام دیا ہے، جو’’کولسٹین‘‘ کو بیکٹیریا کوختم کرنے سے باز رکھتا ہے۔یاد رہے کہ یہ جین جانچے جانے والے 20 فی صد مویشیوں، 15 فی صد کچّے گوشت کے نمونوں اور 16 بیمار انسانوں میں پایا گیاتھا۔
سائنس دانوں کو ایسے شواہدبھی ملے ہیں جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ کئی ممالک میں پھیل چکا ہے ۔ کا رڈف یونیورسٹی کے پروفیسر ٹموتھی والش کےمطابق مابعد اینٹی بایوٹکس دنیاایک حقیقت ہے ۔اگر ایم سی آر-1 عالمی سطح پر پھیل جاتا ہے اور یہ دیگر اینٹی بایوٹک جین کے ساتھ انضمام کرلیتا ہے ،جو ناگزیر ہے، تو ہم مابعد اینٹی بایوٹک عہد میں پہنچ جائیں گے۔ان کامزید کہنا ہے کہ ایسے میں اگر کوئی شخص ای کولائی (ایک بیکٹیریا) کی وجہ سے بیمار ہوگیا توطبیب اس کے لیے کچھ نہیں کر سکیں گے۔یہاں یہ خیال رہے کہ پہلے بھی بیکٹیریا کو اینٹی بایوٹکس کے خلاف مدافعت پیدا کرتے دیکھا گیا ہے ، لیکن اب یہ با آسانی دوسرے قسم کے بیکٹیریا میں بھی پھیل رہا ہے ۔
برطانیہ میں سب سے بڑے طبّی تحقیقی فلاحی ادارے ’’ویلکم ٹرسٹ‘ ‘کے سربراہ پروفیسر جرمی فیرر نے جنوری 2014 میں کہا تھا کہ یہ درحقیقت ایک عالمی مسئلہ ہے۔ اگر ضروری اقدامات نہ کیے گئے تواینٹی بایوٹکس کا سنہری دور ختم ہو سکتا ہے۔ان کا یہ بیان برطانیہ کی چیف میڈیکل آفیسر، ڈیم سیلی ڈیوس کے بیان کی تائید تھا جنہوں نے2013 میں کہا تھا کہ اینٹی بایوٹکس کے خلاف بڑھتی ہوئی مزاحمت ٹائم بم کی طرح ہے۔انہوں نے اس خطرے کو دہشت گر د ی کے مساوی خطرہ قرار دینے پر زور دیا تھا۔
یہ مسئلہ اتنا گمبھیر ہے کہ جی ایٹ ممالک کے سائنس کے وزیروں نے لندن میں جون 2013 میں ہونے والے ایک اجلاس میں ادویات کے خلاف مزاحمت کرنے والے انفیکشنزکے مسئلےپر بات چیت کی۔علاوہ ازیں 1998 میںبرطانیہ کے ایوان بالا کی ایک رپورٹ میں کہا گیا تھاکہ اینٹی بایوٹکس کے خلاف جراثیم میں پیدا ہونے والی مدافعت سے لاحق خطرات انسانیت کو اینٹی بایوٹکس سے قبل کے دور میں لے جارہے ہیں۔
آج کے جدید دور میں زیادہ تر بیماریوں کا علاج
اینٹی بایو ٹکس کے ذریعے ہی ہورہا ہے۔
آج دنیا میں موجود بیش تر افراد اینٹی بایوٹکس کے دور میں پیدا ہوئے ہیں،چناں چہ ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ اینٹی بایو ٹک ہی بیماریاں پیدا کرنے والے جراثیم کےمسئلے کا مستقل حل ہے ۔ پہلی اینٹی بایو ٹک 1928 ء میں دریافت ہوئی تھی ،تاہم اس کا وسیع پیمانے پر استعمال 1950ء کی دہائی میں شروع ہوا تھا ۔یعنی اینٹی بایو ٹکس ایک صدی سے کم عر صے سے زیر ِاستعمال ہیں ،لیکن امراض بنی نوعِ انسان سے بھی قدیم ہیں اور مسلسل بڑھ رہے ہیں ،جیسا کہ آج کل دنیا بھر میں کورونا وائرس کا جال پھیلا ہوا ہے ۔
طبّی ماہرین کے مطابق اینٹی بایوٹکس کے خلاف مدافعت سے لاحق خطرات انسانوں کو اینٹی بایوٹکس سے قبل کے دور میں لے جا رہے ہیں۔دنیا بھر میں تپ دق کی دواؤں کے خلاف مزاحمت مسلسل بڑھ رہی ہے ۔ برطانوی طبیبوں کے مطابق تپ دق یعنی ٹی بی کی ادویات کے خلاف مزاحمت کے واقعات میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے اور اب اس مرض کے علاج میں چند مہینے ہی لگتے ہے۔ماہرین کے بہ قول یہ خبر اتنی بری نہیں ہے، تاہم بعض مسائل اس سے کہیں بدتر ہیں۔ مثلا دس برس قبل جنوبی افریقاسے یہ خبرآئی تھی کہ وہاں دواؤں کے خلاف مد ا فعت بہت زیادہ حد تک بڑھ گئی ہے۔
طبّی ماہرین کے مطابق عوامی سطح پر لاحق طبی خطرات راتوں رات نہیں بڑھتے بلکہ ان کے لیے تنبیہی علامتیں طویل عرصے سے ظاہر ہوتی رہتی ہیں۔پروفیسر فیرر کا کے مطابق ہم اینٹی بایوٹکس کو بہتر طریقے سے استعمال کر سکتے ہیں۔اس حوالے سے مزید تحقیق کرنے کے لیے ہمیں سرمایہ کاری کرنی چاہیے۔
