میں کئی روز سے اسلام آباد میں ہوں، آل پارٹیز کانفرنس اور اس کے بعد ہونے والی حکومتی ہلچل اور بےچینی بوکھلاہٹ کاشاہد ہوں۔ حکومت اضطراب کا شکار نظر آرہی ہے۔ جس طرح حکومت میاں صاحب کی تقریر پر اپنے شدید ردِعمل کا اظہار کررہی ہے اس سے میاں صاحب اور اُن کے حامیوں کی اہمیت بڑھ رہی ہے۔ APCکو ہوا بنایا جا رہا ہے۔ میاں نواز شریف کی تقریر کو جس طرح سے اہمیت دی جارہی ہے وہ سب کے سامنے ہے حالانکہ یہ تقریر سراسر آبیل مجھے مار کے مصداق ہے۔ سیاست اپنے انتقامی جذبوں کے اظہار کا نام نہیں بلکہ بہت برداشت اور صبر سے کام لیتے ہوئے عوام کے مفادات کو مدِنظر رکھتے ہوئے عوامی بھلائی کو اہمیت دینا ہے۔ دراصل مثبت سیاست ہی اصل سیاست ہے۔ میاں صاحب جو پرویز مشرف کے مارے ہوئے ہیں، میاں صاحب اُس مار کو کسی طرح بھلانے کو تیار نہیں۔ انہوں نے کھل کر کہا ہے کہ اُن کا اختلاف عمران خان سے نہیں، اُنہیں لانے والوں سے ہے، اسی طرح عدلیہ، جس نے انہیں وزارتِ عظمیٰ سے نااہل کیا، وہ بھی اُن کے نشانے پر آگئی ہے جبکہ وہ خوب اچھی طرح جانتے ہیں کہ اس ہی عدلیہ نے اُن کے حق میں بھی فیصلے دیے ہیں۔ کیا میاں صاحب چاہتے ہیں کہ جائز یا ناجائز صرف اُن کے حق میں فیصلے آئیں تو عدلیہ آزاد اور خود مختار ہے حالانکہ وہ بحیثیت سیاستدان اور تین بار وزیراعظم رہنے کی وجہ سے خوب اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ عدلیہ اور فوج کے ادارے ملکی سلامتی کے لئے کتنے اہم اور ضروری ہیں، ان اداروں کو ہر قسم کی سیاست سے پاک رہنا چاہئے اگر میاں صاحب سمجھتے ہیں کہ موجودہ حکومت نے فوج کے ساتھ ملکر عدلیہ کو اپنا پابند کر لیا ہے اور اپنی مرضی کے فیصلے کرا رہی ہے اور نیب تو ہے ہی حکومتی انتظام کا نام جو مخالفین خصوصاً اُن کی جماعت سے انتقام لینے کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے۔ تو انہیں یاد کر لینا چاہئے کہ اسی عدلیہ کی وہ تعریف بھی کرتے رہے ہیں، اب ایسا کیا ہوگیا کہ میاں صاحب اس قدر ناراض ہو گئے ہیں، میاں صاحب کا اِن اداروں سے براہِ راست ٹکرائو کسی طرح مناسب نہیں، ان اہم ترین اداروں کو سیاست میں لانے کے نقصانات اہلِ سیاست خوب اچھی طرح سمجھتے ہیں۔ میاں صاحب خود بھی اس کے محرک رہے ہیں۔ میاں صاحب کو اپنا سیاست سے نکالا جانا تو یاد ہے لیکن اپنا سیاست میں لایا جانا یاد نہیں رہا، انہیں یاد رکھنا چاہئے کہ انہیں بھی لانے والے وہی ہیں جو موجودہ حکومت کو لانے والے ہیں۔ ماضی کے احسانات کو بھول کر انہیں اپنا نکالا جانا ہی یاد ہے، ابھی تک انہیں یہ احساس نہیں ہو سکا کہ انہیں کیوں نکالا گیا؟ کیوں سیاست بدر کیا گیا؟ اگر وہ آج بھی اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھ لیں تو شاید انہیں معلوم ہو جائے لیکن اس سے معلوم ہو رہا ہے کہ میاں صاحب واقعی بیمار ہیں۔ وقت کا تقاضا تھا کہ میاں صاحب آل پارٹیز کانفرنس کے موقع سے فائدہ اُٹھاتے اور فوج اور عدلیہ سے اپنے انتقامی جذبے کو بھلا کر سیاسی مصلحت سے کام لیتے ہوئے اپنی راہ کی سیاسی اور غیرسیاسی رکاوٹوں کو دور کرنےکی کوشش کرتے۔ سیاست تو نام ہی منافقت ہے۔ میاں صاحب نے ثابت کردیا کہ وہ ایک اہم اور بڑے لیڈر ہونے کے ساتھ بڑے بدلہ لینے والے بھی ہیں، اس طرح میاں صاحب ایک دانشمند سیاسی لیڈر کے بجائے ایک منتقم مزاج شخص بن کر سامنے آرہے ہیں۔ میاں صاحب کے سنجیدہ حامی افراد کا خیال ہے کہ میاں صاحب نے وطن اور سیاست میں واپس آنے کا سنہری موقع ضائع کردیا۔ افواج اور عدلیہ سے اپنی ناراضی کا اس طرح اظہار نہیں کرنا چاہئے تھا۔ APCابھی چل ہی رہی تھی کہ میزبان پیپلز پارٹی اور مولانا فضل الرحمٰن میں پیدا ہونے والا شدید اختلاف سامنے آگیا۔ آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا۔ حکومتی وزرا اور اُن کے حمایتیوں کا خیال ہے یہ بھان متی کا کنبہ ہے جس میں ابھی سے دراڑیں پڑنا شروع ہو گئی ہیں۔ آرمی چیف اور آئی ایس پی آر کے سربراہ نے سیاسی سربراہان سے ملاقات میں واضح کردیا ہے کہ سیاسی معاملات میں فوج کا کوئی کردار نہیں نہ ہی فوج کا براہِ راست یا بالواسطہ کوئی تعلق ہے، سول انتظامیہ کے کہنے پر ہی اُن کی مدد کرتے ہیں۔ اُنہیں سیاست میں آنے کا کوئی شوق نہیں۔ اللہ پاکستان کی حفاظت کرے اور اہلِ سیاست کو صبر، قوتِ برداشت کے ساتھ عقلِ سلیم سے نوازے۔ آمین