ایک جانب دنیا اینٹی بایوٹکس کے خلاف جراثیم میں بڑھتی ہوئی مدافعت کے پیشِ نظر ان کے بہت محتاط انداز میں استعمال پر زور دے رہی اور دوسری جانب ہم ہیں جو بے دھڑک ان کے غیرضروری استعمال سے بھی نہیں چوکتے۔یہ بات جرنل آف پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کے اکتوبر 2016کی اشاعت میں شایع ہونے والے ایک مقالے میں کہی گئی ہے۔تحقیق کاروں کا کہنا ہے کہ پاکستان میں یہ مسئلہ اس قدرپے چیدہ اور کثیرالجہتی ہے کہ اس کے حل کے لیے معاشرے کے مختلف طبقوں کو مل کر کام کرنا ہو گا، جن میں حکومت، ڈاکٹر، فارماسیوٹیکل کمپنیز، فارماسسٹ، میڈیکل اسٹور کے مالکان اور مریض شامل ہیں۔
ایک تحقیق کے مطابق اینٹی بایوٹک ادویات کے خلاف مدافعت رکھنے والے جراثیم کے ہاتھوں دنیا بھر میں سات لاکھ کے لگ بھگ افراد ہلاک ہو تے ہیں۔ لیکن 2040 تک یہ تعداد بڑھ کر 30 کروڑ ہو جائے گی اور اس پرآنے والی لاگت ایک ہزار کھرب ڈالرز سے تجاوز کر جائے گی۔لیکن پاکستان میں اس سلسلے میں درست اعداد و شمار موجود ہیں اور نہ ہی کوئی ایسا ادارہ ہے جو اس مسئلے پر نظر رکھ رہا ہو۔ البتہ ایسی تحقیق موجود ہیں جن سے مسئلے کی سنگینی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
ایک مقالے کے مطابق پاکستان میں اکثر ڈاکٹرز بلاضرورت اینٹی بایوٹکس ادویات تجویز کرتے ہیں اور اس ضمن میں وہ عالمی سطح پر موجودسفارشات کا خیال نہیں رکھتے۔ پشاور میں ہونے والی ایک تحقیق سے ظاہر ہوا ہے کہ ڈاکٹرز کا ایک بھی نسخہ معیار کے مطابق نہیں تھا ۔ پاکستان میں ضرورت سے زیادہ،یعنی 50 ہزار ادویات رجسٹرڈ ہیں۔ان کی تشہیر کا 18 فی صد حصہ بلاجواز اورگُم راہ کن ہے۔ صرف 15 فی صد تشہیری بروشرعالمی ادارہ صحت کے معیار پر پورے اترتے ہیں۔مقالے میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں کوئی بھی شخص جا کر میڈیکل اسٹور سے کسی بھی قسم کی ادویات بغیر ڈا کٹر ی نسخے کے باآسانی خرید سکتا ہے۔ اس عمل کی وجہ سے لوگوں میںاپنا علاج خود کرنے کی عادت کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔
اکثر اوقات یہ دیکھا گیا ہے کہ معمولی زکام، بخار یا کھانسی ہوتے ہی لوگ اینٹی بایوٹک کھانا شروع کر دیتے ہیں اور جوں ہی ذرا سا افاقہ ہوتا ہے وہ دوا کا استعمال ترک کردیتے ہیں۔یہ تمام عوامل جراثیم میںاینٹی بایوٹکس کے خلاف مدافعت پیدا کرنے کا باعث بنتے ہیں۔ان کے مطابق چند برس قبل برطانوی طبی جریدے’’ لینسٹ‘‘ میں ایک تحقیقی رپورٹ شایع ہوئی تھی جس میں بتایا گیا تھا کہ بھارت اور پاکستان میں جراثیم کی ایسی نسلیں پنپ ر ہی ہیں جن پر دو کو چھوڑ کر باقی تمام اینٹی بایوٹکس بے اثر ہیں۔ماہرین کا کہنا ہے کہ اس سلسلے میں لوگوں کو آگا ہی دینے کی اشد ضرورت ہے۔
تحقیق کارکے مطابق عام طور سے بخار خود ہی ٹھیک ہو جاتا ہے۔ اس کے لیے ٹیسٹ کرانے کی ضرورت ہے اور نہ ہی اینٹی بایوٹک استعمال کرنے کی۔ لیکن اگر بلاضرورت اینٹی بایوٹک استعمال کی جائیں تو ایسے جراثیم وجود میں آ سکتے ہیں جن پر بعد میں وہ اینٹی بایوٹک اثر نہیں کرے گی۔ یہی وجہ ہے کہ چند برس قبل جن جراثیم سے پیدا ہونے والی بیما ریوں کاآسانی سے علاج کیا جا سکتا تھا،اب ان پر اینٹی بایوٹکس بالکل ہی بے اثر ہو گئی ہیں یا پھر ان کے لیے سیکنڈ لائن ادویات کی ضرورت پڑتی ہے جو بہت منہگی ہیں ۔ چنا ںچہ وہ بیماری جو چند سو روپوں میں ٹھیک ہو سکتی تھی، اب اس کے علاج پر کئی ہزار روپے خرچ کرنے پڑتے ہیں۔
اس مسئلے پر اس وقت تک نہیں قابو نہیں پا یا جا سکتا جب تک اس کے لیے کوئی واضح پالیسی ترتیب نہ دی جائے ۔یہ مسئلہ صرف انسانوں تک محدود نہیں ہے، بلکہ جانوروں اور مرغیوں کو بھی بے تحاشا اینٹی بایوٹکس دی جا رہی ہیں، جن کی وجہ سے ان میں بھی مدافعت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اس لیے اس پر بھی قابو پانے کی ضرورت ہے۔